جناب منیر نیازی کا بطور شاعر جو مقام ہے، اُس سے ہر کوئی واقف ہے ،وہ میرے بھی پسندیدہ شاعر تھے۔ شاعر ہونے کے علاوہ وہ بہت اچھے انسان بھی تھے۔ باتوں باتوں میں نہایت خوبصورت بات کہہ جایا کرتے تھے۔ ان سے میری یاد اللہ تو بہت پُرانی تھی۔ بعد میں وہ ماڈل ٹائون لاہور میں میرے ہمسائے بھی رہے ۔ پھر ٹائون شپ لاہور میں انھوں نے اپنا مکان بنا لیا۔ میں اکثر وہاں بھی حاضری دیتا تھا۔ آج ان کی حاضر جوابی اور WIT کے چند نمونے حاضر ہیں۔ایک بار میں نے انھیں احمد شہزاد کا یہ شعر سنایا میں ترا کچھ بھی نہیں ہوں ، مگر اتنا تو بتا دیکھ کر مجھ کو ترے ذہن میںآتا کیا ہے "اُلّو " منیر صاحب نے کہا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک بار انھیں ہندوستان کا ویزہ ملنے میں دیر ہوگئی جہاں انھوں نے دہلی میں مشاعرہ پڑھنا تھا۔ میں نے کہا ، ـ"منیر صاحب ویزہ نہیں ملتا تو نہ سہی ۔ مشاعرہ آپ کے لئے کون سی نئی چیز ہے" یہ سُن کر فرمایا : " بات مشاعرے کی نہیں۔ وہاں شراب کوکاکولا کی طرح دستیاب ہے۔" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر اجمل نیازی ایک واقعہ کا ذکر یوں کرتے ہیں کہ: منیر نیازی ایک دفعہ کراچی گئے تو جون ایلیا نے انہیں کہا کہ "منیر خان! تمہارے بال سفید ہوگئے ہیں" منیر نیازی نے جواب دیا: "بچّو! جو مجھ پر گزری ہے تم پر گزرتی تو تمہارا خون سفید ہو جاتا۔" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لندن کی ایک بین الاقوامی اردو کانفرنس میں جگن ناتھ آزاد اپنا انگریزی مقالہ پڑھ کر ڈائس سے نیچے اُترے تو اگلی رو کے سامعین میں شامل منیر نیازی نے انہیں داد دیتے ہوئے کہا، " آزاد ! تم تو انگریزی یوں فر فر بولتے ہو، جیسے کشور ناہید فر فر جھوٹ بولتی ہے۔" ساتھ بیٹھی ہوئی کشور ناہید نے یہ سنا اور منیر نیازی کو بے نقط سنانی شروع کردیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منیر نیازی ایک مرتبہ رکشے میں جا رہے تھے اور خیالات میں گم تھے کہ اچانک رکشہ رک گیا۔ انہوں نے رکشہ ڈرائیور سے پوچھا۔ ''کیا معاملہ ہے؟" جواب ملا، "جنازہ گزر رہا ہے۔" منیر نیازی جو جملہ سازی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے بولے۔ " ظالمو ! تم بھی کیا لوگ ہو، زندہ انسان کچل کر گزر جاتے ہو اور جنازے کے احترام میں رکشا کو روک لیتے ہو۔ " ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میانوالی میں ایک مشاعرے کے بعد بہت سے شعرا چائے کے کپ پر محمد طفیل مدیر "نقوش" کی غیبت میں مصروف تھے۔ اُن دنوں طفیل صاحب رائٹرز گلڈ کے سیکرٹری جنرل تھے اور رائٹرز گلڈ عروج پر تھی۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ گلڈ کے ذریعے طفیل نے کئی غیر شاعروں کو پلاٹ دلوا دئیے ۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ گلڈ کے تعلقات استعمال کر کے موصوف نے اپنا پبلشنگ ہائوس قائم کر لیا ہے، کوئی بتا رہا تھا کہ طفیل صاحب بہت سیانے آدمی ہیں۔ ہمیشہ اپنا ہی فائدہ سوچتے ہیں۔ جب کافی دیر ہوگئی تو ایک کونے میں بیٹھے ہوئے منیر نیازی بولے: " اس شخص کے سیانا ہونے کا اندازہ تو اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اپنی غیر موجودگی میں بھی اپنی باتیں کرواتا اور ہمارا وقت ضائع کرواتا ہے۔" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک بار احمد بشیر نے کہا پتا نہیںکیا بات ہے۔ میں جب بھی شراب پیتا ہوں، جسم پر " دھپڑ" نکل آتے ہیں۔ " اصل میں شراب کو بھی پتہ چل جاتا ہے کہ اسے کون پی رہا ہے۔" منیر نیازی بولے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صابر ظفر نے آج سے پندرہ سال پہلے کہیں پوچھ لیا کہ نیازی صاحب ! ادب میں میرا کیا مقام بنتا ہے۔ منیر نیازی بولے: " کاکا، حالے تے تیرے مقام دی میم وی نئیں بنی تو مقام پیا لبھنا ایں۔" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک منتظم مشاعرہ معاوضے کی رقم میں کمی کے خواہاں تھے، چنانچہ انہوں نے ایک دوسرے شاعر کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اسے ہم جتنے پیسے بھی دیں وہ لے کر خوش ہو جاتا ہے۔ اس پر منیر نیازی بولے: "اس شاعر کا کیا ہے وہ تو آٹا لے کر بھی خوش ہو جاتا ہے۔" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منیر نیازی کشور ناہید کے بارے میں لکھتے ہیں: ـ" میں اپنی فیملی فرینڈز سے اپنی بیوی کو پردہ نہیںکراتا لیکن اگر کشور ناہید میرے گھر آئے تو اس سے پردہ کراتا ہوں۔" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فیصل آباد کی ایک خاتون نے پہلی بار جب منیز نیازی کو اُردو شاعری کے بارے میں فیکٹس اینڈ فگرز پیش کیے تو وہ مجھے سر سے پائوں تک دیکھتے ہوئے بولیـ: " فیکٹس کا تو پتا نہیں " فگرز" البتہ ٹھیک ہیں" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منیر نیازی نے پہلی بیوی کی وفات کے کچھ دنوں بعد دوسری شادی کر لی تھی۔چنانچہ کالج کے ایک مشاعرے میں جونہی انہوں نے اپنی معروف نظم کا یہ مصرعہ پڑھا: ـ" ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں" تو پیچھے سے آواز آئی: " ویاہ کر ن لگیاں تے ذرا دیر نئیں جے لائی" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک محفل میں قثیل شفائی اپنے حجام کی خوبیوں کا ذکر کر رہے تھے اور بات آپہنچی اس نکتہ پر کہ انسانی جسم میں دو چیزیں ایسی ہیں جنہیں کاٹا جائے تو لہو کی ایک بوند بھی نہیں ٹپکتی ۔ سب حیران ہوئے کہ وہ ایسی دو کون سی چیزیں ہیں۔۔۔۔؟ کٹ بھی جائیں اور لہو بھی نہ نکلے۔ قتیل صاحب نے جلد ہی سب کی حیرانی یہ بتا کر دُور کر دی کہ انسانی جسم میں یہ دو چیزیں جن کو کاٹنے سے خون نہیں نکلتا، ایک تو انسانی بال ہیں دوسرے ناخن۔۔۔۔ ابھی قتیل صاحب نے فقرہ بھی مکمل نہیں کیا تھا کہ منیر نیازی بولے: "قتیل ! تُو فیر ساڈے پنڈ دا نائی نئیں دیکھیا" (تُو نے پھر ہمارے گائوں کا حجام نہیں دیکھا) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پاکستان رائٹرز گلڈ نے ایک برس اعلان کیا کہ سالانہ جلسے میں ایذ را پائونڈ اور ژاں پال سارتر کو بلائیں گے۔ پھر سوال اٹھا کہ ان بزرگوں کو ٹھہرائیں گے کہاں؟ سوال پریشان کن تھا تب منیر نیازی نے کہا کہ سارتر کو تو میں اپنے ہاں ٹھہرا لوں گا۔ یعنی کہاں۔۔۔۔۔ کسی نے سوال کیا۔ اس پر منیر نیازی نے کہا کہ میں نے اچھرہ موڑ پر ایک کمرہ کرائے پر لے لیا ہے۔ ایک چارپائی تو ہے، ایک چارپائی کا انتظام میں اور کر لوں گا۔ سارتر بھی ادیب ہے میں بھی ادیب ہوں، زیادہ تکلف کی ضرورت نہیں۔ ہم دونوں مزے میں رہیں گے۔ اس پیش کش پر اعجاز بٹالوی نے تیوری پر بَل ڈالے اور کہا کہ دیکھئے منیر نیازی صاحب بات یہ ہے کہ یورپین ادیب رہائش کے معاملے میں باتھ روم کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ آپ کا باتھ روم کیا ہے۔ اس سوال پر منیر نیازی بہت گڑ بڑایا ۔ یوں یورپین ادیبوں کی آمد کا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا۔