جمعرات24 جون کو ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں کے ساتھ پہلی بار ایک اہم ملاقات کی ہے جو کہ5 اگست 2019میں کشمیر کی نیم خودمختاری ختم کرنے کے بعد ہندوستان کی حکومتی قیادت کا کشمیری قیادت سے براہ راست ہونے والا پہلا رابطہ ہے حالانکہ انہی کشمیری رہنماؤں میں سے بہت سے افراد کو کریک ڈاون میں جیل بھیج دیا گیا تھا۔ تاہم اس ملاقات میں میرواعظ عمر فاروق سمیت کشمیر کی آزادی کا مطالبہ کرنے والے رہنماؤں بالخصوص آل پارٹیز حریت کانفرنس میں سے کسی کو بھی نہیں بلایا گیا۔اس ملاقات سے فوری طور پر کسی ٹھوس نتیجہ کی امیدنہیںکی جاسکتی تھی ،البتہ اس ملاقات سے مودی حکومت کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے؟ اسکا کسی حد تک اندازہ ضرور لگایا جاسکتا ہے۔ دوسرا اہم نکتہ جس پر گفتگو ہو سکتی ہے وہ یہ ہے کہ آخر مودی حکومت کشمیری سیاسی قیادت سے ملاقات کرنے پر کیوں مجبور ہوئی؟ یہاں پر ہمیں یہ حقائق نہیں بھولنا چاہیئیں کہ نریندر مودی کی حکومت نے 5اگست2019کو مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر کو آرٹیکل 370 اور 35 اے تحت دیا گیا خصوصی سٹیٹس منسوخ کردیا تھا۔ جسکے نتیجے میں کشمیر میں جاری آزادی کی تحریک مزید شدت پکڑ گئی اور انڈیا نے کشمیر کی سیاسی قیادت سمیت بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کیں اور لوگوں کو جیلوں میں ڈال دیا گیا جبکہ ریاست میں کرفیو لگادیا گیا۔ اس دوران کورونا کی وبانے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا تو مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر میں لوگوں کی زندگیاں مزید اجیرن ہو گئیں۔ کشمیر کے عوام کو آرٹیکل 370 کی نسبت شق 35 اے کے خاتمہ پر زیادہ تحفظات ہیں کیونکہ 35 اے کشمیروں کو خصوصی حقوق فراہم کرتا ہے جس کے تحت کسی بھی غیر مقامی شخص کو کشمیر کی شہریت نہیں دی جاسکتی اور نہ ہی اسے کشمیری ڈومیسائل جاری کیا جاسکتا ہے۔ اس شق کے تحت کسی بھی غیر مقامی فرد کے کشمیر میں جائیداد خریدنے پر بھی پابندی ہے البتہ کشمیری تمام ہندوستان میں کہیں بھی جائیداد خرید سکتے ہیں۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق، شق 35 اے کے خاتمے کے بعد سے ریاست جموں و کشمیر میں آبادی کے تناسب میں تبدیلی لانے کے لیے غیر مقامی افراد کو کشمیر میں آباد کیا جارہا ہے اور انہیں ڈومیسائل جاری کیے جارہے ہیں۔ اس طرح مودی حکومت نے آئین کی شق 35 اے کو ختم کرکے کشمیر کی تسلیم شدہ متنازعہ حیثیت کو ختم کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ جغرافیائی سیاسی وجوہات نے اب مودی کو مجبور کیا ہے کہ وہ کشمیری سیاسی رہنماؤں کی طرف ہاتھ بڑھائے۔ افغانستان ایشو کی وجہ سے امریکہ کی طرف سے انڈیا پر دباؤ ہے۔ دوسری اہم وجہ یہ بھی ہے کہ صدر بائیڈن کی انتظامیہ کشمیر میں لگائی گئی پابندیوں پر معترض ہے جبکہ امریکہ اور یورپی یونین کی انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی اپنی حکومتوں سے مطالبہ کرتی ہیں کہ کشمیریوں پر ہونے والے مظالم اور انسانی حقوق کی پامالی کے خاتمے کے لیے ہندوستان پر دباؤ ڈالا جائے۔ اسطرح ایک رائے یہ بھی ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کے مابین ہونے والے بیک چینل مذاکرات کے سہولت کاروں ( یو۔اے۔ای وغیرہ) نے بھی کشمیر میں روزمرہ زندگی کے معمولات کی بحالی اور کشمیریوں کو کچھ رعایتیں فراہم کرنے کے لیے ہندوستان سے یقین دہانی حاصل کی ہوگی اور شاید اس سمت میں اٹھایا گیا ایک قدم ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس اجلاس کا مقصد اگست 2019 میں مودی کی ہندو قوم پرست حکومت کے خطے کی حیثیت کو گھٹا کر، دو وفاقی علاقوں لداخ اور جموں و کشمیر میں تقسیم کرنے اور مقامی لوگوں کو حاصل خصوصی حقوق کے خاتمے کے نتیجے میں اندرون اور بیرون ملک ہونے والی تنقید کو ختم کرنا ہے۔ مودی حکومت کے نزدیک اس ملاقات کا دوسرااور سب سے اہم مقصد ریاست جموں و کشمیر کے انتخابی حلقوں کی ازسر نو حدبندیاں ہیں تاکہ ہندو آبادی کی اکثریت قائم کی جائے اور اس کے بعد جموں کے نمائندوں کو ریاستی اسمبلی میں اکثریت حاصل ہو جائے تاکہ ریاست کی اگلی حکومت ہندوؤں پر مشتمل ہو اور کشمیری مسلمانوں کی اسمبلی میں نمائندگی کم سے کم ہو۔ مودی حکومت کی یہ پالیسی عام کشمیری مسلمانوں کے لیے کس حد تک بہتر ثابت ہوگی؟ یہ بظاہر ڈھکی چھپی بات نہیں البتہ اس وقت جن سیاسی رہنماؤں، جس میں فاروق،عبداللہ عمرعبداللہ، محبوبہ مفتی، غلام نبی آزاد شامل ہیں، نے اجلاس میں شرکت کی ہے ان میں سے صرف محبوبہ مفتی نے انتخابی حلقوں کی کھل کر مخالفت کی ہے کیونکہ ہندوستان میں انتخابی حلقوں کی حد بندی کاعمل ابھی ہونا ہے جبکہ صرف کشمیر میں حد بندی کا قبل از وقت کرانا سوالیہ نشان ہے۔ مودی کی اس ملاقات کا سب سے اہم مقصد آل پارٹیز کانفرنس بلا کر کشمیری رہنماوؤں کو مذاکرات کی آڑ میں مجبور کرنا کہ وہ کشمیر پر انڈیا کے ناجائز قبضے کو تسلیم کر لیں۔ اس کے بعد پاکستان سے "زمینی حقائق" کی بنیاد پر مذاکرات کرنا ہے تاکہ کشمیر کا معاملہ الجھ جائے اور ہندوستان ریاست جموں و کشمیر پر اپنے ناجائز قبضے کو برقرار رکھ سکے۔ پاکستان کو اِس وقت اِنتہائی محتاط رویہ اپنانے کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان کشمیریوں کی اخلاقی اور سفارتی مدد سے دستبردار بھی نہیں ہو سکتا اور نہ ہی انڈیا کے ساتھ اپنے ان بیک ڈور رابطوں میں کسی قسم کا تعطل برداشت کرسکتا ہے جو مستقبل میں پاک بھارت تعلقات کی بہتری کے لیے ہونے والے براہِ راست مزاکرات کی راہ ہموار کریں گے۔