ایک دیہاتی دکاندار شہر سے سودا سلف لانے کے لیے روزانہ شہر جایا کرتا تھا۔ایک دن راستے میں اسے ایک شخص ملا ، دعا سلام کے بعد اس نے پوچھا کہ اس نے گدھے پرکیا لادا ہوا ہے۔ دکاندار نے جواب دیا کہ خرزین کے ایک تھیلے میں سودا سلف ہے جبکہ دوسرے میں مٹی کے ڈھیلے ہیں۔ مٹی کے ڈھیلوں کا کیا کروگے کہ انہیں اپنے ساتھ لیے پھرتے ہو ؟ ایک تو یہ کسی کام کے نہیں اور دوسرے گدھے پر بوجھ بھی علیٰحدہ ہے ۔ اجنبی نے اسے مشورہ دیا کہ اگر وہ اپنا سامان ایک تھیلے میں رکھے اور آدھا دوسرے میں تو وہ گدھے کے وزن کو کم کرسکتا ہے۔ تمہا را سامان زیادہ وزنی نہیں ہے گدھا بھی طاقتور ہے اگر تم چاہو تو اس پر سوار بھی ہوسکتے ہو۔ دکاندار کو یہ مشورہ تو اور ہی اچھا لگا اور وہ گدھے پر سوار ہوگیا، اجنبی کا شکریہ ادا کیا ۱ور چل دیا۔ کچھ ہی دور گیا ہوگا کہ واپس آگیا۔ کہنے لگا کہ تم اتنے سیانے بندے ہو لیکن اس کے باجود پیدل سفرکر رہے ہو، اسکی کیا وجہ ہے؟ اجنبی اس سوال پر سٹپٹا سا گیا۔ بہر حال اس نے اسے بتا یا کہ وہ اسکے پیدل چلنے پر پریشان ہونے کی بجائے اپنے فائدے کے بارے میں سوچے۔ لیکن اس وقت اسکی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب دکاندار غصے سے نیچے اترا ،سامان گدھے پر سے اتار کر پھینک دیا ، سودا سلف واپس ایک تھیلے میں اور مٹی کے ڈھیلے دوسرے پلڑے میں ڈالے، گدھے کی لگام پکڑی اور دوبارہ پیدل اپنے راستہ پر چل دیا کہ اگر تمہاری دانائی نے تمہیں کوئی فائدہ نہیں دیا تو میں پیدل ہی بھلا۔ مجھے یہ مثال اس خبر پر یاد آئی کہ حماد اظہر سے وزارت خزانہ کا قلمدان لے لیا گیا ہے۔ انہوں وزیر خزانہ بننے کے بعد سب سے پہلا مشورہ یہ دیا تھا کہ ہمسایہ ملک بھارت سے چینی اور کپا س منگوانی چاہیے کہ یہ دیگر ممالک سے سستی پڑتی تھیں۔ ملک کے مالی معاملات اور مہنگائی کے تناظر میں بات نہایت معقول تھی۔ وزارت تجارت ، جسکا قلمدان وزیر اعظم کے پاس تھا ، وہاں سے آشیر باد مل گئی اور کابینہ سے منظوری کے لیے تجویز بھیج دی گئی تو اس کے رد ہونے کا امکان نہیں تھا۔ تجزیہ نگار جو حماد اظہر کے اعلان کوسیاق وسباق میں سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے وہ قائل ہوگئے تھے کسی بڑی طاقت کے اشارے پر خطے میں کوئی بڑی تبدیلی آنے والی تھی۔ خیال واشنگٹن کی طرف بھی گیا اور بیجنگ کی طر ف بھی ، بھارت کی خاموشی معاملے کو مزید پر اسرار بنارہی تھی۔ بھارت سے تجارت کی بندش پاکستان کا یکطرفہ فیصلہ تھا جومودی سرکار کی کشمیر کی خود مختار حیثیت کو ختم کرنے کے فوری بعد لیا گیا تھا۔ نہ بھارت اپنے موقف سے پیچھے ہٹا اور نہ ہی تجارت بحال ہو پائی۔ الٹا اس نے کنٹرول لائن پر دباو بڑھا دیا۔ اب اگر وزیر خزانہ نے تجارت کی بحالی کا اعلان کیاتھا تو سنسنی پھیلنی ہی تھی کیونکہ چند دن پہلے ہی کنٹرول لائن پر ایک دم سمجھوتا سامنے آیا تھا جس پر رات بارہ بجے سے عمل شروع ہوگیا تھا اور وہاں عرصے سے چیختی چنگھاڑتی توپیں خاموش ہوگئی تھیں۔ یوں یہ یقین پختہ ہوچلا تھا کہ اگر سرحدی امن بحال ہوسکتا ہے تو تجارت بھی دوبارہ رواں ہوسکتی ہے۔ جہاں تک تنازعات کا تعلق ہے ہمسائیوں کے درمیان تنازعات ہمیشہ نہیں رہتے ، یورپی ممالک نے کتنی جنگیں لڑیں لیکن آج وہ شیر وشکر ہیں۔ چین بھارت کے ایک صوبے پر اپنے دعوے کے باوجود اس سے تجارت کر رہا ہے۔ پاکستان اور بھارت بھی ایک نہ دن صلح کرلیں گے۔ وبا نے پوری دنیا کو تہہ بالا کردیا ہے ، اگر ہمارے ہاں بھی تبدیلی کی شروعات تجارت سے ہوتی ہے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ تاہم اس تجویز کے سامنے آتے ہی نہایت دھیمے سروں میں اسکی مخالفت شروع ہوگئی اور اسے کشمیر کا سودا کرنے کے مترادف ٹھہرا یا جانے لگا۔ کابینہ میں حماد اظہر کی تجویز رد ہوگئی۔ لیکن حماد اظہر سے وزارت خزانہ واپس لیے جانے کا تعلق ان کی عجلت میں دی گئی اس تجویز سے نہیں ہے۔ ان کے پیشرو حفیظ شیخ کی رخصتی کے بعد سے ہی شوکت ترین کی انکی جگہ لینے کی بات ہورہی تھی اور یہ واضح طور پر سمجھا جارہا تھا کہ حماد اظہر کی تعیناتی عارضی تھی۔ لیکن انکی بھارت سے تجارت بحال کرنے والی بات کے پیچھے کونسے عوامل کارفرما تھے، کابینہ میں ردو بدل سے کچھ ہی دن پہلے یہ معاملہ بھی کھل کر سامنے آگیا جب ایک سینئر اماراتی سفارتکار نے دعوی کیا کہ پاک بھات تعلقات کو معمول پر لانے میں ان کا ملک سرگرم عمل تھا اور یہ کہ اسے نئی امریکی انتظامیہ کی اشیر باد بھی حاصل تھی۔ یوںیہ بھی واضح ہوگیا ہے کنٹرول لائن پر کشیدگی کم کرانے میں چین کا نہیں بلکہ امریکہ کا ہاتھ تھا۔اماراتیوں نے بھارت کو بھی قائل کرلیا تھا کہ پاکستان سے تعلقات پلوامہ کے واقعے سے پہلے کی سطح پر لانے میں انکا بھلا ہی تھا کہ چین سے کشیدگی کم ہونے کے بعد اسے دوسرا بڑا ریلیف مل رہا تھا اورتجارت بھی بحال ہونے جارہی تھی ۔ ہم نے اپنی سوچ کیوں بدلی اور تجارت کے معاملے پر پیچھے کیوں ہٹ گئے؟ ہمارے رویے پر متحدہ عرب امارات اور امریکہ حیران ہوں تو علیٰحدہ بات ہے لیکن ہمیں یہی سمجھ آیا کہ جو عرب دوست ایران سے ہاتھ ملانے کی بجائے اسرائیل سے بغلگیر ہوگئے تھے اور اس چکرمیں فلسطین کا سودا کر بیٹھے تھے، کہیں ہم انکے کہنے میں آکر کشمیر نہ گنوا بیٹھیں۔ عربوں کے ہاں نہ مذہبی سیاسی جماعتیں ہیں اور نہ ہی جمہوریت ، ان کے کہنے میں آگئے تو کہیں لینے کے دینے نہ پڑجائیں۔ نہ بھئی نہ، اپنا مشورہ اپنے پاس رکھیں ایسی تجارت سے تو مہنگائی بھلی!