آستانہ سہروردیہ شاہ آباد شریف کے سجادہ نشین اور 92 نیوز چینل کے معروف اسکالر صاحبزادہ سید محمد فاروق القادری گزشتہ (13جون 2020ء ) روز انتقال کر گئے ۔ نماز جنازہ پیر آف بھرچونڈی شریف میاں عبدالمنان صاحب نے پڑھائی ۔ بعد میں آپ کو اپنے آبائی قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا ۔ مرحوم بہت بڑے عالم تھے ۔ 40کے قریب کتابیں تصنیف کیں ۔ آپ کی کتاب ’’ اصل مسئلہ معاشی ہے ‘‘ کو نہ صرف پاکستان بلکہ دیگر ممالک میں بھی بہت مقبولیت حاصل ہوئی اور اس کتاب کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے ۔ آپ کا سب سے بڑا علمی کارنامہ حضرت ابن العربی ؒ کی کتاب فتوحات مکیہ کی جلدوں کا اردو ترجمہ ہے ۔بہت اچھے عالم ہونے کے ساتھ بہت اچھے انسان بھی تھے ۔ جب بھی آپ سے ملاقات ہوئی انہوں نے بہت محبت دی اور ساتھ ہی کہا کہ وسیب کے حوالے سے آپ کی خدمات کے معترف ہیں۔میں نے ایک مرتبہ کہا کہ آپ جیسے صاحب علم اور سجادگان کو بھی وسیب کے حقوق کیلئے خانقاہوں سے باہر آنا چاہئے تو وہ زیر لب مسکرا دیئے اور کہا کہ آپ ٹھیک کہتے ہیں ۔ سید محمد فاروق القادری 25 دسمبر 1947ء کو سلسلہ سہروردیہ قادریہ کے معروف بزرگ و جید عالم دین ، تحریک پاکستان کے نامور رہنما حضرت سید سیف الدین شاہ مغفور القادری ؒ کے ہاں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم اپنے بزرگوں سے حاصل کی اور بعد میں خانپور میں مدرسہ سراج العلوم سے حضرت مولانا سراج اہل سنت ؒ، حضرت مولانا سراج احمد مکھن بیلوی ؒ، حافظ فیض احمد اویسی ؒ، مفتی عبدالواحد ؒ قادری سے تعلیم حاصل کی ۔ آپ کے دیگر اساتذہ میں مولانا ظفر احمد عثمانی ، مولانا عبدالرشید نعمانی ، ڈاکٹر حافظ احمد یار، پروفیسر خالد علی ، ڈاکٹر پیر محمد حسن ، علامہ علاؤ الدین صدیقی سابق وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی و دیگر شامل ہیں ۔ آپ نے جامعہ عباسیہ ( موجودہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور ) سے 1966ء میں الشہادت عالمیہ کے عربی و فارسی میں ڈگری حاصل کی ۔ اس کے بعد پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اسلامیات، عربی اور اردو میں ماسٹر ڈگریاں حاصل کیں ۔ خانپور سے مغرب کی طرف 10 کلومیٹر کے فاصلے پر تاریخی قصبہ گڑھی اختیار خان ہے ۔ وسیب میں اس قصبے کو تاریخی ، ثقافتی اور روحانی حوالے سے بہت اہمیت حاصل ہے کہ گڑھی اختیار خان میں معروف صوفی شاعر حضرت خواجہ محمد یار فریدی ؒ کا آستانہ عالیہ موجود ہے ، یہ مقام خاندان کوریجہ کے چشم و چراغ حضرت خواجہ دُر محمد کوریجہ کا مسکن بھی ہے ۔ گڑھی اختیار خان کے ساتھ ملحقہ علاقے فاروق آباد میں آستانہ سہروردیہ کے سجادہ نشین سید فاروق القادری علمی زمزمے بکھیر رہے تھے ۔ تاریخی حیثیت سے گڑھی اختیار خان کی بنیاد کلہوڑا خاندان کے ایک افسر شادی خان نے رکھی ۔ 1806ء میں نواب بہاول خان دوم نے اسے فتح کر کے ریاست بہاولپور میں شامل کر دیا ۔ اس قصبے میں بزرگوں کے مزارات کے ساتھ قدیم مساجد بھی موجود ہیں ۔ جس میں جامع مسجد حاجی اختیار خان دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے ۔ سید فاروق القادریؒ کی کتابیں پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں ، حضرت ابن العربی کے حالات زندگی کے بارے میں آپ نے اپنی کتاب میں لکھا کہ نام نامی محمد بن علی بن محمد لقب محی الدین اور کنیت ابو عبداللہ ہے ۔ بعض کتابوں میں کنیت ابوبکر بھی بیان کی گئی ہے۔ آپ کا تعلق عرب کے مشہور قبیلے بنو طے سے تھا ۔ سلسلہ نسب مشہور سخی مرد حاتم طائی سے ملتا ہے ، اس لئے آپ کو حاتمی اور طائی بھی کہا جاتا ہے ۔آپ سوموار کی رات سترہ رمضان المبارک 560 ھ بمطابق 28جون 1125 ء اندلس کے شہر ’’ مرسیہ ‘‘ میں پیدا ہوئے ۔آپ کو ابن افلاطون اور ابن سراقہ کی کنیت سے بھی یاد کیا جاتا رہا ہے مگر جس کنیت سے عالمگیر شہرت ملی وہ ’’ ابن عربی ‘‘ کی کنیت ہے۔ ابن عربیؒ کی کنیت غالباً اس وجہ سے اختیار کی گئی تاکہ شیخ ابو بکر محمد بن عبداللہ ابن العربی اندلسیؒ متوفی 543 ء سے اشتباہ و التباس نہ ہو ۔ آپ کو شیخ اکبر کے لقب سے بھی شہرت ملی ۔ سید محمد فاروق شاہ قادری کی نسبت سندھ کی معروف درگاہ بھرچونڈی شریف سے ہے اور آپ بخاری سادات ہیں ۔ علمی حوالے سے آپ کے بزرگوں کی بھی بہت خدمات ہیں ۔ آپ کے پردادا سید جعفر شاہ گڑھی نے اختیار خان کے رئیس کی دعوت پر شکار پور سندھ سے گڑھی شریف ہجرت کی اور علاقے میں علم کا نور پھیلایا۔ سید فاروق شاہ کے دادا سید سردار احمد شاہ بانی خانقاہ عالیہ قادریہ شاہ آباد شریف نے مدینہ منورہ سے تعلیم حاصل کی اور عرب میں آپ کو شیخ احمد کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ اس دوران مدینہ شریف میں آپ کی ملاقات مولانا شاہ احمد رضا خان بریلوی سے ہوئی اور ان سے قریبی تعلق قائم ہوا ۔ آپ اردو ، سندھی سرائیکی اور عربی فارسی کے بہت اچھے شاعر تھے اور انہوں نے بہت سی کتابیں لکھیں مگر وہ شائع نہیں ہو سکیں ۔ فاروق احمد شاہ صاحب کے دادا کا انتقال 12اپریل 1970ء کو ہوا اور ان کا مزار بھی شاہ آباد شریف میں ہے ۔ علمی اور ادبی طور پر آپ کی نسبت شورش کشمیری ، احسان دانش، مولانا ابوا الولا مودودی ، حکیم موسیٰ امرتسری ، سید احمد سعید کاظمی ، مولانا عبدالستار نیازی ، مولانا شاہ احمد نورانی اور مولانا کوثر نیازی سے قربت اور خط و کتاب رہی ، آپ کی تصانیف کے ساتھ ساتھ آپ کے مقالہ جات پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک کے بہترین جرائد میں شائع ہوتے رہے ۔ آپ کی بعض کتابیں انڈیا سے بھی شائع ہوئیں ، آپ کا مقالہ اسلام کا معاشی نظام عالم اسلام کی بہترین درسگاہ جامعہ مصر الازھر سے عربی زبان میں ترجمے کے ساتھ شائع ہوا۔ آپ کے وصال پر ملک کے علمی ، ادبی اور دینی حلقوں میں صفِ ماتم بچھی ہوئی ہے ۔ آپ کی وفات پر چیئرمین نیشنل مشائخ کونسل خواجہ غلام قطب الدین فریدی ، درگاہ عالیہ کوٹ مٹھن کے سجادہ نشین خواجہ معین الدین کوریجہ ، سرائیکستان صوبہ محاذ کے چیئرمین خواجہ غلام فرید کوریجہ ، مدرسہ سراج العلوم کے مہتمم مولانا محمد مختار احمد درانی ، سابق وفاقی وزیر مخدوم شہاب الدین ، دربار حضرت جیٹھہ بھٹہ کے سجادہ نشین میاں عبدالستار و دیگر نے سید محمد فاروق شاہ القادری کی وفات پر تعزیت اور صدمے کا اظہار کرتے ہوئے ان کے درجات کی بلندی کیلئے دعا کرتے ہوئے کہا کہ ’’ موت العالِم موت العالَم ‘‘ ۔