بھارت کی بی جے پی حکومت کشمیر میں ہندی کو تھوپنے کی کوشش کر رہی ہے اسی لئے کئی زبانوں کوکشمیرکی سرکاری زبان قراردیااوراگلے مرحلے پردیگر تمام زبانوں کوکالعدم قراردے کربھارت کی طرح صرف ہندی کوہی سرکاری زبان قرار دیاجائے گا۔کشمیرمیں اردو کے خاتمے پرمودی حکومت بضد کیوں رہی ۔اس پر ذہن میں کئی قسم کے سوالات کلبلارہے ہیں۔کیونکہ صرف مقبوضہ کشمیر ہی نہیں بلکہ مودی کی قیادت میںبی جے پی سرکار پورے بھارت میں اردو مخالف مہم لانچ کرچکی ہے۔ اس نے نئی تعلیمی پالیسی میں جو لسانی فارمولا پیش کیا گیا ہے اس فارمولا میں اردو زبان کا کوئی تذکرہ نہیں بلکہ مادری زبان کی فہرست میں اردو کو نظر انداز کر کے مراٹھی کے ساتھ ساتھ ہندی اور سنسکرت زبان کے فروغ کی خوب گنجائش رکھی گئی ہے۔ بھارت میں مادری زبان کی فہرست میں اردو زبان کو جگہ نہ دیئے جانے پربھارت کے مسلمان ماہرین تعلیم اور اساتذہ اسے مسلم دشمنی سے ہی تعبیرکرتے ہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے کیونکہ اردو ایک ایسی زبان ہے کہ جس کاہماری دینیات کے ساتھ چولی دامن کاساتھ ہے ۔اس لئے اس ناچیزکے بشمول کشمیرکے اہل دانش بھی اسے مسلم دشمنی ہی سمجھتے ہیں۔ دین کوآسانی سے سمجھنے کے لئے برصغیرکے اکابرعلماء کرام کی تفاسیرقرآن اردو زبان میں ہیں۔ تفہیم القرآن ،معارف القرآن ،تدبر قرآن اوربیان القرآن کے علاوہ،لگ بھگ تمام عربی تفاسیرجن میں تفسیر ابن کثیر، تفسیر جلالین، تفسیر فتح القدیر، تفسیر فخر رازی، تفسیر بیضاوی ،تفسیر طبری، تفسیرقرطبی ، اورتفسیر بغوی،جبکہ ذخیرہ احادیت پرمشتمل احادیث نبوی کی سات بڑی کتابوں’’ صحاح ستہ‘‘ کی تشریح وتفہیم اردوزبان میںہے ۔کشمیرکی نسل نوکودین سے بے گانہ کرنے کے لئے مودی نے اردوزبان کے خلاف ایک مذموم اور شرمناک ایکشن لیا۔اس کے علاوہ تحریک آزادی کشمیرکاڈنکابجانے میں اردونے اپنابڑاحصہ ڈالا۔ ارض پاکستان سے تعلق رکھنے والے سلیم ناز بریلوی مرحوم نے جہادی ترانے اورآزادی کے نغمے اردو میں لکھے اور پھراسی زبان میں انہیں گاکرنوجوانان کشمیرکے جذبوں کو مہمیزدی۔ ’’ہم کیا چاہتے آزادی، آزادی کامطلب کیا لاالٰہ الا اللہ ،پاکستان سے رشتہ کیالاالٰہ الا اللہ ،ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہماراہے ‘‘تحریک آزادی کشمیرکے یہ سب نعرے جن سے بھارت کے بام ودرہل گئے اردومیں ہیں ۔اس پس منظرمیںاگر یہ کہاجائے کہ ہماری تحریک آزادی کے خدوخال ،فکراورنظریہ اسی زبان کے رہین منت ہیں توہرگزبے جانہ ہوگا۔ یہ سب دہلی اورمقبوضہ کشمیرکی کٹھ پتلی سرکار کی طرف سے اردو کے ساتھ غیر پسندیدہ زبان کے سلوک کی وجہ سے ہی ہورہا ہے ۔اردو کی سرکاری زبان کی حیثیت ایک منصوبہ بند سوچ کے تحت ختم کی جارہی ہے تو اس کی معقول وجہ یہ نظر آرہی ہے کہ اسے کشمیر کی تحریک آزادی کے فروغ کا اصل باعث سمجھا جارہا ہے۔سرکاری حلقوں میں پہلے ہی یہ رائے موجود تھی کہ آزادی کشمیرکے لئے جوتحریک برپاہے اس کا لٹریچر اردوزبان میں موجود ہے ۔ اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ عوام کے اجتماعی ضمیرتک رسائی کی یہی ایک زبان ہے ۔عوام پر اثر انداز ہونے اور عوام کی سوچ تبدیل کرنے کی یہی زبان ہے پھر یہ کتنی بھیانک غلطی ہے کہ عوام کو اس سوچ سے الگ کرنے کی کوشش میں اسی سوچ کے حوالے کیا جارہا ہے ۔ رام راج کے پالیسی سازیہ سمجھتے ہیںکہ اردو کے مصنفین نے کشمیری نوجوانوں کو بھارت سے آزادی حاصل کرنے کی تحریک چلانے پرابھارا ،انکی سوچ کے مطابق اردو ناول نگاروں اورشاعر مشرق کی انقلابی شاعری نے نوجوانان کشمیرکے جذبات اس قدر ابھارے کہ وہ اپناسب تج کرراہ جہادپرنکل پڑے۔ بھارت کے انٹیلی جنس ادارے اس نتیجے پرپہنچے کہ نسیم حجازی کے ناول کشمیری نوجوانوں میںمجاہدانہ رحجان پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرچکے ہیں ۔ جبکہ علامہ اقبال جیسے عظیم شاعرکی انقلابی شاعری نے ان میں آزادی کی تڑپ پیداکرکے انکی کایاپلٹ کررکھ دی۔اسی کداوربیرکی وجہ سے گذشتہ کئی عشروں سے کشمیرمیں اردوزبان کٹھ پتلی سرکارکے مرتب کردہ سکولی نصاب اور دفاترمیںمعدوم ہوتی چلی گئی ہے ۔آج کی صورتحال یہ ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کی کٹھ پتلی حکومت نے اردو کی سرکاری زبان کی حیثیت ختم کردی اور اس کی جگہ انگریزی کو سرکاری زبان کی حیثیت دے دی ۔اس سازش کے تحت کشمیر میں اردو لٹریچر کو دفن کر دیا گیا جبکہ اردو دانشوروں کے علم کے خزانے ان ہی کے سینوں میں دفن ہوکر رہ گئے ۔ ان کے لئے اظہار کا کوئی موثروسیلہ اور اکتسابی ذریعہ باقی نہیں رہا ۔فکرفراہم کرنے والے مضمون نگاروںکی ذلت آمیز حد تک حوصلہ شکنی کی گئی اور اردوکے بیشتر اخبارات میں ایسے مضامین شائع نہ ہونے دینے کی بھرپور کوششیں منصوبہ بندی کی جارہی ہے ۔ ریاست جموںوکشمیرمیں پانچ ،چھ اخبارات کوچھوڑکے چونکہ تمام کے تمام اخبارات اردو میں ہی شائع ہوتے ہیں ۔ عوام الناس تک تحریکی پیغامات،افکاروخیالات کوپہنچانے میں اخبارات ہی واحد ذریعہ تھا اس پس منظرکے ساتھ دیکھاجائے توہماری آزادی کی تحریک میں اردو زبان کا ایک زبردست کردار رہا ہے۔رام راج کے پالیسی سازوں کی ترچھی نظر اس معاملے پربھی ضرورتھی اورانہیںاس حوالے سے بھی کشمیرمیں اردوزبان برداشت نہیں ہورہی تھی ۔ اس تحریر کا میرا مقصد یہ ہے کہ اس سے بھارت کے شرمناک منصوبے طشت ازبام ہونگے اورکشمیرکے نوجوان طبقے کودین اوردینی بنیاد پراستوارکشمیرکی تحریک آزادی برائے اسلام کے ساتھ اپنارشتہ وتعلق لگاتار جوڑے رکھنے میں یہ مضمون ممدومددگارثابت ہوگا۔اردوسے ہماری نسل نوکی بیگانگی،سرد مہری ، اجنبیت دورکرنے کے لئے اردوکے موضوع پر یہ مضمون علاج بالتحریرکا کام کرے گا۔جبکہ اس زبان کے تئیں برتنے والے ہندو فرقہ پرستانہ تعصب کااندازہ بھی ہوسکے گا۔