معروف مورخ جادو ناتھ سرکار کے مطابق مغل سلطنت کے دوران کشمیری مسلمانوں کو امور سلطنت سے دور رکھا گیا۔ اس طرح کشمیر کے بطن سے مغلوں نے ایک قابل اعتبار Fifth Coloumnistوطن فروش گھر کا بھیدی پیدا کیا۔ مسلمانوں پر فوج کے دروازے بند تھے، مگرپنڈتوں کیلئے کھلے تھے۔ کشمیری میرو پنڈت تو نو ر جہاںکی ذاتی فوج کا نگران اعلیٰ تھا۔ پنڈتوں کی یہ بالا دستی اورنگ زیب کے دور میں بھی جاری تھی۔ اس کے دربار میں مہیش شنکر داس پنڈت کا خاصا اثر و رسوخ تھا۔ افغان دورکی ظلم و ستم کی کہانیاں جہاں کشمیر میں زبان زد و عام ہیں، اس وقت بھی کشمیری پنڈت ظالموں کی صف میں اپنے ہم وطنوں سے کٹ کر کھڑے تھے۔ بلند خان سدوزئی نے کیلاش در پنڈت کو وزیر اعظم بنایا تھا۔ حاجی کریم داد خان نے پنڈت دلا رام کوپیش کار کا عہدہ دیا تھا۔ افغان حکومت کے زوال کے بعد سکھ اور ڈوگرہ دور میں بھی پنڈتوں کا ہی طوطی بولتا تھا۔ یہ دونوں دور ظلم و ستم میں افغانوں سے بازی لے گئے۔ کشمیر کے مشہور’’ در‘‘ خاندان کا عروج اسی دور میں ہوا۔ سکھ دور میں ہی کشمیری پنڈتوں کی ایما پر نہ صرف گائو کشی بلکہ گائے کا گوشت برآمد ہونے پر سزائے موت کا فرمان جاری ہوا، جس کو بعد میں ازراہ ترحم ڈوگرہ حکمرانوں نے عمر قید میں تبدیل کیا۔ تب تک 19کشمیری مسلمان اس جرم میں پھانسی کی سزا پا چکے تھے۔ ڈوگرہ حکمران مہاراجہ گلاب سنگھ نے راج کاک در کو کشمیر کا گورنر بنایا، جس کی سختیوں اور شال بننے والے کاریگروں پر اسکے ٹیکس کی مار نے 1865ء میں سرینگر کی سڑکوں پر دنیا کی پہلی مزدو ر بغاوت برپا کی۔ مصنف اور بندوبست اراضی کے کمشنر سر والٹر لارنس کے مطابق ڈوگرہ حکومت میں ساری قوت کشمیری پنڈتوں کے ہاتھوں میں تھی۔ مسلمان کا شت کار کو برہمنوں کے آرام و آسائش کیلئے بیگار پر مجبور کیا جاتا تھا۔ 19ویں صدی کے اواخر میں جب پنجاب سے آنے والے ہندو اور کشمیری نژاد مسلمانوں نے ڈوگرہ دربار میں نوکریاں حاصل کرنی شروع میں کیں تو کشمیری پنڈتوں نے کشمیر ، کشمیریوں کیلئے اور اسٹیٹ سبجیکٹ کا نعرہ بلند کرکے علیحدہ شہریت کا مطالبہ کیا۔ اب ایک صدی کے بعد کشمیری پنڈتوں نے ہی اسی قانون کی مخالفت میں زمین و آسمان ایک کئے۔ 1931میں جب تحریک کشمیر کا باقاعدہ آغاز ہوا، تو ڈوگرہ حکمرانوں نے کشمیری پنڈتوں کو ڈھال بناکر پراپیگنڈا کیا کہ یہ دراصل ہندو مہاراجہ کے خلاف مسلمانوں کی بغاوت ہے۔ شاید یہی تاریخ اب دوبارہ دہرائی جا رہی ہے۔ پورے بھارت میں ظالم و مظلوم کی جنگ کو کشمیر مسلمان بنام پنڈت بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ ڈوگرہ حکومت کے دور میں جب چند پڑھے لکھے مسلمانوں کو معمولی سرکاری نوکریا ں ملنی شروع ہوئیں، تو کشمیری پنڈتوں نے اس کے خلاف ’’روٹی ایجیٹیشن ‘‘ شروع کی۔ انہوں نے مہاراجہ کو ایک میمورنڈم پیش کیاکہ کولگام علاقہ میں ان کیلئے ایک علیحدہ وطن بنایا جائے۔ یہ وہی مانگ ہے جو کشمیری پنڈت آجکل ایک علیحدہ ہوم لینڈ یعنی’’ پنن کشمیر ‘‘کے نام سے کر رہے ہیں۔ بھلا ہو چند روشن خیال کشمیری پنڈتوں کا، خاص طور پر پنڈت پریم ناتھ بزاز کا ، جس نے برطانوی حکومت کی ایماء پر بنائے گئے گلینسی کمیشن کو بتایا کہ مسلمانوں کے مقابلے کشمیری پنڈتوں کی حالت خاصی بہتر ہے۔ خود جواہر لال نہرو نے کشمیری پنڈتوں کے گڑھ شیتل ناتھ جاکر ان کو مشورہ دیا تھا کہ و ہ ظالم و مظلوم کی جنگ میں مظلوم کا ساتھ دیں۔ نہرو اسوقت اپنے دوست شیخ عبداللہ کیلئے پنڈتوں کی حمایت چاہتے تھے۔ مگر پنڈت ڈوگرہ مہاراجہ کا دامن چھوڑنے کیلئے تیار نہیں تھے۔ انفرادی طور پر کئی پنڈت لیڈران کشمیری مسلمانوں کے شانہ بہ شانہ رہے ، مگر طبقاتی حیثیت سے وہ تحریک آزادی کے دھارے سے کٹے ہی رہے۔ اسی مہاراجہ نے 1947ء میں قبائلی حملوں کے خوف سے رات کے اندھیرے میں بھاگ کر ان کو اپنے حال پر چھوڑ دیا۔ یہ تو کشمیری مسلمان ہی تھے، جنہوں نے ان کی حفاظت یقینی بنائی۔ پنڈت پران ناتھ جلالی ایک واقعہ سناتے تھے، کہ شیخ عبداللہ نے بطور چیف ایڈمنسٹریٹر جب زمام کار سنبھالی تو ان کو کشمیری پنڈتوں کی باز آباد کاری کا کام سونپا گیا۔ ان کو اطلاع ملی کہ ہندواڑ ہ تحصیل کے کسی گاوٗں میں کشمیری پنڈتوں کے کئی خاندان ہفتوں سے غائب ہیں۔ سرینگر سے روانہ ہوکر سوپور تھانہ سے سپاہیوں کی کمک ساتھ لیکر وہ اس گاوٗں میں پہنچے۔ معلوم ہوا کہ اطلاع صحیح تھی۔ گائوں کے سرکردہ افراد کو بلا کر ان کا انٹروگیشن کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے ان کی سخت پٹائی کی ، حتیٰ کی ان کی خواتین و بچوں تک کو نہیں بخشا، مگر سبھی گائو ں والے عذا ب تو سہتے رہے، مگر بس یہی کہتے رہے کہ ان کو کچھ نہیں معلوم کہ یہ پنڈت خاندان کہاں چلے گئے ہیں۔ خیر جلالی صاحب کا کہنا تھا کہ ایک خالی پنڈت مکان میں انہوں نے اور سپاہیوں نے ڈیرا ڈالا۔ ایک رات ایک سپاہی نے انکو بتایا کہ رات گئے گائوں میں لوگوں کی کچھ غیر معمولی نقل و حرکت محسوس ہوتی ہے۔ اگلی رات انہوں نے ناکہ لگاکر دیکھا کہ و اقعی گائوں کے سرکردہ افراد سروں پر ٹوکریاں جمائے پاس کے جنگل کی طرف رواں ہیں۔ جلالی صاحب اور سپاہیوں نے انتہائی ہوشیاری کے ساتھ ان کا پیچھا کیا۔ چند ایک میل چلنے کے بعد معلوم ہوا کہ نالہ کے دوسری طرف ایک محفوظ و تنگ گھاٹی میں کشمیری پنڈت خاندان چھپے ہوئے تھے اور گائو ں والے ہر رات ٹوکریوں میں ان کو کھانا پہنچا رہے تھے۔ جلالی صاحب کا کہنا تھا کہ مذامت سے ان کے پائوں زمین میں گڑھ گئے۔ پچھلے کئی روز سے انہوں نے ان گائوں والوں پرجس طرح ٹارچر کیا تھا، وہ اسپر پشیمان تھے۔ ان جاہل ان پڑھ دیہاتیوں نے ٹارچر اور گالیا ں کھانا برداشت کیں، مگرکیا بچے کیا خواتین ، کسی نے پنڈتوں کے ٹھکانے کا رازافشا ء نہیں کیا۔ بعد میں گاوٗں والوں نے بتایا کہ ان کو جلالی صاحب کی ٹیم پر بھروسہ نہیں تھا، کہ آیا وہ واقعی سرینگر سے ان پنڈتوں کو بچانے آئے ہیں یا ان کو قتل کرنے کے درپے ہیں۔ یہ واقعہ اس وقت کا ہے، جب جموں میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی تھی۔ ایک باضابطہ نسل کشی کے ذریعے ان کی آبادی کو اقلیت میں تبدیل کیا جا رہا تھا۔ اسی لئے مہاتما گاندھی نے کہا تھا کہ جب پورا برصغیر فرقہ وارانہ آگ میں جل رہا تھا تو کشمیر سے اسکو روشنی کی کرن نظر آرہی تھی۔ کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ دہلی کے ایوانوں میں نوکر شاہی کو اپنا کعبہ و قبلہ تصور کرنے کے بجائے کشمیری پنڈت حضرات ہم وطنوں کے مفادات کا بھی خیال رکھیں۔ مگر جب بھی مسلمانوں کو تعلیمی اور سیاسی میدانوں میں اپنی صلاحیتیں منوانے کا موقع ہاتھ آیا تو یہ اقلیتی طبقہ احساس کمتری کا شکار ہونے لگا۔ یہ نفسیات اب بھی بعض انتہا پسند پنڈتوںکو اس بھرم میں مبتلا کر چکی ہے کہ وہ نئی دلی کی آشیرواد سے کشمیری مسلمانوں کو ایک مرتبہ پھر اپنے غلاموں اور ماتحتوں کے طور پر گزر بسر کرنے پر مجبور کردیں گے۔ کشمیریوں نے اقلیت کو کبھی اقلیت نہیں سمجھا بلکہ انہیں ہمیشہ ہی اپنے بیچوں بیچ رکھتے ہوئے اپنے عزیزوں اور پیاروں کی مانند اپنی محبتوں سے نوازا ہے۔ مگر کشمیری قوم کی بد قسمتی یہ رہی کہ جب بھی کوئی تاریخی موڑ آیا‘ یہاں کی اقلیت اکثریت کے ہم قدم نہیں تھی، نہ صرف ہم قدم اور ہم خیال نہیں تھی بلکہ بار بار ایک ایسا راستہ اختیار کیا گیا جو اکثریتی شاہراہ کے مخالف رہا ہے۔ وقت ہے کہ پنڈتوں کو اپنا دامن دیکھ لینا چاہیے کہ آخر دونوں فرقوں کے بیچ نفسیاتی خلیج کو کس نے جنم دیا؟ اقلیت کی سلامتی اور ان کا تحفظ اکثریتی فرقہ کی اہم ذمہ داری ہوتی ہے۔ مگر کشمیر میں اکثریتی طبقہ تو اپنے جان و مال پر بھی قدرت نہیں رکھتا۔ فوجی گرفت کے بیچوں بیچ اْدھار زندگی گزارنے والا کیسے کسی اور کی زندگی کی ضمانت دے سکتا ہے؟ اگر بھارت کے مفادات کی بھی بات کریں، جس طرح کی رسائی پنڈتوں کی دہلی دربار میں تھی، وہ بھارت کیلئے بھی ایک طرح کے پل کا کام کرسکتے تھے۔ مگر دہلی کے جاسوسوں اور ففتھ کالم کا کردار ادا کرکے انہوں نے کشمیر میں بھارت کے مفادات کو بھی زک پہنچائی ہے۔ ان کے کردار نے کشمیری مسلمانوں کو نہ صرف بھارت مخالف بنایا، بلکہ نفرت کرنے کی حد تک پہنچادیا۔ کشمیری پنڈتوں کے موجودہ رویہ سے یہ کہاوت بھی ثابت ہوگئی کہ جب ’’در‘‘ عروج پر ہوتے ہیں، تو کشمیر پر زوال آتا ہے۔ کشمیر ایک بار پھر آگ اور خون نے دھانے پر کھڑا ہے۔ ان حالات میں اس دعا کے سوا اور کیا کیا جاسکتا ہے۔ دیار یار تری جوشش جنوں کو سلام میرے وطن ترے داماں تار تار کی خیر رہ یقین تری افشاں خاک و خون پہ سلام میرے چمن تیرے زخموں کے لالہ زار کی خیر