سفارتی دشمنی کی کئی داستانیں مشہور ہیں۔ سرد جنگ سرمایہ داری نظام کے سرخیل امریکہ اور کمیونزم کے پرچارک سوویت یونین کے درمیان کشمکش کا زمانہ ہے۔ دونوں دنیا پر اپنا غلبہ پانے کے لیے جدوجہد کر رہے تھے۔ دونوں ملکوں کے فیصلہ ساز حلقوں نے ایک مرحلے پر سوچا کہ ان کی باہمی دشمنی دنیا کے لیے کئی نئے خطرات پیدا کر رہی ہے‘ پھر دونوں طرف کشیدگی کم کرنے پر توجہ دی گئی۔ 1960ء سے 1970ء تک کا عشرہ دیتا نت کہلاتا ہے‘ اس عرصے میں بہت کارآمد کام ہوئے۔ ایٹمی ہتھیاروں کے کنٹرول اور سفارتی تعلقات میں بہتری کے لیے کئی مذاکراتی ادوار ہوئے اور معاہدے عمل میں آئے۔ اس لگ بھگ ایک عشرے کی مہلت کے بعد دونوں عالمی طاقتیں پھر سے جنگ کے دہانے پہنچ گئیں۔ اگرچہ یہ دونوں ملک کبھی براہ راست جنگ میں نہیں الجھے مگر ان کے مابین عشروں رہنے والی سرد جنگ نے دنیا کو معاشی‘ فوجی اور نظریاتی طور پر تقسیم کر دیا۔ پاکستان اور بھارت بھی دو علاقائی طاقتیں ہیں۔ ان کے درمیان جنوبی ایشیا میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کی کشمکش پہلے دن سے جاری ہے۔ بھارت نے نیپال سے معاہدہ کیا کہ دفاع سمیت اس کی کئی ضرورتیں بھارت پوری کرے گا لیکن بدلے میں نیپال بھارت کے مفادات کا خیال کرے گا۔ بھارت نے سری لنکا میں تامل بغاوت کے خلاف سری لنکا کی مدد کے نام پر افواج داخل کر دیں۔ بھارت نے یہی کچھ مشرقی پاکستان میں کیا اور اسے بنگلہ دیش بنا دیا۔ مالدیپ ‘ بھوٹان کی تو ہمت ہی نہیں کہ وہ بھارت کو ناراض کر سکیں۔ اب بھارت افغانستان میں ایسی قوتوں کا سرپرست بنا ہوا ہے جو پاکستان میں بدامنی و دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ وزیر اعظم مودی کہہ چکے ہیں کہ کشمیر کا بدلہ بلوچستان میں گڑ بڑ پیدا کر کے لیں گے۔ تاریخی طور پر بھارت اپنے جارحانہ عزائم سے خطے کے ممالک کو دبائو میں رکھنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ پاکستان ایک رکاوٹ ہے۔ پاکستان کو کمزور کر دیا جائے اور اسے داخلی انتشار میں الجھا دیا جائے تو بھارت جنوبی ایشیا کو ایک ایسے بلاک کی شکل دے سکتا ہے جس کی منڈیوں اور تجارتی راستوں پر اس کی اجارہ داری ہو۔ ہندوستان میں اکھنڈ بھارت کے نعرے کو قدیم ہندوستان جیسی عظیم الشان متحدہ ریاست کے خواب کے طور پر پیش کیا جاتا ہے لیکن یہ نعرہ کارپوریٹ سیکٹر نے یرغمال بنا لیا ہے۔ اس میں ماضی کی عظمت واپس لانے کی خواہش ہوتی تو پھر قدیم ہندوستان کی طرح مختلف قوموں اور نسلوں کے درمیان اتفاق پیدا کرنے کی کوشش بھی ضرور کی جاتی۔ اکھنڈ بھارت والے یہ نہیں بتاتے کہ انہوں نے اکبر کے دور والا ہندوستان بنانا ہے یا اشوک عہد کی وسیع و عریض سلطنت کو بحال کرنا ہے۔ کارپوریٹ طبقے نے اکھنڈ بھارت کو نفرت کا جہنم بنانے کا سوچ رکھا ہے۔ آج جو کچھ بھارت ہے‘ اکھنڈ بن کر اس سے بھی بُرا اور ناقابل برداشت ہو جائے گا۔ حسب روائت اسی کارپوریٹ طبقے نے بھارت کے میڈیا میں سرمایہ کاری کی ہے۔ پاکستان میں امن خطے میں تجارت اور خوشحالی کے کچھ راستے پاکستان میں بحال کر سکتا ہے اس لیے بھارت کا میڈیا دونوں ملکوں میں تعلقات بحالی کی ہر کوشش کا راستہ روک لیتا ہے۔ ایک بات طے ہے کہ پاکستان اور بھارت جب تک خود دشمنی ختم کرنے کا فیصلہ نہیں کرتے‘ ان کے باہمی تعلقات خوشگوار نہیں ہو سکتے۔ کشمیر تنازع نہیں تھا۔ ہندوستان تقسیم کرنے والوں نے اس خطے سے دشمنی کی اور کشمیر کا جھگڑا چھوڑ کر چلے گئے۔ ذرا تصور کریں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کا جھگڑا نہ ہوتا تو پانی کا تنازع ابھرتا؟ کیا دونوں ملکوں کے درمیان چار جنگیں ہوتیں۔ کیا ان جنگوں میں لاکھوں افراد مرتے‘ کھربوں ڈالر کا امریکی ‘ روسی‘ فرانسیسی اور اسرائیلی اسلحہ فروخت ہوتا؟ بھارت میں نریندر مودی مڈل کلاس کے نمائندہ کے طور پر وزیر اعظم بنے ہیں۔ حقائق بتاتے ہیں کہ ان کی پشت پر اربوں ڈالر کے سرمایہ والی بھارتی ملٹی نیشنل کمپنیاں کھڑی ہیں۔ ان کمپنیوں نے اپنے مفادات افغانستان‘ بنگلہ دیش‘ سری لنکا اور چین تک پھیلا لئے ہیں۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے ان کا حصہ بننے کی کوشش کی تھی۔ بھارتی کمپنیاں ریاست پاکستان کو کسی طرح کا فائدہ پہنچانے کے لیے آمادہ نہ تھیں۔ سجن جندال افغانستان کی سکریپ پاکستان کے راستے منگوانا چاہتا تھا۔ بھارت کے سو اارب عوام کی حالت مودی کو پاکستان سے بات کرنے پر آمادہ نہ کر سکی لیکن وہ سجن جندال کے ساتھ نواز شریف کے گھر آ گئے۔ کیوں؟ کاروباری مفادات۔ اگر نواز شریف اقتدار میں رہتے تو بھارتی سکریپ کو راستہ مل جاتا مگر پاکستان کو کیا ملتا؟ ہاں لندن‘ نیو یارک‘ پیرس‘ اٹلی یا آسٹریلیا میں کچھ پاکستانیوں کے شاہانہ مینشن بن جاتے۔ گزشتہ چار برس کے دوران امریکہ‘ کینیڈا‘ جاپان‘ چین‘ فرانس‘ برطانیہ سمیت دنیا کے طاقت ور سمجھے جانے والے بہت سے ملکوں کے سربراہ بھارت آئے۔ کئی ممالک میں نریندر مودی اپنی جادو کی جپھی لے کر خود پہنچ گئے۔ ان سب ملکوں کے سربراہوں کے ساتھ ملاقات کے بعد مشترکہ اعلامیہ میں یہ الفاظ اصرار کر کے شامل کرائے جاتے رہے ہیں کہ ’’پاکستان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے‘‘ کئی بار ممبئی حملوں کا ذکر بھی کیا گیا۔ سفارتی آداب اس بات کو ناپسندیدہ قرار دیتے ہیں کہ دو ملک کسی تیسرے ملک کے لیے اس طرح کے الفاظ استعمال کریںلیکن بھارت چونکہ سیاسی اور سفارتی اصولوں پر نہیں بلکہ کاروباری اصولوں پر دنیا سے تعلقات استوار کر رہا ہے اس لیے ان ممالک کے سربراہ بڑی منڈی اور تجارتی معاہدوں کے لالچ میں ایسا کئے جا ہے ہیں۔ پاکستان کی طرف سے حالیہ دنوں بھارت کو مذاکرات کی جو دعوت دی گئی اس میں تنازع کشمیر‘ آبی جھگڑے اور رابطوں کی بحالی کو ایجنڈا بتایا گیا۔ بھارت اس ایجنڈے کو مستردکرتا آیا ہے کیونکہ اس سے خطے میں امن کا دروازہ کھلتا ہے۔ پاکستان نے بابا گرونانک جی کے میلے پر کرتار پور سرحد پر بھارتی یاتریوں کو بغیر پاسپورٹ آنے کی دعوت دی۔ بھارت نے اسے تنازعات کا شکار بنا دیا۔ جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر پوری دنیا سے سربراہان مملکت و حکومت اقوام متحدہ میں آئے ہیں۔ پاکستان کے وزیر خارجہ اردو میں وقت ضائع کرنے کی بجائے انگریزی میں اپنا مقدمہ دنیا کے سامنے پیش کریں۔ مودی کے ساتھ مشترکہ اعلامیہ میں پاکستان سے دہشت گردی کے ٹھکانے ختم کرنے کا مطالبہ کرنے والے سربراہوں کو مخاطب کر کے پوچھا جائے کہ وہ پاکستان کی حالیہ کوششوں پر مذاکرات سے بھاگنے والے بھارت کا کیوں ساتھ دے رہے ہیں۔رہی بات عمران خان کے ٹویٹ کی تو کرکٹ سیریز‘ فلم و میوزک‘ پانی‘ کشمیر اور یاتریوں کے معاملات تک پر بات کرنے سے انکاری بھارت کو شاک تھراپی کی ضرورت تھی‘ اگلے چند دن میں بھارتی فوج کی دھمکیاں نہیں عمران خان کا ٹویٹ بھارت کے اندر مودی کی سیاسی پریشانیاں بڑھاتا نظر آئے گا۔