جموں و کشمیر کی سرحدوں کی لکیر کو دوبارہ کھینچنے، دونوں نیم خودمختارعلاقوں کو بھارتی یونین کا باضابطہ حصہ بنانے اور بھارتی آئین میں کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے ڈرامائی اعلان کے جھٹکے بھارت کے شمالی علاقوں سے باہر بھی محسوس کیے جائیں گے۔بھارتی فورسز کی اضافی نفری، نقل و حرکت، حریت پسند قیادت کی گرفتاریاں اور نظربندی سے کرفیو تک اور سوشل میڈیا پر غیرمصدقہ اطلاعات اور افواہوں سے لے کر مواصلات کے نظام کی بندش تک ہر گزرتے لمحے کے ساتھ تشویش میں اضافہ ہوا کہ آخر ہونے کیا جا رہا ہے۔ اس وقت کوئی بھی بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی تھی۔آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد جموں و کشمیر کا درجہ ریاست کا نہیں رہا بلکہ وہ تقسیم ہو کر ہندوستان کے زیر انتظام دوعلاقے بن گئے ہیں، جن میں ایک لداخ اور دوسرا جموں و کشمیر۔ دونوں علاقوں کا انتظامی والی وارث ایک لیفٹیننٹ گورنر ہو گا اور داخلہ امور اب وزیر اعلیٰ کے بجائے ہندوستان کا وزیر داخلہ چلائے گا۔اس فیصلے کے بعد کشمیر میں تمام روایتی قانون ختم ہو گئے اور وہاں ہندوستانی قانون مکمل طور پر نافذ العمل ہو گیا۔بھارت کو کشمیر سے سخت ردِ عمل آنے کی توقع تھی لہذا اس نے فیصلے سے پہلے ہی کشمیر کو فوجی چھاؤنی میں تبدیل کر دیا۔ پاکستان نے اس کو ’غیر قانونی‘ قرار دیا ہے جبکہ مقامی جماعتوں کے سربراہ اسے کشمیری عوام کو دیے جانے والا ’مکمل دھوکہ‘ قرار دے رہے ہیں۔پارلیمنٹ اور صدر کی منظوری کے بعد یہ فیصلہ ابھی عدالت میں جانا باقی ہے۔ بھارتی آئین میں منسوخ کیے جانے والے آرٹیکل 370 کی اہمیت سمجھنا ہے تو ہمیں برطانوی نوآبادیاتی نظام سے آزادی کے بعد بھارت کی بطور آزاد ریاست تاریخ کی جانب واپس جانا ہو گا۔کشمیر اْس وقت پاکستان، بھارت اور چین کے سنگم پر واقع ایک طاقتور سلطنت تھا۔ کشمیر کسی بڑے ملک کا حصہ نہیں بننا چاہتا تھا لیکن بطور مسلم اکثریتی ریاست اس کا پاکستان سے الحاق متوقع تھا۔تاہم جب پاکستانی فوج کشمیر میں داخل ہوئی تاکہ کشمیر کے راجہ کو پاکستان سے الحاق پر مجبور کیا جا سکے تو راجہ نے بھارت کے ساتھ معاہدہ کر کے بھارتی یونین کا حصہ بننے کا فیصلہ کر لیا۔ لیکن یہ کشمیر کی خصوصی حیثیت اور اختیارات سے مشروط تھا۔بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 میں کشمیر کو خصوصی اختیارات دیے گئے ہیں۔ یہ وادی کشمیر میں باہر کے لوگوں کو زمین خریدنے سے روکتا ہے، سرکاری نوکریوں اور تعلیمی درس گاہوں میں کشمیریوں کا مخصوص کوٹا مختص کیا گیا ہے۔ یہ کشمیر کے لیے ایک الگ شناخت تھی جو بہتری کے لیے تھی ۔یہ خصوصی اختیارات بھارت کے باقی علاقوں میں کافی غیر مقبول تھے، جہاں دائیں بازو کے قوم پرست سیاست دان اسے ملک کے مسلمانوں کو ہندو اکثریت پر مقدم قرار دینے کی کوشش کہہ کر سیاست کرتے تھے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے 2018 ء میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کو اپنی انتخابی مہم کا حصہ بنایا تھا، جس کے بعد بی جے پی اور علاقائی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے درمیان جموں و کشمیر میں اتحادی حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔مئی میں ہونے والے انتخابات میں کشمیر میں بڑے پیمانے پر الیکشن کا بائیکاٹ کیا گیا۔ بی جے پی کے مودی ان انتخابات کے بعد بھاری اکثریت سے دوسری بار حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے۔ ان کی کامیابی کے بعد بی جے پی سوچ رہی تھی کہ اب کچھ کرنے کا وقت آگیا ہے۔ تب سے کشمیر میں صدارتی راج نافذ تھا، جس دوران پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی نے دونوں ملکوں کو جنگ کے دہانے پر پہنچا دیا تھا۔بھارت یک طرفہ طور پر جموں اور کشمیر کی آئینی حیثیت صدارتی راج کے بدولت ہی تبدیل کر سکا ہے۔ بھارتی آئین میں کسی بھی ریاست کے قوانین بدلنے کے لیے اْس ریاست کی قانون ساز اسمبلی کی منظوری ضروری ہوتی ہے۔ کشمیر کے معاملے میں اسمبلی کے یہ اختیارات بی جے پی کے نامزد کردہ صدر کو دے دیے گئے ہیں۔ درحقیقت اس جماعت نے اپنے صادر کردہ فیصلے پر ہی مہر تصدیق ثبت کی ہے۔کشمیر کے مقامی سیاست دانوں نے اس فیصلے کے خلاف جدوجہد کا اعلان کیا ہے۔ ان کے مطابق اس مسئلے کا طویل المدتی حل صرف حق خود ارادیت ہے۔ پاکستان بھی دونوں ملکوں کے زیر انتظام کشمیر کے حصوں میں رائے شماری کا حامی ہے۔ پوری وادی میں اس وقت بھارت کے خلاف جذبات عروج پر ہیں۔بھارت اور کشمیر کے درمیان تعلقات 70 سال سے ہی مشکلات کا شکار ہیں، جن میں علیحدگی پسندوں کی 30 سال مسلح جدوجہد بھی شامل ہے۔اس صورتحال میں کشمیری قوم کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ وہ قیادت اور وکیل کی آواز کا انتظار کرنے کے بجائے اپنی آواز خود بنیں۔ متحد ہو کر ریاست کی وحدت بچانے کی کوشش کریں، سوشل میڈیا کو بطور ہتھیار استعمال کریں، ذمہ داری کا ثبوت دیں اور ہر فورم پر یک زبان ہوکر بات کریں۔مودی اب کشمیر کے مسئلے کے ’حل‘ کے لیے اپنی سیاسی میراث داؤ پر لگا رہے ہیں، جو کشمیر کی خودمختاری اور آبادیاتی تناسب کو تبدیل کر دے گی۔ اب یہ نظر آنے لگا ہے کہ کشمیری اس حق سے بغیر لڑے دست بردار نہیں ہوں گے۔( بشکریہ دی انڈپینڈنٹ)