ملک کے اکثر میدانی علاقوں کی طرح سندھ میں موسم سرما کا مطلب موسم بہار ہوتا ہے۔ موسم سرما کے بارے میں یہ بھی کہاجاتا ہے کہ یہ غریب پرور موسم ہے۔ مگر اس بار تو مہنگائی نے موسم سرما کو مزید سرد کردیا ہے۔ سردی جب ایک حد سے بڑھ جاتی ہے تو وہ گرمی سے زیادہ تکلیف دہ اور ناقابل برداشت بن جاتی ہے۔ مگر یہ ایک الگ بات ہے۔ ہم اس وقت پیٹرولیم کی قیمتوں اور اس پر ہونے والے معاملات کے بارے میں کالم تحریر نہیں کر رہے۔ ہمارے اس کالم کا موضوع موسم سرما اور وہ بھی وادی سندھ میں وہ موسم سرما ہے جو ابھی تک پوری طرح آیا نہیں۔ مگر وہ جھیل پر اترنے والے پردیسی پرندے کے مانند اپنے پر پھیلاکر لہروں سے کھیلنا چاہتا ہے۔ موسم سرما میں تو ویسے بہت ساری باتیں اچھی ہوتی ہیں، مگرموسم سرما کی کچھ بری باتوں میں ایک بات یہ ہے کہ اس موسم میں بہت دور سے آنے والے پرندوں کا شکار جس بے دردی سے کیا جاتا ہے، اس کے مناظر قابل افسوس ہوتے ہیں۔ اس موسم میں اگر آپ اندرون سندھ کا چکر لگائیں، تو آپ کو قریب قریب ہر چھوٹے سے شہر میں شکار کیے ہوئے ،پرندوں کا ایک بڑا سا بازارنظر آئے گا۔ وہ غریب لوگ جو موسم سرما میں بھی مرغی کا گوشت نہیں کھا سکتے ،وہ ان پرندوں کو کھا کر اپنے پیٹ کے دوزخ کی آگ بجھاتے ہیں۔ ’’شکار کرنا صحیح ہے یا غلط؟‘‘ اس سوال پر مختلف افراد کی سوچ مختلف ہو سکتی ہے مگر اس بارے میں دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ ان پرندوں کا شکار ہرگز نہیں کرنا چاہئیے۔ جو ہمارے مذہب میں حلال نہیں ہیں یا جن کو معاشرتی حوالے سے نہیں کھایا جاتا۔ اور اب تو حکومت بھی اس سلسلے میں سخت قوانین بنا رہی ہے کہ ان پرندوں کا شکار نہیں کیاجائے گا جن کی نسل ختم ہونے کا خدشہ ہے۔ تلور نامی پرندے کا شمار بھی ان پرندوں میں ہونے لگا ہے ،جن کے شکار کو اس پرندے کی نسل کشی سمجھا جا نے لگا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس پرندے کے شکار کرنے کے لیے عرب حکمران گھرانوں کے نوجوان بڑے شوق سے پاکستان آتے ہیں ۔ ملک کو ان کے شکار سے جو مالی اور قومی فوائد ہوتے ہیں ، ان سے ہٹ کر سندھ میں وڈیروں کے لیے یہ کمائی کا سیزن ہوتا ہے۔وہ اپنے مفاد کے خاطر اس قدر تو آنکھیں بند کرلیتے ہیں، جو ان کو ماحولیات کا تو کیا اپنے ان لوگوں کا خیال تک نہیں رہتا، جو ان کی نظر میں انسان نہیں صرف ووٹرز ہوتے ہیں۔ انسان اور ووٹر میں کیا فرق ہے؟ یہ سوال کس قدر دل خراش ہے؟ مگر سندھ کے وڈیروں عرف ووٹوں کے بیوپاریوں کو اس بات کا کوئی خیال نہیں ہوتا۔ ان کی نظر میں سیاست کبھی عزت کا باعث رہی ہوگی ،اب تو صرف کمائی کا ذریعہ ہے اور جب سے پیپلز پارٹی کے اصل رہنما آصف زرداری نے اس کو جائز قرار دیا ہے ،تب سے سندھ کے وڈیرے لوگوں کے ساتھ وہ سلوک کرتے ہیں جو شکاری اپنے شکار کے ساتھ کرتا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو سندھ میں پیپلز پارٹی کے ایک ایم پی اے جام اویس کے ہاتھوں مبینہ طور پر اس غریب نوجوان کا قتل کیوں ہوتا، جس کا قصور صرف اتنا تھا کہ اس نے تلور کا شکار کرنے والے عرب شکاریوں کی ایک عدد ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر رکھی تھی۔ کیا یہ جرم تھا اور اگر وڈیرہ شاہی کے حوالے سے یہ جرم بھی ہو تو کیا اتنا بڑا جرم تھا کہ اس نوجوان پر پوری رات اس قدر تشدد کیا جائے کہ رات کے پچھلے پہر اپنی آخری سانس لیکر ہمیشہ کے لیے خاموش ہوجائے!!؟؟ سندھ کے لوگ مقتول نوجوان ناظم جوکھیو کے قتل پر سراپا احتجاج ہوگئے اور ان کے احتجاج کا دائرہ اس حد تک بڑھ گیا کہ وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ نے بھی اپنے ایم پی اے کو گرفتاری دینے کے لیے مجبور کیا اور اس نے گرفتاری دی۔ ناظم جوکھیو قتل کیس پر سندھ نے جس طرح احتجاج کا پرچم اٹھایا اور ایک سردار گرفتار ہوگیا ،تو اس سے سوچنے والے لوگوںمیں امید کی کرن پھوٹی۔ ان کو محسوس ہوا کہ شاید سندھ میں وڈیرہ شاہی خاتمے کے قریب ہے۔ مگر اہلیان سندھ کی یہ خوش فہمی اس وقت ختم ہوگئی ،جس وقت سردار خاندان نے دباؤ ڈال کر ناظم جوکھیو کی ماں اور بیوہ کو خاموش رہنے پر مجبور کردیا اور اس کے بھائی نے جس طرح سوشل میڈیا پر آکر سردار خاندان کے حق میں بیان دیا ،اس سے شدید مایوسی کی صورتحال پیدا ہوگئی۔ سندھ کے لوگوں کو محسوس ہوا کہ وڈیرہ شاہی اور سرداری نظام کی جکڑ کو ابھی تک وہ میڈیا بھی کچھ نہیں کرپایا ،جس کو بین الاقوامی میڈیا بلایا جاتا ہے۔ سندھ کے باشعور اور جذباتی لوگوں نے ناظم جوکھیو کیس میں ایک طرح کی امید دیکھی۔ انہوں نے سمجھا کہ ناظم جوکھیو کیس کی وجہ سے سرداری نظام ختم ہوجائے گا اور بلاول بھٹو زرداری بھی مجبور ہوکر ماحولیات کے تحفظ میں اپنی جان دینے والے نوجوان کے کچے مکان میں آئے گا اور دکھی خاندان کے لیے بہت بڑی امداد کا اعلان کرے گا۔ مگر ایک لٹی ہوئی ماں اور جوانی میں بیوہ بن جانے والی سندھ کی بیٹی بلاول کی راہ تکتی رہ گئیں۔ سندھ کے لوگوں نے تو ناظم جوکھیو کو شہید فطرت قرار دیا تھا مگر صرف اعزاز سے کیا حاصل ہوتا ہے؟ اور وہ اعزاز بھی جب عوامی ہو تو اس کی کتنی اہمیت ہوتی ہے؟ تلور کے شکار کو روکنے والا ناظم جوکھیو جان کی بازی ہار گیا مگر وہ شکار اب بھی جاری ہے۔ سندھ کے دیہی اور پہاڑی علاقوں میں ناظم جوکھیو کے لیے ہونے والے احتجاج کے باعث شکار کی شدت میں کچھ کمی آئی مگر جب لوگوں نے دیکھا کہ حکومت سرداروں کے ساتھ کھڑی ہے تو پھر فورا ویل ڈرائیو گاڑیاں حرکت میں آگئیں اور شکار کی سرگرمی عروج پر پہنچ گئی۔ سندھ میں موسم سرما پردیسی پرندوں کی طرح اپنے پر پھیلا کر اترنے کی کوشش کررہا ہے۔ اس موسم سرما میں سیاست کتنی گرم ہوگی؟ ہم اس سوال پر آنے والے کالم میں خیالات کا تبادلہ کریں گے۔ یہ کالم تو صرف امیدوں کے دیس میں ناامیدی کا پیغام لانے والے اس واقعے پر محدود ہے جو کسی جھیل کی سطح پر بہت بڑے درخت کی طرح گرا۔ جس کے باعث بہت ساری لہریں اٹھیں۔ مگر اب ان لہروں کا وجود ختم ہونے لگا ہے۔ سندھ کے سماج میں وڈیروں کی وجہ سے تبدیلی کے راستے مکمل طور پر بند ہیں۔ سندھ میں تبدیلی آ بھی سکتی ہے مگر جب سندھ حکومت کے اصل مالک عوام کے بجائے عوام مخالف وڈیروں اور سرداروں کے حامی ہوں تو پھر تبدیلی کس طرح آسکتی ہے؟ سندھ ایک امید کا دامن چھوٹ جانے کے بعد پھر کسی اور امید کا دامن پکڑنے کی کوشش کرتی ہے۔ سندھ کی یہ کوشش جاری ہے۔ مگر سامنے بھی سرداری ہے اور سرداری کے ساتھ زرداری ہے۔ جب سرداری اور زرداری ساتھ ساتھ ہوں تو پھر ایک غریب نوجوان شہید فطرت یا مقتول ماحولیات بن کر بھی کیا کرسکتا ہے؟ فیض احمد فیض نے کیا خوب لکھا ہے: ہم سادہ لوح ایسے تھے کی یونہی پزیرائی جس بار خزاں آئی؛ سمجھے کہ بہار آئی