چند روز سے جنوری کی دوپہریں،گلابی دھوپ کی حدّت سے آسودہ ہونے لگی تھیں۔ سردیوں میں دھوپ نکل آئے تو اس کا سواگت خاص مہمان کی طرح کیا جاتا ہے اور کمروں کی یخ بستگی سے نکل کر باہر دھوپ میں بیٹھنا اور ساتھ اخبارات کا مطالعہ کرنا، کینو کھانا ایک مکمل تھراپی جیسا عمل ہے۔ دھوپ میں موجود ہیلنگ پاور، تھکے ہوئے جسم ہی کو نہیں بلکہ سوچوں کو بھی ایک نئی توانائی دیتی ہے۔ اب دو روز سے گلابی دھوپ پھر سے روٹھی ہوئی ہے، دوپہریں تو ہوتی ہی نہیں۔ بس ایک یخ بستہ دِن چڑھتا ہے اور شام ڈھلے اتر جاتا ہے۔ آج پھر جنوری کا ایک بھیگا ہوا دِن ہے۔ اس بار پورے ملک میں معمول سے زیادہ سردی پڑی۔ لاہور میں دسمبر انتہائی سرد رہا اور ہم نے اس دسمبر کی چھٹیوں میں ٹیکسلا جانے کا قصد کر لیا۔ خیال تھا کہ لاہور میں بھی تو غیر معمولی سردی ہے تو وہاں ہی اسی قسم کی سردی ہو گی لیکن وہاں پہنچنے پر معلوم ہوا کہ ہر جگہ کی سردی کا اپنا اپنا مزاج ہوتا ہے اور وہاں کے رہنے والے اس مزاج کے ساتھ نبھا کے عادی ہو چکے ہوتے ہیں۔ مجھے وادی ٹیکسلا کی سردی بہت تنک مزاج اور نوکیلی سی محسوس ہوئی۔ کمروں میں گیس کے ہیٹر لگے ہیں، آتش دان دہک رہے ہیں، گرم کپڑوں کی تہوں پر تہیں چڑھا رکھی ہیں مگر یہ نوکیلی مزاج سردی ہے کہ مسلسل جسم پر وار کرتی جاتی ہے۔ دوپہریں وہاں دھوپ سے آسوذدہ رہتیں مگر صبحیں اور شامیں پھر اسی نوکیلی سردی سے بھری ہوئی ہوتیں اور میں بار بار یہ سوچتی کہ کاش اس سرد موسم میں یہاں کا رُخ نہ کیا ہوتا۔ اب ہم کوئی مولانا ابوالکلام آزاد تو تھے نہیں کہ جو فرماتے ہیں کہ ’’میں ہمیشہ سے سرد موسم کا خواستگار رہا ہوں موسم کی خنکی میرے لیے زندگی کا اصل سرمایہ ہے۔ گرمی خواہ کتنی ہی معتدل ہو مجھے پریشان رکھتی ہے۔ معلوم نہیں بہشت کے موسم کا کیا حال ہو گا؟ وہاں نہروں کا ذکر بہت سننے میں آیا ہے۔ ڈرتا ہوں کہیں گرمی کا موسم ہی نہ رہتا ہو۔‘‘ مولانا ابوالکلام آزاد کا شاہکار کتاب غبار خاطر اتفاق سے اس سفر میں میرے ساتھ تھی۔ میں سفر کے لیے نکلوں تو کوئی نہ کوئی کتاب ضرور ساتھ رکھ لیتی ہوں۔ اس روز غبار خاطر سائیڈ ٹیبل سے اٹھا لی کہ اس کو کتنی ہی بار پڑھیں الگ ہی لطف آتا ہے۔ یہ کتاب نہیں بلکہ دلپذیر اظہاریے کا ایک رنگا رنگ نگار خانہ ہے۔ اس نگار خانے میں مولانا ابوالکلام آزاد نے موسم سرما کے حوالے سے کیا خوب صورت لکھا ہے۔ چائے کی طرح سردی کے موسم کے بھی سچے عاشق تھے۔ فرماتے ہیں سردی کا موسم ایک ایسا موسم ہے کہ جس میں جس قدر زیادتی ہو، موسم کا حسن اور زندگی کا عیش ہے۔ اس کی کمی نقص و فتور کا حکم رکھتی ہے۔ اسے اعتدال کہہ کر سراہا نہیں جا سکتا۔ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ’’آپ سن کر ہنسیں گے، بارہا ایسا ہوا کہ اس خیال سے کہ سردی کا زیادہ سے زیادہ احساس پیدا کروں جنوری کی راتوں میں آسمان کے نیچے بیٹھ کر صبح کی چائے پیتا رہا اور اپنے آپ کو اس دھوکے میں ڈالتا رہا کہ آج سردی خوب پڑ رہی ہے۔‘‘ قلعہ احمد نگر سے لکھے گئے ایک خط میں جس پر 7جنوری 1943ء کی تاریخ ہے۔ مولانا آزاد لکھتے ہیں۔ وہی صبح چار بجے کا جانفزا وقت ہے۔ سردی اپنے پورے عروج پر ہے۔ کمرہ کا دروازہ اور کھڑکی کھلی چھوڑ دی ہے۔ ہوا کے برفانی جھونکے دمبدم آ رہے ہیں۔ چائے دم دے کر ابھی ابھی ہے‘‘۔ اسی خط کا ایک اور ٹکڑا ملاحظہ ہو۔ ’’میں آپ کو بتلائوں میرے تخیل میں زندگی سب سے بہتر تصور کیا ہو سکتا ہے؟ جاڑے کا موسم اور جاڑا بھی قریب قریب درجہ انجماد کا۔ رات کا وقت ہو۔ آتشدان میں اونچے اونچے شعلے بھڑک رہے ہوں اور میں کمرے کی ساری مسندیں چھوڑ کر اس کے قریب بیٹھا ہوں اور پڑھنے لکھنے میں مشغول ہوں‘‘ سردی اور آتش دان کا رشتہ چولی دامن کا رشتہ ہے۔ میں سردی کے موسم کا نقشہ اپنے ذہن میں کھینچ ہی نہیں سکتا اگر آتشدان نہ سلگ رہا ہو اور آتش دان بھی وہی پرانی روش کا ہونا چاہیے جس میں لکڑیوں کے بڑے بڑے کندے جلائے جا سکیں۔ بجلی کے ہیٹر سے میری تسکین نہیں ہوتی۔ ہاں گیس کے آتش دان کی ترکیب اتنی بے معنی محسوس نہیں ہوتی کیونکہ پتھر کے ٹکڑے رکھ کر انگاروں کے ڈھیروں کی سی شکل بنا دیتے ہیں۔ مجھے شعلوں کا منظر چاہیے جب تک شعلے بھڑکتے نظر نہ آئیں دل کی پیاس بجھتی نہیں۔ لوگ گرمیوں میں پہاڑ پر جاتے ہیں کہ وہاں گرمیاں بسر کریں میں نے کئی بار جاڑوں میں پہاڑوں کی راہ لی کہ وہاں جانے کا اصلی موسم یہی ہے۔ زندگی کا ایک جاڑا جو موصل میں بسر ہوا تھا مجھے نہیں بھولتا۔ جس سال میں گیا تھا وہاں غیر معمولی برف پڑی تھی۔ برف باری کے بعد جب آسمان کھلتا اور آرمینیا کے پہاڑوں کی ہوائیں چلتیں تو کیا عرض کروں ٹھنڈک کا کیا عالم ہوتا ہے؟ مجھے یاد ہے کہ کبھی کبھی سردی کی شدت کا یہ عالم ہوتا کہ مٹکوں کا ڈھکنا ہٹاتے تو پانی کی جگہ سل دکھائی دیتی لیکن میں پھر بھی سردی کی بے اعتدالیوں کا گلہ مند نہ تھا۔ حسین شیخ کے گھر مہمان تھا اس کے بچے دن بھر برف کے گولوں سے کھیلتے رہتے۔ شیخ کی ماں کا لونڈیوں کو حکم تھا میرا آتش دان چوبیس گھنٹے روشن رکھیں۔ ایک لوہے کی کیتلی آتش دان کی محراب میں زنجیر سے لٹکی رہتی اور پانی ہر وقت جوش دکھاتا رہتا۔ جس وقت چاہو قہوہ بنا کر گرم گرم پی لو۔ چائے بنانے کا یہی طریقہ میں نے شمالی ایران کے گھروں میں آتش دان اتنے کشادہ ہوتے ہیں کہ کئی کئی دیگچیاں ان میں بیک وقت لٹک سکتی ہیں‘‘ کالم کی جگہ تمام ہور ہی ہے مگر مولانا آزاد کی موسم سرما سے عشق کی داستان ابھی باقی ہے۔ سردی کی پسندیدگی کے اظہاریے کا نقطہ عروج پر ہے کہ وہ لکھتے ہیں میں سردیوں میں اس ڈر سے گرم کپڑے نہیں پہنتا کہ اس سے سردی کا احساس کم ہو جائے گا اور تخیل کو جولانیوں کا موقع نہیں ملے گا۔ ابھی تک گرمیوں ہی کے لباس میں وقت نکال رہا ہوں۔ میرا اور سردی کا معاملہ تو نظیری کے اس شعر جیسا ہے کہ فارسی شعر کا ترجمہ: وہ مجھ سے جدا ہو رہا ہے اور میں رو رہا ہوں کیونکہ اب شراب کے دوچار پیالے اور بہار کے دو چار خوب صورت دن باقی رہ گئے ہیں‘‘ مولانا آزاد تو موسم سرما کے عاشق تھے اور ایسی باتیں کسی عاشق صادق ہی کو بھلی لگتی ہیں۔ جہاں تک ہماری بات ہے ہم تو یہی چاہتے ہیں کہ سردی ہو مگر کچھ اعتدال میں۔ دوپہریں دھوپ سے آسودہ رہیں۔ صبحیں اور شامیں سرد ہوں مگر ایسی یخ بستہ بھی نہیں کہ زندگی منجمد ہو کر رہ جائے۔