مکرمی ۔کاربن ڈائی آکسائیڈ میتھین گیس، کاربن مونو آکسائیڈ، کلورو فلورو کاربن اور نائٹر وس آکسائیڈ وغیرہ یعنی کاربن گیسز کے اخراج سے عالمی لیول پر درجہ حرارت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ان کی موجودگی سے ماحولیاتی، فضائی آلودگی اور گلو بل وارمنگ میں بھی شدت آرہی ہے۔ اسی طرح موسمی تبدیلیاں بہت سے مسائل کا با عث بن رہی ہیں۔ پاکستان موسمی تبدیلیوں کا شکار ہو نے والا دنیا کا دسواں بڑا ملک ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق اوزون کی تہہ میں چھید پڑنا شروع ہو چکے ہیں اور اگر یہ عمل یونہی جاری رہا تو اوزون کمزور ہونے سے دنیا کا درجہ حرارت نا قابلِ برداشت حد تک بڑھ جائے گا اس سے بچاؤ کا بہترین ذریعہ جنگلات میں اضافہ ہے اس لئے گلوبل وارمنگ اور فضائی آلودگی سے نمٹنے کے لئے زیا دہ سے زیا دہ درخت لگائے جائیں کیونکہ درخت کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے اور آکسیجن چھوڑتے ہیں۔ ایوب ریسر چ کے زرعی ماہرین نے مختلف فصلات مثلا ً گندم، کپاس، گنا اور دھان وغیرہ کی ایسی اقسام وضع کرلی ہیں جو زیادہ درجہ حرارت اور خشک سالی میں بھی بھر پورپیدا وار دیتی ہیں اور موسمیاتی تبدیلیوں کا بہتر انداز میں مقابلہ کر سکتی ہیں اسی طرح بدلتے ہوئے موسمی حالات میں آبپاشی کے جدید طریقوں کو بھی فروغ دیا جا رہا ہے جن کے ذریعے پانی کی بچت اور کم پانی سے زیادہ پیداوار کا حصول ممکن ہو رہا ہے علاوہ ازیں زرعی پانی کے ضیاع کو روکنے کے لئے بھی اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ پودا ایک جاندار چیز ہے اور اسے زندہ رہنے کے لئے پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ پانی جڑوں کے ذریعے بہت سے معدنیاتی اجزاء پودے کو منتقل کرتا ہے جو کہ خوراک بنانے کے کام آتے ہیں۔ بدلتے موسموں کے تناظر میں اگر گند م کی کفائتی آبپاشی کی بات کی جائے تو نو مبر کا شتہ گندم کو 3 سے 4 آبپاشی کرنے سے اچھی پیداوار لی جا سکتی ہے اس سے زیادہ آبپاشی کرنے سے فصل کی پیداواری صلاحیت کم ہو جاتی ہے۔ گندم کی فصل بجائی سے لے کر کٹائی تک تقریباً 160 دن لیتی ہے۔ اس دوران فصل پر چند نازک مراحل آتے ہیں جن پر فصل کو پانی لگانا ضروری ہو تا ہے۔ (نوید عصمت کاہلوں ملتان )