اس ماضی گیری کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو بتایا جائے، ہم مکار سیاست دانوں کے تلوے چاٹتے رہے لیکن وطنِ عزیز میں پیدا ہونے والے ہنر مندوں کی قدر نہ کی، جو بالآخر دل برداشتہ ہو کر ملک چھوڑ گئے اور دیارِ غیر میں عزت پائی۔ کسی نے موٹر سائیکل کے انجن سے ہیلی کاپٹر بنایاِ پانی والی ٹینکی سے بجلی ایجاد کی یا بجائے پٹرول پانی سے گاڑی چلا دی تو اس کا مذاق اڑایا۔ دوسری طرف امریکا، برطانیہ اور دیگر ممالک میں بھی جب ہنر مندوں نے اسی طرح کے کام کیے تھے تو انھوں نے ان کو معاشرے کا سب سے معزز شہری جانا، بے شمار اعزازات و تمغے اُن کے نام کیے اور وہ ایجادات پہ ایجادات کرتے چلے گئے۔ ہماری کم ظرفی کا تو یہ عالم ہے کہ ہم ہاتھ کے ہنر مندوں کہ جنھیں ربِ کائنات بھی اپنے دوست کا درجہ دیتا ہے، کو کمی کمین سے زیادہ سٹیٹس نہ دے سکے۔ فرق آج سب کے سامنے ہے کہ ہم سرسوں کے ساگ، کچی پکی لسی، چرسی تِکے، چِکڑ چھولے، توا فِش سے زیادہ کوئی چیز ایجاد نہ کر سکے ۔ دنیا مَعدنی ذخائر دریافت کرتی رہی ہم ’’مِعدنی‘‘ نظائر کا مزہ لیتے رہے۔ اپنا کلچر، زبان،سنہری روایات، اور صحیح دینی شعار اپنے ہی ہاتھوں رخصت کر دیے۔ ہم نے آج بیٹھے بٹھائے ایسے ہی دل لگی کی خاطر، محنت اور بغیر محنت کے نام و نمود حاصل کرنے اور دولت و شہرت سے بے نیاز اور حرص و ہوس کے پُتلوں کا ہلکا پھلکا موازنہ کرنے کی کوشش کی ہے، ملاحظہ کیجیے: ولیم شیکسپئر: ولیم شیکسپئرکو تیرہ سال کی عمر میں تعلیم ترک کرنا پڑی، پورا خاندان بھی اَن پڑھ تھا، والد کے ہمراہ بھینسوں کا دودھ دوہتا، بھیڑیں چراتا، دودھ سے مکھن نکالتا، ہڈیاں اور چمڑا صاف کرتا۔ ایک عورت سے جبری شادی ہوئی۔ اتنی محنت مشقت کے بعد لکھنے لکھانے کی طرف آیا اور آج پورا انگریزی ادب اس کے احسانات سے چھلکا پڑتا ہے۔ اس کے ڈراموں اور کرداروں نے مغربی ادب اور تہذیب کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔دنیا کی کوئی زبان ایسی نہیں جس میں اس کے فن پاروں کا ترجمہ نہ ہوا ہو۔ اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ اس دنیا میں نیک نامی، ذہانت، دانائی اور سخت محنت سے حاصل ہوتی ہے، باپ دادا کی کمائی یا عیش پرستانہ زندگی سے نہیں۔ رائٹ برادران ، رانگ برادران: انیسویں صدی میں انگلستان کے ایک مسیحی پادری ملٹن رائٹ کے ہاں دو رائٹ برادران (ولبررائٹ اور اورول رائٹ) پیدا ہوئے، جنھوں نے لوگوں کے مسلسل مذاق اڑانے کے باوجود میکانیکیات کے شوق میں سال ہا سال کی محنت سے لوہے کی کَلوں کو پَر لگا کر ہوا میں اڑا دیا ۔ لوگ آج تک ان کی سوچ اور اپروچ سے بھرپور استفادہ کرتے ہیں بلکہ ان کے اس کرشمے کو حیرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ بیسویں صدی میں ہمارے ہاں بھی ایک میکانکی گھرانے میں دو رانگ برادران سامنے آئے جنھوں نے میکانیکیات کی جگہ ’مکانیات‘ کے شوق میں لوہے کی کَلوں اور مِلوں کی آڑ میں پورے قومی خزانے کو پگھلا اور پَر لگا کر اِس مہارت سے ہوا و ہوس میںاڑایا کہ ان کی سوچ اور اپروچ پر بھی عدالتیں، سیاستیں، ضمانتیں انگشت بدنداںہیں۔ ان برادران کا اس سے بھی بڑا اور قیامت تک یاد رکھا جانے ولا کارنامہ یہ تھا کہ انھوں نے وطنِ عزیز میں نہایت مشکل سے دستیاب ہونے والی چیزوں کی گرینڈ سیل لگا دی ۔ معاشرے کے بڑے بڑے متبرک و متحرک کرداروں کو ’برائے فروخت‘ کے سٹال پہ سجا کے اُن کو اُن کی اوقات بتا دی۔ مارکونی:اٹلی کے ایک کسان جیوسپ مارکونی کا بیٹاگولی ایمو مارکونی (۱۸۷۴ئ۔۱۹۳۷ئ) ایک گاؤں میں پیدا ہوا۔ مارکونی نے ایک کشتی کو اپنا تیرتا ہوا گھر بنایا ہوا تھا، وہیں سارے تجربات کرتا رہا۔ وہ نمود و نمائش اور پُر تعیش زندگی سے دور بھاگتا تھا ۔ دنیا بھر کے حکمران اس سے ملنے کے مشتاق تھے لیکن اسے ایسی کوئی خواہش نہیں تھی۔ وہ ریڈیو، ٹیلی وژن اور ریڈار کا موجد بنا۔ پینتیس سال کی عمر میں اسے نوبل انعام ملا۔ اِدھر ہمارے معاشرے کا مزاج ایسا بن چکا ہے یا بنا دیا گیا ہے کہ یہاں مار کونی کی بجائے ’’مار کُہنی‘‘ پیدا ہوتے ہیں۔ جہاں بھی کوئی اچھا کام کرنے والا سامنے آتا ہے، یہ اپنی ٹھیکے دارانہ پیش کش لے کے حاضر ہو جاتے ہیں کہ کہنی قیمتاً، کرائے اور کیے کرائے کے لیے حاضر ہے۔ ان کُہنیوں کی کئی قسمیں ہیں: سیاسی کُہنی، مذہبی کُہنی، صحافتی کُہنی، لبرل کُہنی،علاقائی کُہنی… کُہنی خریدنے والے جانتے ہیں کہ کون سی کُہنی کب اور کہاں استعمال کرنی ہے۔ سب سے زیادہ حسّاس اور وی آئی پی کُہنی اسٹیبلشمنٹ کی مشہور ہے، جو کرپشن، لُوٹ مار، بد دیانتی پر تو سکون میں ہوتی ہے لیکن طبیعت کے خلاف ذرا سی بات کرنے پر حرکت میں آ جاتی ہے۔ چارلس ڈِکنز: یہ شخص چار سال سے زیادہ تعلیم حاصل نہ کر سکا، گھر میں غربت کا یہ عالم تھا کہ اس کے والدین کو مکان کا کرایہ ادا نہ کر سکنے پر جیل جانا پڑا۔ بعد میں سخت محنت سے یہ انگریزی میں سترہ بہترین ناولوں کا مصنف بنا۔ ڈِکنز کو اپنی پہلی نو کہانیاں لکھنے پر ایک پیسہ بھی نہ ملا، جب کہ آخری ناول تک آتے آتے اسے تین پاؤنڈ فی لفظ کے حساب سے معاوضہ ملنے لگا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اس کی تقریر سننے کے لیے لوگ گھنٹوں ٹکٹ کے لیے لائن میں لگے رہتے۔ دولت اور شہرت کے خواہ مخواہ حصول کی ہوس کی وجہ سے ہمارے ملک کا رواج ذرا وَکھرا ہے، یہاں ڈِکن نہیں ڈَکن اور ڈھکن پیدا ہوتے ہیں، جو ہر اچھے کام کے آگے ڈَکا لگانے اور ہر پھسلواں گھڑے کا ڈھکن بننے کے لیے دل و جان سے آن حاضر ہوتے ہیں۔ لیو ٹالسٹائی:ماسکو میں بیالیس کمروں والی ایک بڑی حویلی میں پیدا ہوا، رئیسوں کی طرح پرورش پائی لیکن جیسے ہی شعور جاگا ساری دولت غریبوں میں بانٹ دی۔ بقیہ عمر کسانوں والا عام لباس زیب تن کیا، اپنے جوتے خود گانٹھتا، سادہ غذا کھاتا اور اپنا کمرہ خود صاف کرتا۔ دنیا کے دو بڑے ناولوں کا مصنف بنا۔ پیسے سے چمٹے رہنے کی بنا پر ہمارے ہاں ٹالسٹائی کی بجائے ’مال سٹائی‘ پیدا ہوتے ہیں۔ ایڈیسن:1931 ء میںچوراسی سال کی عمر میں وفات پا جانے والے ایڈیسن کے کریڈٹ پہ ڈھائی ہزار پیٹنٹ ایجادات ہیں، بلب اس کی سب سے بڑی ایجاد ہے، جسے بنانے میں وہ سو بار ناکام ہوا لیکن ہمت نہ ہاری، وہ کہا کرتا: غیر معمولی آدمی میں ایک فیصد اِلقا اور اِلہام جب کہ ننانوے فیصد عرق ریزی ہوتی ہے… فریس گرین نے فلم اور ایکسرے سمیت بے شمار چیزیں ایجاد کیں لیکن مرا تو اس کی جیب میں ایک شلنگ اور دس پنس کا سرمایہ تھا … نیوزی لینڈ کے ارنسٹ ردرفرڈ کو سینتیس سال کی عمر میں ایٹم کی دریافت پر نوبیل انعام ملا، وہ اپنے گھر کے سامنے پڑی برف خود صاف کرتا… دوستو! آج اس موازنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ اب ہمیں بطور قوم فیصلہ کر چکنا چاہیے کہ ہمیں اپنے ملک کو اوپر اٹھانے کے لیے دکھ اٹھانے والی بی فاختاؤں کی ضرورت ہے یا اچھے برے حالات میں انڈے کھانے، موج اڑانے والے کووں کی!!!