’’موسمِ خوش رنگ‘‘زندگی کی پیشانی پر لکھی تحریروں کی کتاب ہے اور ’’عجائب خانہ‘‘دُنیا کی دلچسپ ،علمی وفکری ،چشم دیدہ ونادیدہ حقیقتوں کی کتاب ہے۔یوں دونوں کتابیں’’زندگی‘‘کا پیش لفظ ہیں۔’’موسمِ خو ش رنگ ‘‘کے مصنف شاہد صدیقی ہیں جبکہ ’’عجائب خانہ‘‘کے لکھاری عرفان جاوید ہیں۔ہر دوشخصیات منفرد ادبی وعلمی تاثر رکھتی ہیں اور ملکی ادبی منظر نامے میں اپنے سنجیدہ کام کی بدولت نیک شہرت کی حامل ہیں۔’’موسمِ خوش رنگ‘‘ تاریخ کی تلاش کا سفر ہے۔یہ سفر بھنبھور سے ہوتا ہوا، ٹیکسلا، روہتاس، صادق گڑھ،بنگال، ڈھاکا، مانچسٹر، بہاول پور،کراچی اور دریائے سندھ تک محیط ہے۔منصور ملنگی کی آواز میں سسی پنوں کی کہانی جب کُوک کی صورت مصنف کے کانوں میں پڑی تو یہ بھنبھور کی اُور کھنچے چلے گئے۔ بھنبھور پہنچ کر یہ اپنے قارئین کو سسی کے گائوں کی سیر کرواتے ہیں اور کیا خوب کرواتے ہیںکہ قارئین کے دِل محبت سے بھرتے چلے جاتے ہیں۔ ابھی قارئین سسی کے گائوںکی گلیوں میں موجود ہوتے ہیں کہ مصنف کو ٹیکسلا کے کھنڈرات کی سرگوشیاں بلا لیتی ہیں اور یہ بُدھ بھکشوئوں کی طرح خود کو تنہائی اور اطمینان کی آغوش میں پناہ گزین کرلیتے ہیں۔ مگر یہاں پہنچ کر یہ ریحانہ کی پینتیس برس پہلے کی گفتگو کی بازگشت میں کھو جاتے ہیں اور پھر کھنڈرات کی سرگوشیاں تھم جاتی ہیں۔ قلعہ روہتاس کی سیر کے دوران قارئین شیر شاہ سوری کے کارناموں سے ازسرِنو واقفیت حاصل کرتے ہیں ۔ جیسے ہی روہتاس قلعہ کی پُرشکوہ تاریخ کا ماجرا مکمل ہوتا ہے ،مصنف کے خواب میں دودھیا محل آکر سوال کرتا ہے ’’ مجھے دیکھنے نہیں آئو گے؟‘‘ قارئین بہاول پور کے دودھیا محل کی سیر کرتے ہیں ،جس کی تاریخ مررہی ہے،مگر تاریخ کے مرنے کا کسی کو احساس نہیں ہورہا۔ تاریخ کی تلاش کا یہ سفر جاری رہتا ہے اور قارئین راولپنڈی کی قدیم تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں۔ راولپنڈی کی ہارلے سٹریٹ، مال روڈ، بدھابائی اور لال حویلی،آنند بخشی کا ذکر،بلراج ساہنی کا تذکرہ اور پرندوں والی سڑک، شیلندر،باقی صدیقی کے دِل کے نہاں خانوں سے نکلی آواز،داغِ دل ہم کو یاد آنے لگے ،کے بعد راولپنڈی ڈوبتا محسوس ہوتا ہے۔ یہاں قارئین آنند بخشی، بلراج ساہنی اور شیلندر جن کا خمیر اسی شہر سے اُٹھا تھا، جیسے نادر روزگار شخصیات کے فنی سفر سے آگاہ ہوتے ہیں اور راولپنڈی کی گلیوں پر نازاں ہو اُٹھتے ہیں۔ یہاں مصنف اپنے قارئین کی اُنگلی پکڑ کر سہام گائوں کے محمد افضل کے گھر لے جاتا ہے۔ محمد افضل کو اُن کے اشعار باقی صدیقی کا رُو پ دیتے ہیں ۔ تم زمانے کی راہ سے آئے؍ورنہ سیدھا تھا راستہ دِ ل کا۔ یہ کتاب علم و آگاہی کا خزانہ ہے۔تاریخ کا سفر ہے ،شخصیات کا تذکرہ ہے ،راولپنڈی کی جیتی جاگتی گلیاں ہیں ،گلیوں میں زندگی کی سرگوشیاں ہیں ،اُن سرگوشیوں میں محبت کی کہانیا ں ہیں،ادبی میلوں کی رونقیں ہیں ،فلم و آرٹ سے وابستگان کے شب وروز روشنیوں میں نہائے ہوئے ہیں، اکیسویں صدی کے چیلنجز اور نظریات ہیںاور یادوں کے جھروکے ہیں۔ یادوں کے جھروکوں میں میٹھا میٹھا درد ہے ،جو سینے کے بیچوں بیچ کہیں سے اُٹھتا ہے۔ ’’عجائب خانہ‘‘ حیران کُن کتاب ہے۔اس کتاب کے مصنف نے اپنے افسانوں ،خاکوں اور ادبی تذکروں کی بدولت ہمیشہ حیران ہی کیا ہے۔میری خوش بختی ہے کہ زندگی کی جدوجہد کے دِنوں میں کتاب کے مصنف سے ایک آدھ ملاقات رہی ہے۔یہ کتاب زندگی کی گود سے اُن سیکھے ہوئے اسباق کی کہانی ہے ،جو حکایات،نکتہ خیز قصے اور علم و دانش کے نگینوں سے مزین ہیں۔’’عجائب خانہ‘‘ علم سے بھری ہوئی کتاب ہے۔ کتاب کے مندرجات مصنف کے وسعتِ مطالعہ و غورفکر کا آئینہ ہیں۔ اس کتاب کے مطالعہ سے مجھے احساس ہوا کہ جو کچھ اب پڑھ رہا ہوں ،اس سے قبل کبھی ایسی تحریروں سے آشنا نہیں رہا،یہی کتاب کی انفرادیت ہے کہ یہ یکسر نئے اور اچھوتے خیالات اور واقعات کا بیانیہ ہے ، موضوعات میں ندرت ہے اور ہر سطر نئے پن کی حامل ہے۔یہ وہ کتاب نہیں جس کو سرسری پڑھا جائے ۔ ہر سطر پر رُکنا پڑتا ہے ،ہر سطر جہان ومعنی کے کئی دروا کرتی ہے۔اس کتاب کی خواندگی سے یوں محسوس پڑتا ہے کہ کئی کتابیں بہ یک وقت سامنے کھلی پڑی ہیں ۔ یہ کتاب ہمیں بتاتی ہے کہ حقیقی زندگی ہماری عمومی سماجی زندگی کے تصورات سے یکسر مختلف ہوتی ہے،یہ حقیقی زندگی کا نسخہ بتاتی ہے، مثال کے طورپر ’’ کامیاب اور مطمئن زندگی کیلئے ایک سے زیادہ ذرائع آمدنی ہونے چاہئیں‘‘ یہ کتاب اپنے قارئین کو رئیس(محض دولت کی خوبی سے مالامال شخص)اور حکیم(دانائی کا حامل شخص) کے اندازِ زیست اور زیست سے متعلق نکتہ نظر میں فرق کو واضح کرکے ایک لکیر کھینچ دیتی ہے ،اب یہ افراد پر ہے کہ وہ لکیر کے کس طرف رہنا چاہتے ہیں؟ رئیس آنکھوں کی بیماری(بینائی)میں مبتلا ہو کر حکیم کے پاس پہنچتا ہے ،حکیم سبز رنگ پر توجہ مرکوز رکھنے کا نسخہ تجویز کرتا ہے۔رئیس سبز رنگ پر توجہ مرکوز رکھنے کے لیے اپنی وسیع حویلی کو سبز رنگ کی چادر اوڑھا دیتا ہے اور کپڑے بھی سبز رنگ کے پہن لیتا ہے ،حویلی کی ہر شئے بھی سبز رنگ میں ڈھل جاتی ہے ۔ایک روز حکیم رئیس کی طبیعت دریافت کرنے پہنچتا ہے تو حویلی کو سبز رنگ میں ڈوبے ہوئے پاتا ہے اور رئیس کو مسکر اکر کہتا ہے ’’اگر آپ اتنا سرمایہ خرچ کرکے اپنے گردوپیش کو سبز روغن میں رنگنے کے بجائے سبز چشمہ خرید کر پہن لیتے تو اس تردّد کی ضرورت نہ پڑتی۔‘‘ عرفان جاوید کی ’’عجائب خانہ‘‘کئی دِنوں سے میرے مطالعہ میں ہے ،ہر روز یہ سوچتا ہوں کہ مصنف نے اس کتاب کو لکھنے میں کتنا وقت لگایا ہو گا؟ کس قدر مطالعہ کیا ہوگا؟اور یہ موضوعات اس کو کیسے سوجھے ہوں گے؟اس کتاب کی تخلیق کا خیال عرفان جاوید کو ہی کیوں آیا؟پھرایک روز مجھے کتاب کے اندر سے یہ جملہ مل گیا’’بعض مفکرین کا کہنا ہے کہ آدمی خیال کو نہیں چنتابلکہ خیال اپنے اظہار کیلئے آدمی کو چنتا ہے‘‘خیال نے جب اپنے اظہار کیلئے آدمی کو چُنا تو عجائب خانہ تخلیق ہوا۔یہ کتاب جس نے نہیں پڑھی ،اُس نے شاید ابھی کچھ بھی نہیں پڑھا۔ شاہد صدیقی کی ’’موسمِ خوش رنگ‘‘اور عرفان جاوید کی ’’عجائب خانہ‘‘قارئین پر کتاب کا اعتماد ہیں۔