20جون 2020ء ہفتے کوبھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے اس بیان پرکہ لداخ میں نہ تو کوئی داخل ہوا ہے اور نہ ہی بھارتی فوج کی کوئی پوسٹ کسی کے قبضے میں ہے۔ بھارت کی اپوزیشن جماعتوں اور صحافیوں سمیت کئی حلقوں کی جانب سے شدید تنقید ہو رہی ہے۔مودی کو چینی افواج کی لداخ میں پیش قدمی کے حوالے سے جس شدید تنقیدکاسامناہے اوروہ زبردست دبائومیں ہے اسے کچھ سمجھ نہیں آرہاکہ کریں توکیاکریں۔ چین سے جنگ کریں توپورابھارت اس جنگ کی بھینٹ چڑھ جائے گااوراگروہ جنگ سے جی چرالیں توپھربھارتی عوام چین کے سامنے بی جے پی اورمودی کوبھی اسی طرح شکست خوردہ قراردیں گے جس طرح وہ کانگریس کوسمجھتے رہے ہیں۔ اس صورتحال نے مودی کومجبورکردیاکہ وہ بھارتی فوج کے ذریعے علاقے میںجھوٹے موٹ طریقے جنگ جیسی فضاکوہوا دے اور اعلان کرے کہ چین کوہرگز نہیں چھوڑیں گے اوراسے لداخ میں مارے جانے والے بھارتی فوجیوں کے خون کابدلہ لیاجائے لیکن وہ چین سے کیا بدلہ لے گاچین کے سامنے اسکی اوراس کے فوج کی ٹانگیں کانپ رہی ہیں،عقل اسکی مائوف ،دماغ اس کا شل اوراس کے ہاتھ پیرتشنج کے شکارہیں ۔ بھارت میں سوال اٹھائے جارہے ہیں کہ جب ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تو آخر بھارت کے بیسیوںفوجی ہلاک ،گرفتار اور چھ درجن سے زائد بری طرح سے زخمی کیسے ہوئے ہیں؟اگرایسانہیں ہے اور چینی فوج لداخ میں نہیں آئی ہے تو پھرلداخ خطے میں اتنی فوج کشی اور بڑے پیمانے پر فوجی نقل وحمل میں بے پناہ اضافہ کیوں جاری ہے۔ کانگریس کے لیڈر،راہول گاندھی تومسلسل مودی سے جواب کامطالبہ کرتے چلے آرہے ہیں اورکہہ رہے ہیں کہ مودی نے بھارت کو چین کے سامنے سر نگوں کر دیا ہے۔ راہول گاندھی کی مسلسل تنقید پرمودی کے پالتومیڈیانے راہول پرا لزام لگایا کہ وہ بھارتی فوج کامورال پست کرنے کی کوشش کررہے ہیںمگرجواب الجواب میں کانگریس کہہ رہی ہے کہ وہ مودی اینڈ کمپنی کوفوج کے پیچھے چھپنے ہرگزنہیں دینگے ۔راہول گاندھی کے بعد اب کانگریس کے سینئر ترین لیڈراور سابق بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ نے بھی مودی پر نکتہ چینی کی اور کہا کہ انہیں اپنے الفاظ کے انتخاب پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ اس کے دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ من موہن سنگھ نے مودی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جھوٹ کے بہانے سے سچائی کو چھپایا نہیں جا سکتا۔ انہوں نے کہ مودی حکومت کو چاہیے کہ وہ ہلاک ہونے والے فوجیوں کو انصاف دلوانے کا کام کرے۔ ادھربال ٹھاکرے کی بنائی ہوئی شدت پسند ہندوتواتنظیم شیوسیناجس کی کمان بال ٹھاکرے کے مرنے کے بعدان کے بیٹے ادھو ٹھاکرے کے ہاتھوں میںہے اور جو بھارتی ریاست مہاراشٹر میں حکومت میں کانگریس کی اتحادی پارٹی ہے اس نے بھی مودی کے بیان پر اپنے شدید غم و غصے کااظہارکیا۔ شیوسینا کی ڈپٹی لیڈر پریانکا وکرم نے مہاراشٹرکے دارالحکومت ممبئی میںمودی سرکار سے اس حوالے سے وضاحت پیش کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا اس میں کوئی دورائے نہیں کہ گلوان وادی چین کے حوالے کر دی گئی ہے ۔واضح رہے کہ بھارت کے کئی دفاعی ماہرین یہ بات پہلے ہی کہہ اور لکھ چکے ہیں کہ چین نے پونگ گانگ سو جھیل میں بھارتی فوج کی گشت کا دائرہ مکمل طور پر محدود کر دیا ہے اور وادی گلوان سمیت بھارت کے تقریباً60 کلو میٹر مربع علاقوں تک اسکی فوجیوں کا کنٹرول حاصل ہے۔ راہول گاندھی اور منموہن سنگھ کی شدید تنقید پر بی جے پی آگ بگولہ ہوگئی ہے اورجواب الجواب میںبی جے پی کے ایک لیڈر جگت پرکاش نڈا کا کہنا ہے کہ منموہن سنگھ اور راہول گاندھی اس پارٹی سے وابستہ ہیں جس نے ماضی میں چین سے لڑے بغیر ہتھیار ڈال دئیے اور چین کو آگے بڑھنے اورقدم جمانے دیئے گئے ۔ بی جے پی لیڈر نڈا کاکہناتھاکہ ڈاکٹر منموہن سنگھ کا تعلق اسی پارٹی سے ہے، جس نے 43000 کلومیٹر ہندوستانی علاقہ چین کے حوالے کردیا ہے اور انکی حکومت کے دوران ایک ناقص حکمت عملی دیکھی گئی اور زمین لڑے بغیر سرنڈر کردی گئی۔ نڈاکہناتھا کہ یہ وہی کانگریس ہے جس نے ہمیشہ فوج پر سوال اٹھائے اور انہیں مایوسی کیا۔ان کاکہناتھاکہ یہ الفاظ کا کھیل ہے اور کوئی ہندوستانی اس پر یقین نہیں کرے گا۔ چین کے خوف کے باعث کپکپی اورتھرتھرلی کے عالم میں بھارتی عوام کودھوکہ عظیم میں مبتلا رکھنے کے لئے 21جون 2020ء اتوار کو بھارتی میڈیا چینلوں نے خبرچلائی جس میں اس بات پر خوب ڈھول پیٹا گیا کہ بھارتی وزیر دفاع راجناتھ سنگھ کی صدارت میںبھارتی افواج کے تینوں ہائی کمان کااجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں لداخ خطے میں چینی فوج کی پیش قدمی اورچینی فوج کے ہاتھوںبیسیوں بھارتی فوجیوں کی ہلاکت ،گرفتاری اور75سے زائدفوجیوں کے زخمی ہونے سے پیدا شدہ صورتحال کا جائزہ لیا گیا اور اجلاس میں جواہم فیصلہ لیاگیاوہ یہ کہ بھارتی فوج کو چین کامقابلہ کرنے کے لئے فری ہینڈ دیاگیا۔تاہم اس اجلاس کے حوالے سے مودی سرکارکی طرف سے کوئی باقاعدہ بیان جاری نہیں کیا۔ لیکن یہ ٹاسک بھارتی میڈیا کوہی سونپاگیاکہ وہ اس اجلاس پرخوب ڈھول پیٹے تاکہ بھارتی عوام یہ سمجھ بیٹھیں کہ مودی سرکار اب فیصلہ لے چکی ہے کہ بھارتی افواج کے ذریعے چینی فوج کومعقول جواب دیاجائے گا۔ حالانکہ مودی حکومت کے اندرکی اصل صورتحال یہ ہے کہ لداخ میں چینی فوجیوں کے ہاتھوںبھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے واقعے کے بعد سے کشیدگی کم کرنے کیلئے اس کی باربار درخواست اور گزارشات پرچین کے ساتھ کئی مرحلے کی بات چیت ہوئی۔ راج ناتھ کی زیرصدارت بھارتی فوجی ہائی کمان کے ساتھ اجلاس کے بعد بھارتی فوجیوں کے ڈگمگاتے وجودنے ایک اور ڈرامہ بازی شروع کررکھی ہے اور لداخ میں بڑے پیمانے پربھارتی فوج کی (Deployment) جاری ہے اور سرینگر لداخ کی شاہراہ پربھارت کے فوجی قافلے مسلسل جاری ہیں ۔ بھارت کی جانب سے فوجی قافلوں کے ساتھ بڑی تعداد میں ہتھیاروں کو بھی سرحد کی جانب منتقل کیا جا رہا ہے جس میں ٹینک، بکتربند گاڑیاں اور توپوں سمیت مختلف طرح کا فوجی ساز و سامان شامل ہے۔ دوسری طرف سری نگرمیںغیر معمولی طور پر فضا میں جنگی طیاروں کی گھن گرج بھی باربار سنائی دے رہی ہے جو بیشتر سری نگرسے لداخ کے درمیان پرواز کرتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔ چین توپہلے سے ہی جنگ پرآمادہ ہے اسی لئے وہ گلوان وادی اوراس کے گردنواح کے علاقوں پرقبضہ کرچکاہے ورچین کے جنگی طیارے کی گھن گرج بھی لداخ کے قریب فضائوں میں سنی جارہی ہے۔