ترکی نے اعلان کیا ہے کہ وہ آرمینیا کے حملے کے خلاف آذر بائیجان کی فوجی امداد کرے گا اور اسلحہ اور جہاز بھیجے گا۔ آرمینیا نے 1992ء میں حملہ کر کے آذر بائیجان کے ایک بڑے علاقے نگورنو کارا باخ پر قبضہ کر لیا تھا اور حال ہی میں اس نے پھر محدود جنگ چھیڑ دی ہے۔ آذر بائیجان شیعہ اکثریت کا ملک ہے لیکن اس کا اتحادی ترکی ہے جبکہ عیسائی ملک آرمینیا کا ایران سے دوستانہ ہے۔ یہ مضبوط معیشت کا ثمر ہے کہ ترکی اب تیسرے علاقائی تنازعے میں ملوث ہونے والا ہے۔ ترکی حال ہی میں دنیا کی دس بڑی معیشتوں میں شامل ہوا ہے۔ پہلے وہ شام اور عراق کے معاملات میں ملوث ہوا اور شام کی پوری شمالی سرحد پر 30میل چوڑائی والی پٹی پر قبضہ کر لیا جبکہ عراق کے شمال میں وہ پندرہ میل تک اندر آ چکا ہے۔ اس کے علاوہ شام کے مسلم اکثریتی صوبے ادلیب پر بھی اس کا کنٹرول ہے۔دوسرا بڑا اور سب سے اہم تنازعہ لیبیا کا ہے۔ لیبیا میں عملاً دو حکومتیں قائم ہیں۔ طرابلس (ٹریپولی) میں قومی اتفاق رائے کی حکومت ‘دوسری باغی جنرل ہفتار کی انتظامیہ جو بن غازی میں قائم ہے۔ جنرل ہفتار مصر کے جنرل السیسی کی طرح زبردست اسلام مخالف اور اسرائیل دوست ہے۔باوجود یکہ قومی اتفاق رائے کی حکومت کو اقوام متحدہ نے تسلیم کر رکھا ہے‘ امریکہ‘ فرانس ‘ روس باغی جنرل کی مدد کر رہے ہیں۔ علاقائی ممالک میں سعودی عرب‘ مصر اور متحدہ عرب امارات باغی حکومت کی مالی اور اسلحی مدد کر رہے ہیں۔ ایران‘ شام کی بشار انتظامیہ اور اسرائیل بھی ہفتار کے حامی ہیں۔ قومی حکومت کی حمایت اور مدد صرف ترکی اور قطر کر رہے ہیں۔ دو تین ماہ پہلے ہفتار کی باغی فوج نے طرابلس کا محاصرہ کر لیا تھا لیکن پھر ترکی نے فوج بھیجی اور چند ہفتوں کی شدید لڑائی کے بعد باغی فوج کو دور دھکیل دیا اور اس کے قبضے سے بہت سے علاقے چھڑا لئے۔ اس وقت لیبیا کی 65فیصد آبادی والے رقبے پر قومی اتفاق رائے والی حکومت کا قبضہ ہے۔ باغیوں کے زیر قبضہ رقبہ زیادہ ہے لیکن آبادی محض 35فیصد، ترک افواج نے اب اہم شہر سرت‘ کا محاصرہ کر لیا ہے جو دراصل لیبیائی تیل کا ٹرمینل ہے۔ اس پر ترکی اور قومی حکومت کا قبضہ ہو گیا تو باغی فوج کو سخت صدمہ پہنچے گا اور اس کی ہوا اکھڑ جائے گی۔ سرت شہر خلیفہ دوئم حضرت عمرؓ نے بسایا تھا۔ پہلے یہاں ایک آبادی تھی‘حضرت عمرؓ نے اسے شہر کی شکل دی اور چھائونی بنائی۔ خلیفہ دوئم نے سب سے زیادہ نئے شہر بسائے تھے۔ موصل‘ کوفہ‘ بغداد‘ فسطاط‘ الجیزہ سمیت کئی شہر ان کے حکم اور نگرانی میں بنائے گئے۔ مصر اور سعودی عرب اس صورتحال پر سخت پریشان ہیں اور وجہ یہ ہے کہ قومی اتفاق رائے کی حکومت میں اخوان المسلمون بھی شامل ہے۔ سعودی عرب نے مطالبہ کیا کہ مصر اپنی فوج لیبیا میں داخل کر دیے۔ مصر نے اس مطالبے پر یہ پیشرفت کی کہ جنرل ہفتار سے کہا کہ وہ باضابطہ درخواست کرے کہ مصری فوج بھیجی جائے تاکہ ایک قانونی جواز مل سکے۔ دو ہفتے قبل ہفتار نے یہ درخواست کر دی لیکن مصر نے فوج نہیں بھیجی البتہ سرحد پر ٹینک ضرور لگا دیے۔ مصر کی فوج دراصل ایک کاروباری ادارہ بن چکی ہے اور جنگ سے ڈرتی ہے۔ ماضی میں بھی مصری فوج کا ریکارڈ اچھا نہیں رہا۔ سینئر قارئین کو معلوم ہو گا کہ 1973ء کی جنگ میں مصر کا سقوط ہو چلا تھا۔ اسرائیل نے واحد بڑی بندرگاہ اسکندریہ کا تین طرف سے محاصرہ کر لیا تھا اور اسرائیلی فوج دو طرف سے مصر میں داخل ہو گئی تھی۔ بحرہ احمر کے کنارے وسیع مصری علاقہ اس کے قبضے میں گر گیا تھا۔ پھر امریکہ نے مداخلت کی‘ اسرائیلی فوج اپنی مرضی کے معاہدے کے وعدے پر واپس ہوئی۔ کیمپ ڈیوڈ کا معاہدہ ہوا جس کے بعد سے مصر اسرائیل کے زیر اثر چلا آ رہا ہے۔ مصر میں اسرائیل پر تنقید ایسا جرم ہے جس کے مرتکب کی ضمانت نہیں ہو سکتی۔ سعودی عرب اس پر بھی پریشان ہے کہ لیبیا کے پڑوسی ملک تیونس میں سپیکر شپ کے عہدے پر اخوان المسلمون کے راشد غنوشی فائز ہیں۔ اس کا دبائو ہے کہ تیونس کی فوج غنوشی کو برطرف کرے۔ سعودی عرب کی معیشت یمن جنگ میں تباہ کن شکست کی وجہ سے متاثر ہوئی ہے۔ لیبیا میں باغیوں کی کامیابی کے لئے جتنا سرمایہ چاہیے‘کیا سعودی عرب اتنا مہیا کر سکے گا۔سرت پر متوقع ترک حملے کے بعد صورتحال زیادہ واضح ہو جائے گی(تین سال پہلے تک یمن میں سعودی اتحاد فاتح تھا‘پھر پانسہ الٹی سمت لڑھکنے لگا اور اب تک لڑھکتا ہی جا رہا ہے)۔ پی ٹی آئی کے نئے پاکستان کو پرانے پاکستان کے باسیوں نے دو سال میں جی بھر کے دیکھا‘ اب حکومت نے نیا تصور دیا ہے۔ ابھرتا پاکستان! ماشاء اللہ ابھرنے پاکستان کی چند صرف چند جھلکیاں مشتے از خر وارے کے طور پر ملاحظہ فرمائیے۔ (ایک ہی دن کی اخباری سرخیوں سے ننھا منا انتخاب) چینی کی قیمت میں فی ہفتہ دو روپے کا اضافہ‘90روپے کلو ہو جائے گی۔ آٹا کی قلت 60فیصد تک پہنچ گئی۔ گندم 23 سو روپے من ہو گئی(کاشتکاروں سے 14سو روپے من خریدی گئی تھی) ستمبر 2018ء سے اب تک آٹا 94فیصد(یعنی دو گنا)مہنگا ہو گیا، چینی سبزیاں پھل،دالیں مزید مہنگی‘ پیاز ٹماٹر لیموں سرے سے غائب، حکمرانوں کے اربوں روپے کے جائز اثاثے۔ (بنا منی ٹریل) سات کی غیر ملکی شہریت ‘ پنجاب میں کرپشن کے بڑھنے پر وزیر اعظم کی برہمی(اندر کی خبر کے حوالے سے ایک اخبار کی سرخی) برسبیل تذکرہ‘ پنجاب میں کرپشن کے ڈنکے بج رہے ہیں تو وفاق میں نقارے‘وہاں کی ’’برہمی‘‘ کی خبر نہیں آئی۔ ترکی جمہوریت کے ثمرات سمیٹ رہا ہے یعنی ڈیموکریسی کے، پاکستان ’’سلیکٹو کریسی‘‘کی برکات کی لامتناہی اور موسلا دار بارش میں غرقاب ہوا جارہا ہے۔