بدھ انتیس اگست تین بجے دوپہر میرے موبائل کی گھنٹی بجی، کال کرنے والے نے سلام دعا کئے بغیر بڑے اعتماد کے ساتھ بولنا شروع کر دیا،، آرمی ہیڈکوارٹرز سے بول رہا ہوں، ہم نے مردم شماری کرائی تھی کیا ہماری ٹیم آپ کے گھر پہنچی تھی؟ میں نے جواب دیا، جی ہاں، کال کرنے والے نے پھر بولناشروع کیا،، ہم لوگوں کو آگاہ کر رہے ہیں کہ اپنے کاروبار، جائیداد اوربنک اکاؤنٹس کی بھی تصدیق کریں تاکہ مستقبل میں آپ کسی بھی قسم کی مصیبت میں مبتلا نہ ہو جائیں۔ کیونکہ ایسا ہونے والا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ میں کھٹکا، مجھے بیس سال پرانا ایک واقعہ یاد آ گیا،جب میں ایک اخبار کا ایڈیٹر تھا، بالکل اسی طرح کا ایک فون آیا تھا، کال کرنے والاکہہ رہا تھا ، فوج کے میڈیا سیل سے بول رہا ہوں ، ہمارے پاس ایک عرب ملک کے اسپتال میں لوئر گریڈ کی ملازمتیں ہیں ،کیا آپ کسی مستحق بچے کی مدد کرنا چاہتے ہیں، بے روزگار کو کم از کم میٹرک پاس ہونا چاہئیے، میں آفس جانے کی جلدی میں تھا، اس وقت ہمارے گھر میرا برادر نسبتی مدثر موجود تھاجس نے نئی نئی گریجوایشن کی ڈگری لی تھی اور بے روزگارتھا، میں نے اس شخص سے کہا، میں جلدی میں ہوں ، میرا گریجوایٹ سالہ نوکری کی تلاش میں ہے، وہ میرے پاس بیٹھا ہے آپ اس سے بات کر لیں (آپ کہیں گے کہ ایک اخبار کے ایڈیٹر کو یہ کیوں نہیں پتہ تھا کہ آرمی کا میڈیا سیل کہاں سے آگیا،پریس سے تو آئی ایس پی آر کا براہ راست رابطہ ہوتا ہے۔ ہاں سچ یہی ہے،بلکہ اس وقت لاہور میں آئی ایس پی آر کے چیف کرنل سفیر میرے انتہائی قریبی دوست بھی تھے ہم دونوں کے فیملی ریلیشنز بھی تھے جو آج تک قائم ہیں ، ہوا کچھ یوں تھا کہ اس ٹیلی فون کے آنے سے ایک ہفتہ پہلے ہی ایک آدمی مجھے میرے اخبار کے آفس میں ملنے آیا تھا، اس آدمی کی میرے آفس میں کئی اور افراد سے بھی علیک سلیک تھی، اس نے مجھے بتایا کہ آئی ایس پی آر سے علیحدہ ایک اور میڈیا سیل بنایا گیا ہے جو صحافیوں سے رابطہ رکھا کرے گا، جب یہ بات میں نے کرنل سفیر صاحب کو بتائی تو وہ بہت حیران ہوئے، انہوں نے اس حوالے سے اپنی لا علمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس کی مزید انکوائری کریں گے، جو آدمی مجھے ملنے آیا تھا اس کے بارے میں پتہ چلا کہ اس کے پاس کوئی ذمے داری نہیں،، وہ لاہور آفس میں کسی اہلکار سے ملنے ضرور جاتا ہے) میں رسیور اپنے سالے کو پکڑا کر دفتر چلاگیا، دوسری صبح میں جاگا تو مجھے گذشتہ روز والی ٹیلی فون کال یاد آگئی، میں نے سسرال فون کرکے اپنے سالے سے بات کرنے کی کوشش کی تو میری ساس نے بتایا کہ وہ تو صبح دس ہزار روپے لے کر چھاؤنی میں نوکری کیلئے کسی صاحب سے ملنے گیا ہوا ہے، دس ہزار کا سن کر میں پریشان ہو گیا کیونکہ فون کرنے والے نے مجھے یہ بھی کہا تھا کہ جسے عرب ملک میں ملازمت کیلئے بھجوایا جائے گا اس کا ایک روپے کا خرچہ نہیں ہوگا، میں نے کرنل سفیرصاحب سے رابطہ کر کے انہیں اس واردات سے آگاہ کیا، بیس سال پہلے نوجوانوں کے پاس موبائل فون نہیں ہوا کرتے تھے، اس لئے مدثر سے رابطہ کرنا ناممکن ہو گیا، کرنل سفیر صاحب اور میں نے ہر ممکنہ راستہ اختیار کیا کہ اس نوجوان کو لٹنے سے بچا لیں ،لیکن جو ہونا تھا وہ ہو کر رہا،مدثر سے دس ہزار روپے کیسے ہتھیائے گئے یہ بھی ایک الگ داستان ہے، اس دن کے بعد جعلی میڈیا سیل والا مجھے گورنر ہاؤس میں اس وقت کے گورنر کے خاص آدمی کے روپ میں بھی دکھائی دیا مگر میرے پاس اس کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہیں تھا،،،،، اب ہم پھر اس موبائل کال کی جانب چلتے ہیں جو دو دن پہلے مجھے موصول ہوئی، موبائل نمبر تھا۔۔ 03304075506۔۔اس نامعلوم شخص نے بات آگے بڑھاتے ہوئے مجھ سے پوچھا، آپ کا کاروبار کیا ہے؟ بے روزگار ہوں، میرا جواب سن کر اس نے اگلا سوال کیا، آپ کا اکاؤنٹ کس بنک میں ہے؟ میرا جواب تھا، جس کی کوئی آمدن ہی نہ ہو اس کا اکاؤنٹ نمبر کیسے ہو سکتا ہے؟ کال کرنے والے نے تیسرا سوال داغ دیا، چلو کوئی پرانا اکاؤنٹ نمبر اور اپنا نام بتائیں؟ اس سے پہلے کہ میں اس سوال کا بھی جواب دیتا لائن کاٹ دی گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٭٭٭٭٭ اب ایک کہانی اور کہانی کے بعد فلسفہ ٭٭٭٭٭ ساٹھ پنسٹھ سال کی رشیداں بی بی2009ء میں پہلی بار میرے پاس آفس میںآئی تھی، اس کے ساتھ اس کا جوان بیٹا اور بہو تھے، رشیدہ بیگم ساہیوال کے قصبے یوسف والا کی رہنے والی تھی، اس کے بیٹے نے گاؤں کے بااثر گھرانے کی لڑکی سے لو میرج کر لی تھی ، میاں بیوی جان کو خطرے کے باعث لاہور میں کہیں پناہ لئے ہوئے تھے، رشیداں بی بی نے بتایا کہ اس کی بہو کے ورثاء مجھے گھر سے اٹھا کر لے گئے تھے اور کئی دن اجتماعی زیادتی کانشانہ بنایا، انہوں نے اس کے بوڑھے خاوند پر بھی جھوٹا مقدمہ بنا کر ساہیوال جیل میں بند کرا رکھا تھا، یوسف والا میں اسکی جواں سال بیٹی جو بی اے کی طالبہ تھی جان اور عزت بچانے کے لئے اپنے ہی گھر کے ایک کمرے میں قیدی بن کر رہ رہی تھی، گھر کے دروازے پر تالہ لگا دیا گیا تاکہ کسی کو اس کے گھر میں ہونے کا شبہ نہ گزرے۔ اس خاندان کی مدد کو گاؤں کا کوئی آدمی سامنے نہیں آیا تھا،سب غریب اور کمزور تھے، پولیس رشیدہ بی بی سے اجتماعی زیادتی کا پرچہ کاٹنے کی بجائے اسے خوفزدہ کر رہی تھی کہ وہ اپنے بیٹے اور بہو کو پیش کردے ورنہ اس کی طالبہ بیٹی کے ساتھ بھی وہی ہوگا جو اس کے ساتھ کیا گیا۔ رشیدہ بی بی اپنے اور اپنے خاندان کے ساتھ گزرنے والی قیامت کو کسی حاکم کے سامنے گوش گزار کرنا چاہتی تھی، وہ میڈیا سے مدد کی بھی مدد کی طلبگار تھی، وہ انصاف چاہتی تھی۔ لیکن کوئی عدالت کوئی تھانہ اس کے لئے نہیں بنا تھا،۔میں نے ساہیوال میں ایک انگریزی اخبار کے نمائندے سیدعلمدار حسین شاہ کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ رشیدہ بی بی کی مددکرے، میں نے اس خاتون کی اس وقت کے آئی جی سے ملاقات بھی کرائی، لیکن نتیجہ کوئی نہ نکلا، رشیدہ بی بی در بدر رہی۔۔۔۔ اس کے بعد دو تین مہینے گزر گئے رشیدہ بیگم مجھے ملنے آئی نہ اس کی کوئی کال آئی، پھر جب وہ آئی تو اس حالت میں کہ اسے دیکھا نہیں جا سکتا تھا، اس کے چہرے پر تیزاب ڈال دیا گیا تھا، پولیس اس کا یہ مقدمہ بھی درج نہیں کر رہی تھی، ساہیوال پولیس کا کہنا تھا کہ مائی ڈرامے کر رہی ہے، تیزاب اس نے خود اپنے اوپرڈالا ہے. ایک بار پھر رشیدہ بی بی میرے پاس آئی تواسی دوران پنجاب کاایک طاقتور سیاستدان بھی میرے کمرے میں داخل ہوا، میں نے اسے دیکھتے ہی رشیدہ بی بی سے کہا،، بی بی !اچھا ہوا کہ آپ کی موجودگی میں یہ صاحب یہاںآ گئے، شاید یہ آپکی کوئی مدد کر سکیں۔ میں نے اس سیاستدان کو کرسی پربیٹھتے سے پہلے ہی رشیدہ بی بی کی ساری کہانی سنادی، انہوں نے اپنے پیچھے کھڑے ہوئے سیکرٹری سے کہا۔ ڈی پی او ساہیوال کا نمبر ملاؤ۔ نمبرملتے ہی اس سیاسی وڈیرے نے ڈی پی او سے رشیدہ بی بی کی بات پوچھا، میں حیران ہوا کہ پانچ سیکنڈ میں ہی کال منقطع کر دی گئی، اس سیاستدان نے موبائل اپنے سیکرٹری کو واپس کرتے ہوئے میری جانب دیکھا اور کہا،،یہ مائی جھوٹ بولتی ہے،، اس واقعہ کے چند دن بعد رشیدہ بی بی کے بیٹے کی کال آئی۔۔ ،،،،،،،،،،، اس نے سسکیاں لیتے ہوئے کہا، بھائی جان !ماں مر گئی ہے۔ ٭٭٭٭٭ تلاش جستجو ہے اور جستجو زندگی، جب زندگی سے تلاش نکل جاتی ہے تو ہم زندگی سے محروم ہوجاتے ہیں، جستجو کے بنا جینا بھی کیا جینا ، جو کہتے ہیں سب کچھ پا لیا وہ دراصل کہہ رہے ہوتے ہیں۔ان کے اندر امنگ کا پودا مرجھا گیا ہے، مرجھائے ہوئے پھولوں کو کتابوں سے نکال پر وہاں تازہ پھول رکھ دیا کریں اور یہ عمل عمر بھر دوہراتے رہیے،مردہ پھولوں کو دوبارہ رنگ و بو دینا کسی حکیم لقمان کے بس میں نہیں، انسان کبھی مکمل نہیںہو سکتا نہ یہ قدرت کا تقاضا ہے خیر و شر اس کے خمیر میں رکھ دیا گیا، تقاضا خیر اپنانے کا ہے، تکمیل کا نہیں، تکمیل اس کی موت پر ہوتی ہے جب وہ اپنے اعمال کا صدر دفتر ساتھ لے جاتا ہے ،میں خلیل جبران بننے کی ہرگز کوشش نہیں کر رہا، صرف عرض کر رہا ہوں کہ اپنے اندر کی جستجو کو کبھی مرنے نہ دیں، جستجو کوجتنا بھی بڑھا سکیں بڑھاتے رہیں، جب جستجو اور تلاش سستانے لگتی ہے جستجو کا خاتمہ ہی موت ہے، ماضی کو ہمیشہ ساتھ لے کر چلیں، مگر کبھی خود ماضی کے ساتھ نہ چلیں،کیونکہ ماضی اور مزار ایک ہی چیز کے دو نام ہیں، ایک اور بات ، جستجو اور کھوج دو الگ الگ رویے ہیں، کھوج بعض اوقات جاسوسی بن جاتا ہے، دوسروں کی جاسوسی کا، ایسے لوگ اپنی نہیں دوسروں کی زندگی جیتے جیتے مرجاتے ہیں۔ انسان کو سب سے پہلے اپنے لئے جینا چاہئے،جو اپنے لئے جیتے ہیں وہی تو ہیں جو سب کیلئے جیتے ہیں۔ ’’جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا، اس نے رب کو پہچان لیا۔‘‘