اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ موسمی تبدیلیوں سے پورا ارض جل رہا ہے اور اس کی آگ میں لوگ بھسم ہو رہے ہیں۔ 80 فیصد زہریلی گیسوں کے ذمہ دار جی 20 ممالک جبکہ ان کے بد ترین اثرات پاکستان اور دوسرے ترقی پذیر ملک بھگت رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا بیان نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان کے دورے کے دوران بھی انہوں نے انہی خیالات کا اظہار کیا تھا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ترقی یافتہ ممالک، عالمی مالیاتی اداروں اور ایندھن کی کمپنیوں کو موسمیاتی تبدیلیوں کی بد ترین تباہ کاریوں کا ازالہ کرنے کیلئے ترقی پذیر ملکوں خصوصاً پاکستان کی مدد کرنا ہو گی کہ پورے برطانیہ کے برابر پاکستان کا علاقہ سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے۔ دوسری طرف وزیر اعظم شہباز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 77ویں سیشن کے افتتاحی اجلاس میں شرکت کی ہے۔ عالمی برادری سے رابطوں کے دوران وزیرا عظم کو سیلاب کی تباہ کاریوں کے بارے میں بتانا چاہئے۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اور وزیر مملکت حنا ربانی کھر کو بھی اپنا سفارتی کردار ادا کرنا چاہئے۔ عالمی برادری سے جو امداد مل رہی ہے اس کی تقسیم منصفانہ ہونی چاہئے اور اگر امداد اصل حق داروں تک نہ پہنچی تو ملک کی ساکھ کو بہت نقصان پہنچے گا۔ پہلے ہی ساکھ اتنی زیادہ بہتر نہیں ہے۔ یہ سیاست نہیں خدمت کا وقت ہے۔ پہلے ہی سیلاب پر بھی سیاست ہو رہی ہے، ایک دوسرے کو الزام دیئے جا رہے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ سیلاب متاثرین کیلئے کسی نے کچھ نہیں کیا۔ سیلاب نے پاکستان کے بڑے حصے کو جس بری طرح متاثر کیا ہے اور اس سے جو نقصان ہوا ہے وہ اتنا زیادہ ہے کہ اس سے بحال ہونے میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔ افسوس تو یہ ہے کہ اس وقت تمام اقتدار پرست جماعتیں برسراقتدار ہیں کوئی مرکز میں ہے کوئی صوبے میں ہے۔ بحالی کے کام میں ابھی تک کسی نے کوئی توجہ نہیں دی۔ سب جانتے ہیں کہ ایشیائی ترقیاتی بینک نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ حالیہ سیلاب کی وجہ سے پاکستان میں جو نقصان ہوا وہ 2005ء میں آنیوالے زلزلے سے ہونے والے نقصان سے زیادہ ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ 2010ء میں جو بد ترین سیلاب آیا موجودہ سیلاب کے نقصانات اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ پاکستان کی پارلیمان کے اندر اور باہر موجود تمام سیاسی قیادت اور دیگر اسٹیک ہولڈرز اس حوالے سے متفق ہوں کہ پاکستان کو موسمیاتی آفات کے نقصانا ت سے بچانے کے لیے ہم نے جلد از جلد ایک جامع اور قابل عمل پالیسی وضع کی جائے۔ ہمسایہ ملک چین نے موسمیاتی تبدیلی پر قابو پانے کیلئے اقدامات کر لیے ہیں۔ ایک خبر کے مطابق چین جس مقدار میں چاہے اور جہاں چاہے بارشیں کرا سکتا ہے۔ چین سے اس سلسلے میں مدد حاصل کی جا سکتی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی سے پاکستانی معیشت کا بہت نقصان ہو چکا ہے۔ آئندہ کیلئے اقدامات ضروری ہیں تاکہ ملک کی معیشت کو ہر تھوڑے عرصے بعد لگنے والے بڑے دھچکے سے محفوظ رکھا جا سکے۔ اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے آنیوالی قدرتی آفات سے ہونے والے نقصان کے بارے میں عالمی سطح پر اقدامات کی ضرورت ہے اور پاکستان کو اقوام عالم کیساتھ مل کر اقدامات کرنا ہوں گے ورنہ نقصانات ہوتے رہیں گے اور نقصانات کے ازالے کیلئے ہمارے پاس تو وسائل ہی نہیں ہیں۔ سب کچھ مانگے تانگے پر چل رہا ہے۔ قرضوں نے تو پاکستان کو اس قابل بھی نہیں چھوڑا کہ وہ خود کو سہارا دے سکے۔ ظلم تو یہ ہے کہ قرضوں کا سود دینے کیلئے بھی قرض لینا پڑتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ کب تک؟ پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں سے ایک ہے۔ عالمی ادارے جرمن واچ نے گزشتہ روز دہائیوں کے دوران ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کے جائزے پر مبنی اپنی جو رپورٹ میں کہا تھا کہ پاکستان ان دس ممالک میں شامل ہے جو ان تبدیلیوں کے باعث بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ برطانیہ کے موسمیاتی ادارے کی تحقیق بتاتی ہے کہ موسموں کی شدت کے پاکستان بھارت میں ریکارڈ ٹوٹنے کے امکانات سو گنا سے بھی زیادہ ہو چکے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ وسیب کے کسان جو کہ اس امید پر تھے کہ اس سال گندم کی پیداوار اچھی ہو گی مگر ساری امیدیں خاک میں مل گئیں۔ بارشوں اور سیلاب سے بہت نقصان ہو چکا ہے۔ اس سے پہلے آم کے باغات کو بہت نقصان ہوا۔ لمپی سکن کی بیماری نے مار دیا۔ وسیب کا کاشتکار معاشی طور پر تباہ و برباد ہو چکا ہے مگر حکومت کی طرف سے کوئی مدد نہیں ہوئی اگر ہم وسیب میں غذائی ضروریات کو دیکھتے ہیں ، فصل کی پیداوار کو دیکھتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ فصل کی کٹائی سے پہلے بارش کی شدید کمی اور اچانک سے گرم ہوتے موسم نے کسانوں کی ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا تھا۔ وسیب کے ساتھ ساتھ سندھ میں اب بھی صورتحال خراب ہے۔ حالیہ دنوں میں دریائے سندھ کے کنارے آبادیوں میں 8 فٹ تک پانی جمع ہوا ہے۔ اس طرح ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہو چکی ہیں۔ بلوچستان میں بھی بہت نقصان ہوا ہے۔ خیبرپختونخواہ کے علاقوں کا نقصان کسی سے پوشیدہ نہیں۔ جہاں تک وسیب کی بات ہے تو سب جانتے ہیں کہ ٹانک، ڈی آئی خان، تونسہ، ڈیرہ غازیخان اور راجن پور روجھان تک رودکوہی سیلاب نے تباہ کر دیا ہے جبکہ وسیب کے دوسرے علاقوں میں بارشوں نے فصلیں پہلے ہی تباہ کر دی ہیں۔ اب نئی فصل کی کاشت کیلئے بھی مسائل ہیں کہ ابھی تک پانی کھڑا ہے بہت سے علاقوں کی زمینیں سیم تھور کا شکار بھی ہوئی ہیں مگر حکومت کی توجہ سے وسیب کے لوگ ابھی تک محروم ہیں۔ ملک کے تمام سیلاب متاثرین خصوصاً وسیب کے متاثرین صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی توجہ کی منتظر ہیں کہ وسیب کا اپنا صوبہ نہ ہونے سے ان کے مسائل ملک کے دوسرے سیلاب زدہ علاقوں سے مختلف ہیں۔