لائن آف کنٹرول انسانی المیے کا عنوان ہے اور موٹر وے جنگلی جانوروں کے دکھوں کا عنوان۔کیسا لمحہ ہجرت تھا ، ایک سڑک بنی اور صدیوں سے پہاڑوں میں سفر کرتے جانور بٹ کر رہ گئے۔ جو اِدھر رہ گئے وہ اُدھر نہ جا سکے اور اُدھر والے پھر اس پار نہ آسکے۔ سڑک کے کناروں پر خاردار تاریں لگا دی گئیں بے زبان مخلوق پر ایک قیامت بیت گئی۔ مارگلہ سے گزرتی سڑک کا دکھ تو گاہے بے چین کر دیتا تھا لیکن کبھی خیال تک نہ آیا کہ موٹر وے نے پوٹھوہار کے جانوروں پر کیا ظلم ڈھائے ہیں۔برادرم اشرف شریف کی تحریر نے جھنجھوڑا تو افتخار عارف یاد آگئے: تمام خانہ بدوشوں میں مشترک ہے یہ بات سب اپنے اپنے گھروں کو پلٹ کے دیکھتے ہیں کتنے سال بے اعتنائی سے لپٹی لا علمی میں بیت گئے۔ شہر کے ہنگامے سے گاڑی موٹر وے پر آتی اور من کا برہما شانت ہو جاتا۔دریائے سواںکے کنارے اتری صبح اور سواں کے پانیوں پر اترتی شام کے نظارے دیکھنے کے لیے ذرا سا اہتمام کرنا پڑتا ہے مگر اوقات کی تقسیم کار سے اگر عین ان لمحات میں آپ موٹر وے پر ان مقامات پر پہنچ کر رک جائیں تو لگتا ہے کائنات تھم گئی ہے۔پوٹھوہار حسن فطرت کا نمونہ ہے۔ موٹر وے پربھیرہ سے آگے دریا عبور کریں تو ایک نئی دنیا آپ کے سامنے آن کھڑی ہوتی ہے۔ یہ طلسم کدہ پھر اسلام آباد تک ڈرائیونگ کو ایک پر کیف تجربہ بنا دیتا ہے۔ سالٹ رینج سے ذرا آگے سے شروع ہو کر مارگلہ کے پہاڑوں تک کا علاقہ پوٹھوہار کہلاتا ہے۔مارگلہ کوہ مری کا سلسلہ ہے اور ہمالیہ کی دہلیز کہا جاتا ہے لیکن قدیم دستاویزات پر انحصار کریں تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ اسلام آباد بھی پوٹھوہار ہی میں واقع ہے۔کلر کہار سے سکیسر تک جو پہاڑی سلسلہ پھیلا ہے وہ بھی بعض روایات میں پوٹھوہار ہی میں آتا ہے۔وادی سون کے پہاڑوں میں ایک صبح جب سورج کی کرنوں سے پہلے کی مدھم روشنی وادی میں پھیلی تو حیران کن منظر سامنے تھا۔ اڑیالوں کا ایک پورا غول ہمارے سامنے سے گزر رہا تھا۔ رات کے دوسرے پہر سے ان پہاڑوں میں ہم پیدل چل رہے تھے اور تھکاوٹ سے برا حال تھا لیکن اس منظر نے جسم اور روح کو تازہ کر دیا۔ اس مقام کا نام مہاڑ تھا ۔یہاں چرواہوں نے مصنوعی جھیل سی بنا رکھی تھی ۔ساتھ ہی آرام کے لیے ایک کھولا سا تھا۔ہم اسی کھولے کے باہر بیٹھے تھے اور اڑیالوں کا یہ غول جھیل سے پانی پینے وارد ہوا تھا۔ ایک چرواہے نے بتایا کہ اڑیال یہاں سے سفر کرتے تھے تو چکوال سے آگے جہلم کی طرف نکل جاتے تھے۔ان کے پاس ایک وسیع و عریض علاقہ تھا۔ یہ پوٹھوہار کے پورے علاقے میں گھومتے پھرتے تھے۔چرواہے کی باتیں سن کر بھی یہ خیال نہ آیا کہ موٹر وے نے ان بے زبان ہجرتیوں کے ساتھ کیا سلوک کیا۔اب اشرف شریف صاحب نے یاد دلایا تو سارے دکھ جاگ اٹھے۔موٹر وے پر اب جب بھی سفر ہو گا یہ دکھ ساتھ ساتھ چلے گا کہ ہم جانوروں کی لائن آف کنٹرول پر چل رہے ہیں۔ سولہ سال ہو گئے جب میں پہلی بار لائن آف کنٹرول پر گیا تھا۔ ہنستی بستی آبادیوں کے بیچ ایک خونی لکیر۔دل لہو گیا۔ چند قدموں کے فاصلے پر لوگوں کے پیارے آباد ہیں لیکن ایک دوسرے سے مل نہیں سکتے۔اٹھمقام سے ذرا آگے ایک ڈھابے پرچند بزرگوں نے ایسی ایسی کہانیاں سنائیں کہ درد کی ایک لہر وجود میں اتر گئی۔انہوںنے بتایا کہ کیسے کیسے خاندان بچھڑے پڑے ہیں۔کوئی خاندان ادھر رہ گیا اور ان کا باپ راولپنڈی آیا ہوا تھا پھر واپسی نہ ہو سکی۔ کسی کی ماں ادھر گئی ہوئی تھی پھر کبھی لوٹ نہ سکی۔کسی کے سگے چند قدموں کے فاصلے پر وہ سامنے گھر میں رہتے ہیں ، ایک دوسرے کو کبھی کبھی دیکھ کر ہاتھ بھی ہلاتے ہیں مگر مل نہیں پاتے کہ بیچ میں خونی لکیر حائل ہے۔تو کیا جانور بھی پورے چاند کی راتوں میں ٹیلوں پر کھڑے ہو کر موٹر وے کے اس پار اپنے پہاڑوں کو دیکھ کر آہیں بھرتے ہوں گے؟ ایک سہہ پہر پوٹھوہار میں کلر کہار سے آگے میری گاڑی خراب ہو گئی۔ تین چار گھنٹے رکنا پڑا تب جا کر ریسکیو سروس آئی۔ دن ڈھلا اور سورج وہیں بیٹھے بیٹھے غروب ہوا۔ شام کے اندھیرے میں، ایک گیدڑ ٹیلے سے دیکھتا اور آوازیں نکالتا رہا۔اس منظر نے وقت گزرنے کا احساس نہ ہونے دیا۔ آج مگر اس احساس میں دکھ بھی شامل ہو گیا ہے۔ کیا عجب اس کے کچھ پیارے موٹر وے کی دوسری جانب رہتے ہوں اور وہ چیخ چیخ کر احتجاج کرتا رہا ہو کہ اے بنی آدم میرے جنگل میں یہ تم نے کیا ظلم کر دیا کہ میں اپنے ہی جنگل میں بے گھر ہو گیا۔تمہاری ایک سڑک کے لیے ہمارا گھر کا گھر اب نقل مکانی میں ہے۔ اس موٹر وے نے پورا پوٹھوہار چیر کر دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔جنگل کے جانور دو خانوں میں بٹ گئے ہیں۔برسوں پہلے ہم سنا کرتے تھے جانور کھبیکی ، اچھالی اور کلر کہار کی جھیلوں پر پانی پینے آتے تھے۔ اب یہاں ایسا اودھم مچا ہے جانور کے لیے اس طرف کا رخ کرنا ممکن ہی نہیں۔ کلر کہار کی جھیل تو اب ویسے ہی کلر کہار کے سیوریج سے متعفن ہو چکی۔باقی جھیلوں کا بھی برا حال ہے۔آمدو رفت محدود ہو چکی اور آبی ذخائر پر انسان کا پہرہ ہے۔ جانور کہاں جائیں؟ اتنا حسین ملک ہے ، ہماری کوڑھ مغزی نے اس کا حسن گہنا دیا۔ذوق لطیف سے ایسی محرومی ہے کہ آدمی صدمے سے دوچار ہو جاتا ہے۔سالٹ رینج سے ٹھلیاں انٹرچینج تک ، کئی مقامات ایسے ہیں جہاں جنگلوں ، نالوں اور پہاڑوں میں جانوروں کے لیے کراسنگ پوائنٹس بنائے جا سکتے تھے جہاں سے جانوروں کے سوا کوئی نہ گزر سکتا۔ جانوروں کے تحفظ کے لیے ان پوائنٹس پر وائلڈ لائف کی چوکیاں قائم کی جا سکتی تھیںاور کیمرے نصب کیے جا سکتے تھے اور یہ کام اب بھی ہو سکتا ہے ،لیکن ہمارے دماغوں میں صرف کنکریٹ بھرا ہے۔ جنگلی حیاتیات کے بارے میں اب کون سوچے؟