برطانوی پارلیمانی جمہوری نظام کی جو مسخ شدہ صورت ، جنوبی ایشیاء میں رائج ہے، اس نے کئی ایسے لیڈروں کو بام عروج تک پہنچانے کا کام کیا ہے ، جن کی کبھی کوئی عوامی ساکھ نہیں تھی۔ مگر انہوں نے حکومت اور سیاسی پارٹیوں میں اتنے اہم عہدے حاصل کئے کہ منتخب نمائندے بھی ان کے آگے دم ہلاتے نظر آتے ہیں۔ بھارتی سیاست پر اگر نظر دوڑائی جائے، تو اس قبیل کے لیڈروں میں فی الفور آنجہانی ارون جیٹلی، سابق نائب صدر وینکیا نائیڈو، پریم چند گپتا، مکھن لال فوطیدار، آنجہانی امر سنگھ،راجیو شکلا ، مرحوم احمد پٹیل اور غلام نبی آزاد کا نام ذہن میں آتا ہے۔ ان میں سے بس چند ہی ایسے تھے، جوایک آدھ پنچایت یا لوکل کونسل کا انتخاب اپنے بل بوتے پر جیتنے کی سکت رکھتے ہوں، ورنہ یہ صرف اپنے جوڑ توڑ، مہربان قسمت اور حکمت عملی ترتیب دینے کی وجہ سے ’’ماسٹر اسٹریٹجسٹ‘‘کے نام سے مشہور ہوکر پارٹی اور اسکی اعلیٰ لیڈرشپ کیلئے نہایت ہی اہمیت حاصل کرگئے ہیں۔ گو کہ بھارت میں پچھلے کئی برسوں سے مقتدر اور عوامی لیڈروں کا اپوزیشن کانگریس پارٹی سے اخراج ہو رہا ہے، مگر آزاد جیسے شخص کا حال ہی میں پارٹی کو خیر باد کرنا اور پھر پارٹی صدر سونیا گاندھی اور انکے صاحبزادے راہول گاندھی کو اپنے خط میں معتوب ٹھہرانا، ایک ایسا واقعہ ہے جس سے کانگریس کو واقعی ایک ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ کیونکہ آزاد کی پوری سیاست ہی گاندھی خاندان کے اردگرد ٹکی ہوئی تھی، گھرکیوں کے باوجود وہ ان کا دست بستہ غلام تھا۔ اگر اس طرح کا لیڈر بھی اب گاندھی خاندان کو بے اثر ،بے وقعت اور اپنے کیریئر کا ذریعہ نہ سمجھتا ہو، تو معلوم ہوناچاہئے کہ اس پارٹی کی حالت واقعی قابل رحم ہے۔ تین سال یعنی 2005ء سے 2008ء تک جموں و کشمیر کے وزارت اعلیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے علاوہ غلام نبی بٹ المعروف آزاد نئی دہلی میں سینئر مرکزی وزیر اور کانگریس کی اعلیٰ فیصلہ ساز مجلس کانگریس ورکنگ کمیٹی کے برسوں تک ممبر اور پارٹی کے جنرل سیکرٹری بھی رہے ہیں۔ ان کا تعلق جموں و کشمیر کے ڈوڈہ ضلع یعنی چناب ویلی کے بھلیسہ علاقہ کے گنڈو تحصیل کے ایک دور دراز دیہات سوتی سے ہے۔یہاں جانے کیلئے ابھی تک باقاعدہ سڑک نہیں ہے۔ گو کہ 1973ء میں کانگریس نے انکو بھلیسہ بلاک کا سیکرٹری بنایا، مگر وہ اس علاقے میں نیشنل کانفرنس کے مقابلے بلدیاتی انتخاب تک جیت نہیں پائے۔1977ء کے اسمبلی انتخاب اندروال حلقہ سے 900ووٹ لیکر انکی ضمانت ضبط ہوئی ۔ مگر اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی اور انکے صاحبزادے سنجے گاندھی نے شاید انکی پوشیدہ صلاحیتوں کا ادراک کرکے انکو پہلے جموں و کشمیر پردیش یوتھ کانگریس کا اور بعد میں 1980ء میں آل انڈیا یوتھ کانگریس کا صدر مقرر کیا ۔ اسطرح و ہ سنجے گاندھی کے ان مصاحبین میں شامل ہوگئے، جو بعد میں ہوائی حادثہ میں انکی موت کے بعد نئے وزیر اعظم راجیو گاندھی کے آنکھ اور کان بن گئے۔ چونکہ جموں و کشمیر سے ان کا جیتنا ناممکن تھا، اسلئے 1980ء اور 1984ء میں انکو کانگریس نے دوبار مغربی صوبہ مہاراشٹر کی واشم لوک سبھا نشست سے جتوا دیا۔ 1982ء میں ہی اندرا گاندھی نے انکو ڈپٹی منسٹر بنایااور تب سے وہ کانگریس دور میں مسلسل وزیر یا پارٹی کے جنرل سیکرٹری کے عہدے پر براجمان رہے۔ انتہائی زیرک اور چالاک سیاستدان ہونے کے ناطے ان کو شاید علم تھا کہ کانگریس میں ان کا وجود کشمیری اور مسلمان ہونے کی وجہ سے ہے، اسلئے وہ بھی پارٹی میں کسی دوسرے اپنے جیسے چالاک مسلمان سیاستدان کو برد اشت نہیں کرتے تھے اور انکو زچ کرکے باہر کی راہ دکھا کر یا آزردگی کی حالت میں زندگی گزارنے پر مجبور کرتے تھے۔1990ء کے بعد وادی کشمیر سے تعلق رکھنے والے اکثر کانگریسی لیڈران جنہوں نے دہلی اور جموں میں پناہ لی تھی اور وہ مرکزی کانگریس میں کسی رول کے خواہاں تھے کا کہنا ہے کہ ان کا کیریئر آزاد نے برباد کردیا۔ 1998ء میں جب سونیا گاندھی نے کانگریس کی صدارت سنبھالی، تو ان کے سیاسی مشیر مرحوم احمد پٹیل کے ساتھ ان کی خاصی ان بن رہتی تھی، جس کی وجہ سے آزاد کو کئی بار ایک طرح سے بن باس بھیجا گیا۔ مگر ان کے معتقدین کا کہنا ہے کہ جس طرح ہندو دیوتا بھگوان رام 14سالہ بن باس کے بعد کامیاب و کامران لوٹ آئے، اسی طرح آزاد بھی بن باس سے کامیابی کے ساتھ واپس آتے گئے۔ غالباً سن 2000ء میں انکو جموں و کشمیر کی پردیش کانگریس کمیٹی کا صدر متعین کیا گیا۔ کئی ماہ تک وہ سرینگریا جموں اسکا چارج لینے کیلئے ہی نہیں جارہے تھے۔ وہ اپنے آپ کو کشمیری کے بجائے ایک مرکزی لیڈر کہلوانا پسند کرتے تھے۔ اس لئے اب ایک طرح سے یہ طے تھا کہ انکا کیریئر بطور مرکزی لیڈر اختتام کو آپہنچا ہے اور چونکہ جموں کے ہندو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ساتھ چلے گئے تھے اور وادی کشمیر میں نیشنل کانفرنس کسی اور پارٹی کو سیاسی جگہ دینے کی روادار نہیں تھی، اس لیے کانگریس کیلئے سیاسی زمین ڈھونڈنا ناممکنات میںسے تھا۔ ویسے بھی اس خطے میں کانگریس بھی مسلمانوں کا خوف دلا کر ہی جموں کے ہندو ووٹروں کو لام بند کرنے کا کام کرتی تھی۔یہ کارڈ اب بی جے پی کے پاس تھا۔مگر اس کو قسمت کہیے کہ 2002ء کے انتخابات میں کانگریس کو 20 نشستیں حاصل ہوئی اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے ساتھ مل کر اس نے حکومت بنائی۔2005 ء میں یعنی تین سال بعد 1975ء کے بعد پہلی بار انہوں نے بطور کانگریسی وزیر اعلیٰ کے طور پر حلف اٹھایا ، مگر 2008ء میں وادی کشمیر میں 99 ایکڑ جنگل اراضی ہندووں 'شری امرناتھ جی یاترا' کا انتظام و انصرام دیکھنے والے بورڈ کو منتقل کر دینے سے جب پْرتشدد احتجاجی لہر شروع ہوئی ، تو ان کی اتحادی پی ڈی پی نے حمایت واپس لیکر ان کی حکومت کا خاتمہ کردیا۔ مگر اگلے ہی سال وہ پھر مرکزی سرکار میں بطور وزیر صحت نظر آئے اور پارٹی میں ان کے مخالفین زمین پر لوٹتے دکھائی دئیے۔ کشمیر کے بن باس سے واپسی کے بعد پارٹی میں انکے مخالفین نے ان کو مزید زچ کرنے کے لیے 2004ء کے عام انتخابات سے قبل آندھرا پردیش کا انچارج بنوادیا۔ اس صوبہ میں ان دنوں وزیر اعلیٰ چندرا بابو نائیڈو کا طوطی بولتا تھا۔ ان کی تیلگو دیسم پارٹی (ٹی ڈی پی) مرکز میں بی جے پی کی ایک اہم حلیف جماعت تھی اور اسی کی وجہ سے ہی اٹل بہاری واجپائی کی حکومت ٹکی ہوئی تھی۔ معاشی پالیسیوں اور صوبہ کو کمپیوٹر صنعت کا مرکز بنانے کیلئے کئی بین الاقوامی جریدوں نے نائیڈو کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے کور اسٹوریز کی تھیں۔ تقریباً تمام رائے عامہ کے جائزے واجپائی حکومت کی واپسی اور نائیڈو کی کامیابی کے اشارے دے رہے تھے۔ (جاری ہے)