چالیس سال قبل لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل درویش صفت میجر جنرل (ر) محمد حسین انصاری نے سرکاری زمین پر قابض نرسری مالکان کو بے دخل کر کے اپر مال سے ٹھوکر نیاز بیگ تک نہر کنارے درخت لگانے کا آغاز کیا تو اس وقت کے گورنر لیفٹیننٹ جنرل غلام جیلانی خان نے انہیں بُلایا اور پوچھا کہ وہ نہر کے دونوں طرف کس قسم کے درخت لگا رہے ہیں‘ انصاری صاحب نے بتایا کہ انہوں نے جامن‘شیشم‘ نیم‘ پیپل اور اس نوعیت کے دیسی درخت لگانے کا فیصلہ کیا ہے‘ غلام جیلانی خان جو خود بھی سبزے کے شوقین تھے انصاری صاحب سے کہا کہ وہ تو آسٹریلیا سے سدابہار پودے منگوانے کا ارادہ رکھتے ہیں جو سارا سال چھائوں دیں اور ماحول کو سرسبز رکھیں‘ انصاری صاحب نے کہا کہ ایک تو یہ پودے ہمارے ماحول اور موسم سے ہم آہنگ نہیں ‘ دوسرے ایک غریب زرعی ملک کو پودوں کی درآمد پر قیمتی زرمبادلہ ضائع کرنے کی ضرورت کیا ہے؟ گورنر نے کہا جامن لگانے کا فائدہ؟انصاری صاحب نے کہا کہ نہر سے گزرنے والے غریب لوگ اس کی چھائوں میں بیٹھیں گے‘ جامن توڑ کر کھائیں گے اور ہمیں دعا دیں گے لیکن اس سے بھی زیادہ اہم وہ پرندے ہیں جنہیں پھلدار درختوں سے غذا ملتی ہے۔ مجھے یہ واقعہ شجرکاری مہم کے موقع پر عمران خان کے پیغام سے یاد آیا‘ پاکستان کسی زمانے میں وسیع جنگلات سے مالا مال تھا‘لاہور تو ویسے بھی باغوں کا شہر کہلاتا تھا جبکہ ملتان کے اردگرد آموں کا جھرمٹ تھا‘ چھوٹے شہروں اور قصبات میں بھی درختوں کی بہتات تھی‘ مجھے یاد ہے بچپن میں ہم گرمی کی چھٹیوں کے دوران دوپہر اپنے قصبہ شکار پور کے باہر واقع نہر کنارے شیشم کی چھائوں میں گزارتے یا حاجی نور محمد مرحوم کے باغ میں جو ہمارے سکول کے قریب واقع تھااور چھٹیوں کا ہوم ورک کرتے۔ قصبہ کے دونوں طرف جنگل واقع تھا جس میں تیتر کی دونوں اقسام باافراط دستیاب تھیں اور خرگوش اِدھر اُدھر دوڑتے پھرتے‘ اس زمانے میں شائد ہی کوئی نہر ایسی تھی جس کے دونوں کناروں پر شیشم‘کیکر ‘ نیم اور پیپل کے گھنے درخت سایہ کناں نہ ہوں اور بیلدار صبح شام نہر کی پٹڑی پر کام کرتے نظر نہ آئیں‘ آج مگر بڑے بڑے جنگلات کٹ چکے اور شیشم کا درخت ناپید نہیں تو مشکل سے دستیاب ہے۔ موٹر وے میاں نواز شریف کا کارنامہ ہے مگر سیاحتی مقامات کے عاشق میاں نواز شریف نے بھی اپنے اس شاہکار کے گرد سفیدے کے درخت لگوا کر بدذوقی کا ثبوت دیا‘ پانی کے دشمن سفیدے کو میں بے فیض درختوں میں شمار کرتا ہوں جس کا سایہ نہ پھل‘ تین چار سال بعد کاٹا نہ جائے تو ہوا کے ایک جھونکے سے گرنے کا اندیشہ اور لکڑی کی قیمت اس پانی سے کم جو درخت نے اس عرصہ میں چوسا‘ صرف سیم اور تھور کے علاقوں میں اس کی کاشت موزوں مگر موٹر وے کے اردگرد یہ درخت لگا کر وقت کے حاکموں نے دانائی کا ثبوت دیا‘ ہر سال شجر کاری مہم میں بھی بہت کم اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ کون سا درخت کس علاقے کے لئے موزوں اور قابل کاشت ہے‘ شیشم ‘ جامن‘ آم‘ شہتوت‘ نیم‘ پیپل‘ کیکر اور سینکڑوں دیگر مقامی درخت اس لحاظ سے فیض رساں ہیں کہ ہمارے موسم انہیں سازگار ہیں یہ گرمیوں میں سایہ اور سردیوں میں پتے جھاڑ کر دھوپ سے مستفید ہونے کا موقع فراہم کرتے ہیں‘ پرندوں کی غذائی ضرورت بھی انہی درختوںسے پوری ہوتی ہے۔ جب سے لاہور میں اجنبی درختوں کی افزائش شروع ہوئی طوطے‘ فاختائیں‘ جنگلی کبوتر‘ چڑیاں اور ممولے روٹھ گئے‘ اسلام آباد میں غیر ملکی درختوں کی افزائش کا نتیجہ بدترین پولن الرجی کی صورت میں نکلا‘ اب یہ درخت کاٹے جا رہے ہیں مگر نئے درخت لگانے کے بجائے اس شہر کو بھی اینٹ‘ پتھر‘ سریے کے ڈھیر اور تارکول سڑکوں میں بدل دیا گیا ہے۔ عمران خان نے ملک میں شجرکاری پر کافی توجہ دی ‘بلین ٹری منصوبہ شاندار تھا‘ ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے اور ملک کو موسمی تبدیلیوں سے جنم لینے والی تباہی سے بچانے کی واحد صورت یہی ہے مگر یہ حکم انہوں نے بھی جاری نہیں کیا کہ صرف پھلدار‘پائیدار‘مقامی اور ماحول دوست درخت لگائے جائیں اور درآمدی درختوں سے پرہیز کیا جائے‘ راوی پار ایک نیا شہر بسایا جا رہا جس کی ضرورت 1949ء میں ظفر الاحسن نامی ایک بیوروکریٹ نے محسوس کی‘ غالباً انہی ظفر الاحسن نے گلبرگ بسانے کے لئے لاہور امپرومنٹ ٹرسٹ کا ڈول ڈالا اور نئی آبادیاں بسائیں مگر پھر ہمارے حکمران اور بیورو کریٹ لمبی تان کر سو گئے‘ ستر سال میں ہم شہر کے گرد رنگ روڈ بنا سکے نہ راوی کو خوبصورت جھیل میں بدل کر پکنک سپاٹ اورنہ نئی طرز کا شہر بسانے میں کامیاب۔ میں نے میاں شہباز شریف کو تجویز پیش کی تھی کہ شہر میں سڑکوں کے کنارے آرائشی موسمی پودوں کے بجائے دیسی گلاب‘ رات کی رانی‘ مروا‘ چنبیلی اور دیگر خوشبودار پودے لگائے جائیں یہ جاذب نظر ہونے کے علاوہ ماحول کو مہکا دیں گے‘ میاں صاحب کو تجویز پسند آئی انہوں نے پی ایچ اے کے اعلیٰ افسر کو میرے پاس بھیجا ۔آدھ پون گھنٹہ تبادلہ خیال کے بعد موصوف نے فرمایا کہ مصروف سڑکوں پر آلودگی اس قدر ہے کہ یہ پودے چل نہیں پائیں گے اور پیسہ ضائع ہو گا‘ میں نے عرض کی کہ موسمی پودے تو زیادہ نازک ہوتے جب وہ دو تین ماہ چل جاتے ہیں تو یہ کیوں نشوو نما نہیں پائیں گے؟ مگر اس کا ان کے پاس کوئی جواب نہ تھا‘ موسمی پودوں سے سرکاری حکام سال میں دوبار جیبیں بھرتے ہیں پائیدار نوعیت کے خوشبو دار پودے ایک بار لگ گئے تو کئی سال تک چلیں گے اور مال پانی کمانا مشکل‘ لہٰذا پی ایچ اے اس پر کبھی توجہ نہیں دیتا‘ موجودہ حکمران ملک میں پھلدار مقامی درختوں اور پھول دار خوشبو دارمقامی پودوں کی افزائش سے پاکستان کے شہر و دیہات کو جاذب نظر ‘ معطر اور فرحت افزا بنا سکتے ہیں۔ ؎ موسم اچھا‘ پانی وافر‘ مٹی بھی زرخیز جس نے اپنا کھیت نہ سینچا وہ کیسا دہقان