گزشتہ سال اگست میں اکھنڈ بھارت کے خواب کے عنوان سے کالم تحریر کیا تھا اس وقت صورتحال صرف مقبوضہ کشمیر کی حد تک ابتر تھی لیکن گزشتہ چھ ماہ میں جس تیزی سے بھارت کے اندر وزیر اعظم مودی نے ہندوتوا کے تصور کو فروغ دیا اسکے بعد ایک نئی ہندو ریاست کے لئے انکے پیروکارخصوصاً راشٹریہ سویم سیوک سنگھ یا آر ایس ایس نے سمجھنا شرو ع کر دیا ہے کہ مودی کی شکل میں اکھنڈ بھارت کا خواب پورا کرنے کا ایک نادر موقع ملا ہے اور وہ اس کو کسی صورت ضائع کرنے کو تیار نہیں ہے۔وقتاً فوقتاً اس بارے میں اس ہندو انتہا پسند تنظیم نے کوشش کی لیکن اسکو کو ئی ایسا مضبوط سیاسی یا فوجی سہارا نہیں ملا جس کے ذریعے یہ اپنے اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچاتے۔برّصغیر کی تقسیم کے بعد کانگریس کی حکومت قائم ہوئی جس نے بھارت کا ایک سیکولر تصوّر قائم کرنے کی کوشش کی لیکن کشمیر کا مسئلہ ہر حوالے سے اسکے گلے کی ہڈی ثابت ہوا ۔ اسکے علاوہ جس طرح انہوں نے دیگر ریاستوں کا الحاق کیا اس نے بھی اسکے سیکولرازم کے دعوے کو بہت پزیرائی نہیں بخشی لیکن وہ اپنے تئیں اس کوشش میں مصروف رہے لیکن مسئلہ وہی بغل میں چھری منہ میں رام رام والا ہی رہا۔ کہنے کو بھارت دنیا کی سب سے بڑی سیکولر جمہوریت کا دعویدار ہے لیکن اہنسا کے پرچارک گاندھی کو انتہا پسند ہندئووں نے اس لئے قتل کر دیا کہ اس نے پاکستان کیوں بننے دیا ۔ سیکولر بھارت کے داعیوں نے اس انتہا پسند ہندو تنظیم کی اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے خلاف کئی بڑی دہشت گردانہ کارروائیوں کے باوجود آر ایس ایس کو پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کئے رکھا۔ بابری مسجد کے مسمار کرنے کے واقعہ سمیت آر ایس ایس ایسے کئی سانحوں کی ذمہ دار ہے جس میں بم دھماکے تک شامل ہیں۔کشمیریوں کی حق خود ارادیت کی جدوجہد جس کو بھارت بین الاقوامی سطح پر تسلیم کر چکا ہے، کے لئے کاوشوں کو دہشت گردی قرار دینے والوں نے آر ایس ایس کے دہشت گردوں کی کبھی مذمت بھی نہیں کی اور اس جن کو پھلنے پھولنے کا موقع دیا۔ اب یہ جن بے قابو ہو چکا ہے اور اس سارے معاملے میں بھارت کی تمام سیاسی اور عسکری قوتیں ذمہ دار ہیں۔ بھارت کی ریاست اس جن کی تباہ کاریوں اور ہندوتوا کے ایجنڈے کی خاطر کچھ بھی کر گزرنے کے حوالے سے پوری طرح با خبر رہی۔ آج صورتحال جس نہج پر پہنچ چکی ہے اسکو نہ تو بھارت کی ریاست کنٹرول کر سکتی ہے اور نہ ہی حکومت کو اس دہشت گرد تنظیم سے دور ہونے پر مجبور کر سکتی ہے۔آر ایس ایس نے بھارتی ریاست سے بہتر منصوبہ بندی کے تحت کام کیا اور گجرات سے شروع ہونے والا یہ ایجنڈا2014 ء میں وزارت عظمیٰ لے اڑا۔پہلی ٹرم میں آر ایس ایس کے سیوک نے بہت زیادہ پر پرزے نہیں نکالے صرف اپنی طاقت کو مجتمع کرنے پر زور رکھا جس میں اہم مرکزی وزارتوں پر کٹر ہندو انتہا پسند جو کہ آر ایس ایس کے تربیت یافتہ تھے ، کو متعین کیا ، کمال ہوشیاری سے مودی نے اپنا سیاسی اثر و رسوخ بڑھانے کے لئے ہندوتوا کا بیانیہ انکے ذریعے پھیلایا ، دنیا اور کارپوریٹ سیکٹر کو سیکولر بھارت کا چکر دیتے رہے کہ وہ اگر حکمران رہیں گے تو بھارتی اور دنیا کے کارپوریٹ سیکٹر کو ایک ارب سے زائد لوگوں کی مارکیٹ کے بھرپور فوائد پہنچیں گے۔2018 ء کا الیکشن جیتنے کے لئے ایک بار پھر کمال چالاکی سے پلوامہ سے لیکر بالا کوٹ ڈرامہ رچایا گیا اور مودی چوکیدار بن کر سارے بھارت اور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں کامیاب ہو گیا۔ پہلے سے زیادہ مینڈیٹ حاصل ہوتے ہی اس نے اپنے سارے نقاب اتار دئے اور بلا تاخیر آر ایس ایس کے اکھنڈ بھارت کے ایجنڈے پر عملدرآمد شروع کر دیا ہے۔ اس دفعہ صورتحال1947 ء سے مختلف ہے کیونکہ اس بار ہندوستان کی مذہبی اکثریت ایک خالصتاً ہندو ریاست قائم کرنے کے درپے ہے۔اس میں بھی بہت سی ہندو برادری حصہ دار بننے کو تیار نہیں انکا یہ ہندو ریاست بنانے والے کیا کریں گے اور پھر ایک بہت بڑی تعداد میں مسلمانوں سمیت اقلیتیں بھارت میں موجود ہیں انکو کسی دوسرے ملک میں دھکیلنا ناممکن ہے۔ لے دے کے ایک ہی آزمودہ نسخہ رہ جاتا ہے جو 1947ء میں کیا گیا تھا کہ مسلم اکثریتی علاقے پاکستان کا حصہ بن گئے اور باقی ہندوستان رہ گیا۔ مودی اور اسکے اکھنڈ بھارت کا خواب دیکھنے والوں کو چند ریاستوں پر مبنی حصے کو بھارت ڈکلئیر کر دینا چاہئیے اور اعلان کر دیں کہ جو لوگ خالصتاً ہندو ریاست میںرہنے کے متمنی ہیں وہ اگر ان ریاستوں سے باہر ہیں تو ہجرت کر کے آ جائیں اور باقی علاقے اپنی مذہبی یا قومی اکثریت کے حوالے سے اپنی اپنی آزاد ریاست قائم کر لیں۔ ہندوستان کو ایک اور 1947 ء کی ضرورت ہے کیونکہ انتہا پسندانہ رویہ جس عروج پر مودی سرکار کی سرپرستی میں پہنچ چکا ہے اسکے بعد اگر بھارت مذہبی اور قومی بنیادوں پر پر امن طور پر تقسیم نہیں ہوتا تو ایک ایسی خونریزی شروع ہو سکتی ہے جس کا شکار خطہ ہی نہیں بلکہ دنیا بھی ہو سکتی ہے۔ نازی جرمنی کے نظریے کے پیروکاراکھنڈ بھارت کا ایجنڈے پر کارفرما ہو چکے ہیں، یہ صرف پاکستان کی بھارت دشمنی کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسا خطرہ ہے جس کے بارے میں پاکستان کی تخلیق کے دن سے ہم آگاہ ہیں اور ہمیشہ سے پتہ ہے کہ بھارت کے ہندو انتہا پسندوں نے اس تقسیم کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ آج کی نئی دنیا میں جب روایتی ہتھیار چند منٹوں میں بہت بڑی تباہی لا سکتے ہیں، ایک انتہا پسند تنظیم کا سیوک اگر ایٹمی ملک کا سربراہ ہو گا جو اکھنڈ بھارت پر یقین رکھتا ہے تو اس خطے ہی نہیں دنیا کے لئے کتنی بڑی تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔اس لئے عالمی برادری کو پاکستان کی آواز دھیان سے اور جلد از جلد سننی چاہئیے۔