حالات زیرو زبر ہو رہے ہیں۔ کشمیری مسلمان ایک کڑی آزمائش سے گزر رہے ہیں۔ آزمائش کی یہ گھڑیاں ان پر کب تک مسلط رہیں گی‘ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن تاریخ اور اقوام عالم کا مطالعہ یہی بتاتا ہے کہ جو قوم اپنی آزادی کے لئے سب کچھ قربان کرنے پر تیار ہو جائے اسے بڑی سے بڑی طاقت بھی غلام بنا کر نہیں رکھ سکتی۔ خود ہندوستان بھی اسی طرح آزاد ہوا اور پاکستان بھی قادر مطلق کے اسی قانون کے تحت وجود میں آیا۔ کشمیری آج غلام ہیں‘ ظلم و جور کا شکار ہیں لیکن یہ صورت حال ہمیشہ نہیں رہے گی۔ آج نہیں تو کل ہندوستان کو اسے آزادی دینی ہو گی۔ اس میں تاخیر کی گئی تو عجب نہیں کہ خود ہندوستان کے اندر چلنے والی علیحدگی کی تحریکیں کشمیری مسلمانوں کے جذبہ حریت سے طاقت پا کر مضبوط ہوں اور وہ بھی آزادی کے لئے اٹھ کھڑی ہوں۔ ایسی صورت میں مودی سرکار کے لئے اس کے سوا کوئی صورت نہ ہو گی کہ وہ اکھنڈ بھارت کے خواب کو ترک کر کے ہندوئوں کے لئے ایک کٹے پٹھے بھارت پر اکتفا کرنے پر مجبور ہو جائے۔ کانگرس نے اگر سیکولرازم کی پالیسی اپنائی تھی تو اس لئے کہ بھارت جیسے گرانڈیل ملک جس میں مختلف مذاہب اور مختلف ثقافتوں کے لوگ بستے تھے۔ انہیں متحد اور یکجا کرنے کا اور کوئی طریقہ تھا ہی نہیں۔ خود مسلمان سلاطین اور بادشاہوں نے بھی ہندوستان پر اسی طرح حکومت کی اور مذہب کو حکومتی معاملات میں داخل نہیں کیا۔ مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکومت کے خاتمے پرہندوئوں کے اندر اپنے مذہب اور اپنی حکومت کے احیا کا جذبہ پیدا ہوا لیکن کانگرس کے لیڈر گاندھی اور نہرو اپنے تاریخ کے مطالعے کی بنا پر اس حقیقت کو پا چکے تھے کہ ہندوستان پر ہندو بن کر حکومت نہیں کی جا سکتی۔ گاندھی جی اندر سے کٹر ہندو تھے اور وہ ہندو راج نیتی کے قیام پر یقین رکھتے تھے لیکن اپنی بصیرت سے وہ بھی اس حقیقت کو بھانپ گئے تھے کہ دوسرے مذاہب کے لئے کشادہ دلی کا رویہ اختیار کرنے ہی میں عافیت ہے۔ انہوں نے اس کشادہ دلی کو ایک حکمت عملی کے طور پر اختیار کیا۔ چنانچہ مسلمانوں کی طرف ان کا جھکائو اور ہمدردی کا رویہ محض اس لئے تھا کہ وہ انہیں کانگرس کی طرف مائل کر سکیں اور انہیں بھارت کو متحد رکھنے پر راضی رکھ سکیں لیکن حالات و واقعات نے انہیں بھی بتلا دیا کہ ہندوستان کا امن و سکون اسی میں مضمر ہے کہ مسلمانوں کو ان کا وطن ان کے حوالے کر دیا جائے چنانچہ وہ مجبوراً یا جبراً قہراً مطالبہ پاکستان کو ماننے پر مجبور ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد بھی اگر انہیں پاکستان سے ہمدردی رہی اور ہندوستان کی جانب سے پاکستان کے تیس کروڑ روپے کی ادائیگی روکے جانے پر انہوں نے مرن برت رکھ کر احتجاج کیا تو اس کے پیچھے ان کی یہی آرزو دبی اور چھپی تھی کہ اس کشادہ دلی اور فیاضی سے وہ مسلمانوں کو پاکستان کی ناکامی کی صورت میں ازسر نو ہندوستان میں ضم کرنے اور بھارت کو ایک متحد ملک کے طور پر قائم کرنے میں کامیاب ہو سکیں گے ۔ان کی یہ حکمت عملی انتہا پسند ہندوئوں کے لئے جو مسلمانوں پر حکومت کرنے اور انہیں غلام بنا کر رکھنے کا خواب دیکھ رہے تھے‘ کسی طرح قابل قبول نہ ہوا۔ چنانچہ ان ہی کے ہاتھوں گاندھی جی اپنی جان سے گئے۔ آج گاندھی جی کے قاتل ہی ہندوستان کے اقتدار پر قابض ہیں۔ جن کے پیرو کار گاندھی جی سے ان کی مسلمان دوست رویے کی بنا پر نفرت کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ کشمیر ہی نہیں‘ پاکستان کو بھی سوقیانہ لفظوں میں ’’اپنے تھلے لگا کر رکھ سکیں‘‘یہ تنگ نظرانہ رویہ انہیں کتنا مہنگا پڑے گا۔ اس کا اندازہ اسی سے کیا جا سکتا ہے کہ کشمیر میں مسلسل و متواتر کرفیو لگا کر وہ کشمیری مسلمانوں کواپنے قابو میں رکھنا چاہتے ہیں اور ناکام ہیں اس غیر انسانی رویے پر عالمی رائے عامہ میں بھارت کے خلاف بدظنی کے جذبات بڑھتے جا رہے ہیں خود ہندوستان کے اندر سکھوں میں خالصتان کے قیام کا جذبہ شدت پکڑ رہاہے۔ ہندوستانی مسلمان جنہوں نے بنگلہ دیش کے قیام کے بعد پاکستان کی طرف دیکھنا چھوڑ دیا تھا‘ اب وہ بھی اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ ان کے مسئلے کا آخری حل پاکستان ہی ہے۔ چنانچہ وہاں مسلمانوں کی جانب سے جو جلسے جلوس ہو رہے ہیں اس میں پاکستان حمایتی جذبات کو بآسانی دیکھا جا سکتا ہے۔ مودی سرکار نے کچھ نہیں کیا بھس میں چنگاری پھینک دی ہے اور اس سے جو آگ بھڑکی ہے اب اس کو دبانا اور قابو پانا کسی طرح بھی اس حکومت کے لئے ممکن نہیں۔ ہماری حکومت اس ساری صورت حال کو بے بسی سے دیکھ رہی ہے۔ سفارتی سطح پر جو کوششیں ہو رہی ہیں وہ بھی سب کے سامنے ہے عالمی اداروں میں بھی یہ مسئلہ اٹھایا جا رہا ہے لیکن ماضی کی طرح آج بھی دنیا میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون رائج ہے۔ او آئی سی ہو یا سلامتی کونسل یا یورپی یونین‘ یہ سب کے سب بھارت پر زیادہ سے زیادہ اخلاقی دبائو ہی ڈال سکتے ہیں۔ مذمتی قرار دادیں اور زبانی کلامی مطالبوں سے آگے بڑھا کر کچھ بھی نہ کر سکیں گے ۔ مجھے یقین ہے کہ قدرت اسی صورت حال کے اندر سے کوئی راستہ نکالے گی اور مودی سرکار کو گھٹنے ٹیکنے پڑیں گے جو کچھ بھی ہوتا ہے اور جو کچھ بھی ہو گا‘ بھارت کے اندر سے اور اس کی اندرونی صورت حال ہی سے ہو گا۔ یہ اندرونی تضادات اور داخلی تصادم اور پیکار ہی بھارت کو بے چینی‘ بدامنی اور عدم استحکام سے دوچار کرے گا۔ یہ ساری لڑائی اعصابی لڑائی ہے۔ اس عصابی جنگ میں مودی سرکار کتنی مستقل مزاجی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ یہ دیکھنا ہے اگر وہ سمجھتی ہے کہ ظلم و جور اور سختی و زبردستی سے وہ کشمیری مسلمانوں کو مطیع و فرمانبردار بنا لے گی تو یہ خام خیالی ہے۔ جو آج نہیں تو کل دور ہو جائے گی۔ ہماری حکومت خود بھی اندرونی تضادات کا شکار ہے۔ ایک طرف اس پر کشمیر کی صورت حال کے نتیجے میں بھارت سے کشیدہ تعلقات کا دبائو ہے اور دوسری طرف اندرونی محاذ پر اپوزیشن سے ٹکرائو کا مسئلہ ہے کہنے کو کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت قوم کو داخلی اتحاد و استحکام کی جتنی ضرورت ہے ‘ شاید پہلے نہ تھی ۔لیکن وزیر اعظم عمران خان پچھلے کرپٹ حکمرانوں کو کسی طور معاف کرنے کے لئے تیار نہیں۔ ان کا کم سے کم مطالبہ یہی ہے کہ پچھلے حکمران قوم کی لوٹی ہوئی دولت کا ایک حصہ واپس کریں اور آزاد ہو جائیں۔ کیا یہ پچھلے حکمرانوں کی بدعنوانی کی کوئی سزاہے؟ کیا اس طرح آئندہ کے لئے عبرت کی کوئی مثال قائم ہو سکے گی یا ایک راستہ کھلے گا کہ اربوں کی دولت لوٹو اور کروڑوں کی ادائیگی کر کے چھوٹ جائو۔ لیکن سوال تو یہ ہے کہ جمہوری سیاست اور قوانین کے نفاذ میں سستی اور سہولتوں کی موجودگی میں اور کوئی سزا اور اصلاح کا راستہ بھی نہیں۔