خودبھارتی شہریوںکی طرف سے یہ سوالات اٹھائے گئے کہ آیا یہ سچ میں کوئی ہسپتال کا وارڈ ہے یا مذاق۔نہ ادویات رکھنے کی ٹیبل ہے، نہ ڈاکٹر، نہ مرہم، نہ کوئی مریض بیڈ پرپڑاہے، نہ کسی کو ڈرپ لگی ہے، نہ آکسیجن سیلنڈر ہے، نہ ہی وینٹیلیٹر۔مریضوں کا آئی ڈی بینڈ نہیں ہیں، پلس آکسی میٹر نہیں ہیں۔ ای سی جی کے تار نہیں ہیں۔ مانیٹر نہیں ہیں۔ آئی وی کینولا نہیں ہے۔ ایمرجنسی کریش کارٹ نہیں ہے۔ اور بھی بہت کچھ۔ نہ ہی کوئی ڈاکٹر مریض کی کیفیت بتا رہا ہے۔ اگریہ ڈرامہ رچاناہی تھاتومودی کی تصاویر بنانے سے قبل کسی ڈاکٹر کی خدمات ہی حاصل کر لیتے۔ لوگوں نے اس امر کی نشاندہی کی کہ تصاویر کے لیے ہسپتال کا نقلی سیٹ اپ تیار کروایا گیا ہے اور کچھ کرائے کے اداکاروں کو وہاں بٹھا دیا گیا۔ ایک دن سچ سامنے آئے گا۔بھارتی شہریوں نے مودی کے ہسپتال ڈرامے پراس قدر شدیدتنقیدکی کہ بھارتی فوج کو وضاحتی بیان جاری کرنا پڑا جس میں کہا گیا کہ 4جولائی کو وزیر اعظم مودی نے جس ہسپتال کا دورہ کیا اس سے متعلق بہت سی باتیں کی جارہی ہیںجوافسوس ناک ہے ۔بیان میں کہاگیاکہ اس طرز عمل سے ہمارے بہادر فوجیوں کوصدمہ پہنچا۔قابض بھارتی فوج کے اس بیان میں کہاگیا کہ وزیر اعظم نے جس جگہ کا دورہ کیا وہ جنرل ہسپتال کمپلیکس کا کرائسس ایکسپینشن ہے اور اس میں 100 بستر ہیں۔بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ کووڈ 19 پروٹوکول کی وجہ سے ہسپتال کے کچھ وارڈز کو الگ تھلگ وارڈز میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ لہذا یہ ہال جو عام طور پر آڈیو ویڈیو ٹریننگ ہال کے طور پر استعمال ہوتا تھا اسے ایک وارڈ میں تبدیل کر دیا گیا۔گلوان سے آنے کے بعد سے ہی زخمی فوجیوں کو یہاں قرنطینہ میں رکھا گیا تھا۔لیکن سوشل میڈیاپرخودبھارتیوں نے لکھاکہ بھارتی فوج اپنی خفت مٹانے کے اس طرح کے بیانات دے رہی ہے ۔ لہہ کے فوجی بیس میںمودی اپنی گیدڑ فوج سے مخاطب ہوئے کہہ رہاتھا کہ ’’ساتھیو تم نے جس طرح دوسرے لوگوں کو سبق سکھایااس پر پورے بھارت کو فخر ہے‘‘۔ مودی اپنی شکست خوردہ فوج کی ایسے تعریفیں کر رہا تھا کہ جیسے جھڑپ میں جو بیس ہلاک ہوئے اور سات درجن زخمی وہ بھارت کے نہیں چین کے فوجی تھے ۔مودی چین سے اس قدر خوفزدہ اور ڈرا ہواہے کہ لداخ میں شکست خوردہ فوجیوںکوبھاشن دیتے ہوئے ایک مرتبہ بھی چین کا نام نہیں لیاحالانکہ۔ مضحکہ خیزبات ہے کہ مودی اپنی شکست خوردہ فوج کواپنے بھاشن میں کہہ رہاتھاکہ دشمن نے آپ کی فائیر'’’آگ ‘‘بھی دیکھی ہے اور آپ کی فیوری’’غصہ ‘‘بھی۔ چین کا نام لیے بغیر مودی کاکہناتھا کہ توسیع پسندی کا دور ختم ہو چکا ہے اوریہ معاشی ترقی کی دوڑ کادورہے۔یاد رہے کہ گلوان وادی اوردیگرچھ مقامات پرچینی قبضے کے باعث دونوں ملکوں کی طرف سے اس علاقے میں بہت بڑی تعداد میں فوجی اور ٹینکوں سمیت بھاری ہتھیار پہنچا دیے گئے ہیں۔بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق بھارت نے لداخ میں دس بریگیڈ یعنی 45ہزار فوجی اہلکار تعینات کر دیے ہیں۔مودی کے اپنی شکست خوردہ فوج کو بھاشن دینے سے پہلے کانگریس پارٹی کے رلیڈرراہول گاندھی نے تین منٹ کا ایک ویڈیو جاری کرتے ہوئے کہا کہ ’’کوئی تو جھوٹ بول رہا ہے‘‘اس ویڈیو کلپ میں لداخ کے لوگ لداخ کے کئی علاقوں پر چین کے قبضے کے بعدکے حالات بیان کر رہے تھے۔ گذشتہ دنوں بھارتی میڈیا میں سیٹلائیٹ تصاویر کے ذریعے یہ بتایا گیا تھا کہ چین نے لداخ کے جن علاقوںپر قبضہ کیاہواہے اس کاقبضہ بدستوربرقرارہے اور بھارت کی منت سماجت کی تمام کوششوں کے باوجود بھی چینی افواج پیچھے نہیں ہٹیں اورہرنئے دن کے ساتھ بھارت کے لئے لداخ میں صورتحال بہت نازک بنتی جارہی ہے اوراگلے دنوںمیں بھارت کے لئے حالات مزید خراب ہونے جارہے ہیں۔مقبوضہ جموںو کشمیر کے لداخ خطے میںچین کے سخت رویے کے پیش نظربھارتی ڈیفنس ایکوزیشن کونسل کی وزیر دفاع کی سربراہی میں جمعرات3جولائی2020 کو ایک میٹنگ ہوئی جس میں 38900 کروڑ روپے کی دفاعی خریداری کی منظوری دی گئی۔ اس ملاقات میں 21مگ۔29ہوائی جہاز خریدنے کے ساتھ 59 مگ۔29 جہازوں کو اپگریڈ کرنے کی منظوری دی گئی۔اس کے علاوہ بارہ سوخوئی ایس یو۔30 ایم کے آئی ائیر کرافٹ کی خریداری کی بھی منظوری دی گئی۔ مگ۔29 کی خریداری پر 7418 کروڑ روپے کی لاگت آئے گی، جو روس سے خریدا جا رہا ہے۔ سوخوئی ایس یو۔30 ایم کے آئی ہندوستان ایروناٹکس سے خریدا جائے گا جس پر 10730کروڑ روپے کی لاگت آئے گی۔اس سے بھی صاف ہو جاتا ہے کہ انڈیا ہر محاذ پر پوری تیاری کر رہا ہے۔ وہ ساتھ میں یہ بھی کہتی ہیں کہ انڈیا ایک دن میں یہ سب حاصل تو نہیں کر لے گا لیکن ملک اس سمت میں بڑھ رہا ہے۔اس دورے سے عوام میں یہ پیغام جائے گا کہ وزیر اعظم خود پوری تیاری کی نگرانی کر رہے ہیں، سب کچھ صرف وزیر دفاع پر نہیں چھوڑا ہے۔ وہ یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ انڈیا کے پہلے کے رویے اور اب کے رویے میں بہت فرق ہے۔ (ختم شد)