وزیر اعظم عمران خان نے شجر کاری مہم کا افتتاح کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے اگر ضروری اقدامات نہ کئے گئے تو ملک کے کئی علاقے ریگستان بن جائیں گے۔ وزیر اعظم نے اس امر پر تشویش ظاہر کی کہ موسم کی تبدیلی کے باعث دو برسوں کے دوران گندم کی پیداوار میں کمی واقع ہوئی ہے۔ انہوں نے دریائوں کی صفائی ‘ بند بنانے اور خالی جگہوں پر درخت لگانے کی ہدایت کی۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے سمندر اور منجمد خطوں کو اس دور میں جتنا نقصانپہنچ رہا ہے اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔اقوام متحدہ کے سائنسدانوں کے ایک پینل کا کہنا ہے کہ سمندروں کی سطح بلند ہو رہی ہے، برف پگھل رہی ہے اور انسانی سرگرمیاں بڑھ جانے سے جنگلی حیات اپنے مسکن تبدیل کرنے پر مجبور ہے۔مستقل طور پر منجمد خطوں کے پگھلنے سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائڈ گیس کے اخراج کا خطرہ ہے جس سے یہ عمل تیز سے تیز تر ہوتا جائے گا۔سائنسدانوں نے گذشتہ رپورٹوں میں اس بات کا جائزہ لیا تھا کہ اگر دنیا کا درجہ حرارت ایک اعشاریہ پانچ سینٹی گریڈ تک بڑھ جائے تو اس کا کیا اثر پڑے گا اور دنیا اس سے کیسے نمٹ سکے گی۔ انھوں نے رپورٹ میں درجہ حرارت کے بڑھنے سے زمین پر پڑنے والے اثرات کی تفصیل سے وضاحت کی تھی۔تاہم یہ رپورٹ جس میں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے سمندروں اور منجمد خطوں پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لیا گیا سب سے زیادہ مایوس کن اور خطرناک ہے۔ سمندروں کا پانی گرم سے گرم تر ہو رہا ہے، اس کے اثرات دنیا میں بسنے والی ہر مخلوق پر پڑیں گے۔ نیلگوں سیارہ اس وقت حقیقی خطرات سے دوچار ہے جن کی سنگینی مختلف نوعیت کی ہے اور سب خطرات انسان کے پیدا کردہ ہیں۔ انسانی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والی حدت کا نوے فیصد سمندر کے پانیوں نے جذب کر لیا ہے اور سمندر کا پانی جس رفتار سے گرم ہوا ہے وہ سنہ 1993 کے بعد سے دگنی ہو گئی ہے۔ سمندر کی سطح اب گرین لینڈ اور قطب جنوبی پر جمی برف کی تہہ پگھلنے سے بلند ہو رہی ہے۔قطب شمالی اور قطب جنوبی پر جمی برف اس سے پہلے کے دس سالوں کے مقابلے میں تین گنا زیادہ رفتار سے پگھلی ہے۔ماہرین کا خیال ہے کہ اکیسویں صدی اور اس سے آگے یہ سلسلہ اس طرح جاری رہے گا۔دنیا کے دیگر علاقوں میں گلیشیئروں کے بارے میں یہ اندازہ ہے کہ اس صدی کے آخر تک ان کا اسی فیصد حصہ پگھل جائے گا۔ اس کے اثرات کروڑوں لوگوں پر پڑیں گے۔ایک پریشان کن پیغام جو ہمیں مل رہا ہے وہ یہ ہے کہ سمندروں کا گرم ہونا اور برفانی خطوں کا پگھلنا ایک ہی سلسلے کی کڑی ہیں جس سے مستقبل میں کروڑوں لوگ متاثر ہوں گے۔گیسوں کے اخراج کے انتہائی اندازوں کے مطابق نیویارک اور شنگھائی جیسے بڑے اور امیر شہر اور گرم علاقوں کے بڑے زرعی ڈیلٹا سیسمندروں سے شدید خطرہ ہو سکتا ہے۔ عمومی طور پر پاکستانی کیلنڈر میں ہر موسم کی مناسبت سے فصلوں‘ پھلوں‘ آبپاشی اور پن بجلی کے نظام الاوقات کو ترتیب دیا گیا ہے۔پاکستان کی خوش بختی ہے کہ اسے پانچ موسم عطا ہوئے ہیں۔ دسمبر سے فروری تکس سردہوائیں چلتی ہیں اور ٹھنڈ پڑتی ہے‘ مارچ سے مئی کے آغاز تک موسم گرم ہونے لگتا ہے۔ درخت پتوں اور پھلوں سے لد جاتے ہیں۔ مئی سے ہی موسم خشک گرم ہو جاتا ہے‘جولائی اگست برسات کے مہینے ہوتے ہیں۔ برسات ختم ہونے پر درجہ حرارت کم ہونے لگتا ہے اور خزاں کی آمد کا اعلان ہونے لگتا ہے۔ مون سون کے اثرات اکتوبر نومبر تک پھیل جاتے ہیں۔ یہ قدرت کا کا ہزاروں برس سے جاری نظام ہے۔ انسان نے اس قدرتی نظام کے لئے خطرات پیدا کر دیے ہیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی‘ ٹریفک کا دبائو اور فضا میں کیمیائی مادوں کا گھلنا موسموں کی آمد اور درجہ حرارت میں کمی بیشی کا باعث بن رہا ہے جس سے پاکستان نئے خطرات میں گھر رہا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان میںہمالیائی گلیشر پگھلنے لگے ہیں۔ مون سون کا موسم اپنا معمول کا چکر تبدیل کر رہا ہے‘ آبی ذخائر میں کمی ہو رہی ہے جس کی وجہ سے پن بجلی کے منصوبے متاثر ہو سکتے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کا انتہائی نتیجہ سیلاب اور قحط سالی کی صورت میں برآمد ہو سکتا ہے۔ عالمی بنک کی رپورٹ بتاتی ہے کہ پاکستان میں فضائی آلودگی ‘ پینے کے صاف پانی کی ناکافی فراہمی‘ شور کی آلودگی اور شہری علاقوں میں آلودگی کے باعث آبادی کو بیماریوں کے خطرات بھی موسمی تبدیلی سے جڑے ہوئے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کو روکنے کے لئے ہوائی جہازوں کی جگہ ریل گاڑی پر سفر کو رواج دیا جائے۔ شہری کاروں اور موٹر سائیکلوں کی جگہ سائیکل کی سواری کو رواج دیں تاکہ پٹرول کے کیمیائی اجزا ہوا میں شامل نہ ہوں۔ ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں تھرمل کی جگہ شمسی اور ہوائی بجلی پیدا کرنے پر توجہ دیں۔ سب سے اہم اور موثر تدبیر شجر کاری ہے جس پر وزیر اعظم خصوصی توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں تاہم اس سلسلے میں دو روز قبل ضلع خیبر میں رونما واقعہ نے شجر کاری مہم کے لئے کچھ نئے ایس او پیز کی ضرورت اجاگر کی ہے۔ان معاملات کو جدید ٹیکنالوجی، تربیت یافتہ افرادی قوت اور شعور کی بیداری کے ساتھ بروئے عمل لایا جائے تو پاکستان کو ریگستان بننے سے بچایا جا سکتا ہے۔موسمیاتی تبدیلی پاکستان کا ہی نہیں عالمی برادری کا مسئلہ بن چکا ہے‘ امیر ممالک عالمی درجہ حرارت کے تعین اور اپنے معاشی مفادات کے تحفظ کے لئے فیصلے کر رہے ہیں۔ پاکستان اور اس جیسے ترقی پزیر ممالک نے وقت ضائع کئے بغیر خرابی کو روکنے کا چارہ نہ کیا تو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔