اکیڈمی کے اس سیمینار میں اسکالرز اور مفتیان کرام متفق تھے کہ دنیا کے جس کسی حصے میں بھی سنی اور شیعہ مشترک آبادیاں ہیں، وہ پْرامن بقائے باہم کے ساتھ مشترکہ اقدار کی بنیاد پر زندگی گزاریں، ایک دوسرے کی مقدس مذہبی شخصیات کا احترام کریں۔سمینار میں یہ بھی بتایا گیا کہ فقہی مسائل میں اختلافات کا حق تو حاصل ہے مگر ان میں اپنی رائے کو سراسر حق اور دوسری رائے کو سراسر باطل قرار دینا ہرگز درست نہیں۔ جن مسائل میں اختلافات کی نوعیت حلال و حرام، جائز و ناجائز کی ہے وہ بھی چونکہ مختلف فیہ مسائل ہیں، اس لئے ان میں بھی دوسرے کے مسلک کو مکمل باطل قرار دینا صحیح نہیں ہے۔ اس کے لئے دینا بھر کے علماء سے اپیل کی گئی کہ اس طرح کے مسائل کو عوامی نہ بنایا جائے، اگرچہ انفرادی طور پر اپنا مسلک اور اس کے دلائل بیان کرنے میں مضائقہ نہیں۔ اہل سنت کے بار ے میں بتایا گیا کہ جن مسائل میں اختلاف کی نوعیت عقیدہ کی ہے ان میں اپنے عقیدہ کا اثبات اور دلائل کی توضیح درست ہے، لیکن دوسرے کو اشتعال دلانے والی طرزگفتگو سے اجتناب ضروری ہے۔ تبادلہ خیال میں اپنے مسلک کے مستدلات کو بھی پیش نظر رکھا جائے اور تفصیلاً بیان کیا جائے، مگر دوسرے کی توہین، تنقیص اور تشنیع سے پرہیز کیا جائے۔ دوسرے کی طرف سے اگر نامناسب طرز کلام پایا جائے تو بھی اپنی طرف سے سنجیدگی اور حدود کی رعایت برقرار رکھی جائے۔ بین المذاہب مذاکرات کے اصول و آداب کے حوالے سے بتایا گیا کہ ان کو رواداری، پْرامن بقائے باہمی، دعوت دین، غلط فہمیوں کے ازالہ اور سماجی و سیاسی مشکلات کے حل کے لئے استعمال کیا جائے۔ چونکہ عقیدہ توحید و رسالت اقوام عالم کے سامنے پیش کرنا اورکفر و شرک کے جملہ رسوم واعمال سے بریت کا اظہارکرنا مسلمانوں کا دینی فریضہ ہے، مگر اس بات کی پوری کوشش کی جائے کہ اظہار بریت کے ایسے طریقے اور اسالیب اختیار نہ کیے جائیں جن سے دیگر مذاہب کے پیروکاروں کی دل آزاری ہو۔ سیمینار کے بعد فیصلے میں یہ بھی بتایا گیا کہ تشدد کا ہر وہ عمل جس کے ذریعے کسی فرد یا جماعت کو خوف و ہراس یا جان و مال و عزت کے خطرے میں مبتلا کیا جائے دہشت گردی ہے، خواہ یہ عمل کسی فرد یا جماعت کی طرف سے ہو یا حکومت کی طرف سے۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا گیا کہ کسی بھی طرح کی ناانصافی کے خلاف مناسب اور موثر طریقہ اختیار کرنا یا آواز اٹھانا مظلوم کا حق ہے۔ دہشت گردی کے سد باب کی صورت یہ ہے کہ تمام لوگوںکو مساوی طور پر عدل و انصاف فراہم کرایا جائے اور انسانی حقوق کا مکمل احترام ہو؛ نسلی، قبائلی، مذہبی اور لسانی امتیازات کا لحاظ کئے بغیر تمام انسانوں کو باعزت زندگی گزارنے کا موقع فراہم کرایا جائے، مگر کسی کی جان و مال اور عزت و آبرو پر حملے کی صورت میں مدافعت کا پورا حق حاصل ہوگا۔ مشترکہ سماجی مسائل جیسے غربت، کرپشن (بدعنوانی)، بے حیائی، عورتوں، مزدوروں اور سن رسیدہ افراد کے ساتھ زیادتی وغیرہ پر مختلف پر بتایا گیا کہ دیگر اہل مذاہب کے ساتھ مذاکرات وقت کی اہم ضرورت ہے، مسلمانوںکو اس میں حصہ لینا چاہئے۔ اس کے علاوہ مسلمانوں میں خدمت خلق کے رجحانات کو فروغ دینے کی کوشش کی جائے، اس مقصد کے لئے رفاہی تنظیمیں (N.G.OS) قائم کی جائیں اور اس ضمن میں پہلے سے قائم اداروں کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جائے۔ بہت سے اسکالرز کی طرح مولانا امین عثمانی نے بھی اپنے پیچھے تصنیفات نہیں چھوڑیں،مگر انہوں نے جس طرح اجتہاد کا دروازہ کھولنے کا کام کیا اور فقہ اکیڈمی کے توسط سے ایسے کام کروائے جو سوچنا بھی محال تھے ۔وہ مدارس اور مسلمانوں کی زندگی میں اصلاح کے زبردست حامی تھے۔خصوصاً اسلام میں خواتین کو دیئے گئے حقوق کو لاگو کروانے کے زبردست حامی تھے اور چاہتے تھے کہ مسلمان اس پر سختی سے عمل کریں۔ ہر سال وہ دو بار ملک کے مختلف حصوں میں علماء اور اصحاب دانش کو اکٹھا کرکے کسی مسئلے پر سیر حاصل بحث کرواتے تھے اوراسکے بعد فیصلہ مشتہر کرتے تھے۔ اس سلسلے میں وہ میڈیکل سائنسز، معاشیات، سماجیات اور نفسیات کے اعلیٰ ترین ماہرین کی خدمات بھی لیتے تھے۔ ان کے ایک رفیق مولانابدرالحسن القاسمی کے مطابق امین عثمانی وہ نام تھا جس پر سبھی کو اعتماد تھا۔ان کے بنائے ہوئے خاکے اور منصوبے اتنے زیادہ ہیں کہ ڈاکٹریٹ کے مقالہ کا عنوان بن سکتے ہیں ۔ان کے پیش کردہ مشروعا ت پر عربوں کو بھی حیرت ہوتی تھی۔ انہوں نے اسلامک فقہ اکیڈمی کو عالمی معیار پر لا نے کیلئے بھر پور جد وجہد کی ۔اپنی علالت سے قبل فون پر انہوں نے میرے کالم متحدہ امارات اور اسرائیل کے تعلقات کی پس پردہ کہانی پر خوب ستائش کی۔ کافی دیر تک عالم اسلام اور ترکی کے حالات و واقعات پر گفتگو کرتے رہے۔ دو روز بعد پھر مسیج کرکے انہوں نے حکم دیا کہ اردو میں لکھے میرے سبھی کالم ان کو بھیجوں۔ میں نے کہا مولانا میں ا انتشاری شخصیت ہوں ، آپ کی طرح منظم فرد نہیں ہوں۔ مجھ سے یہ کالم وغیرہ کی ڈاکومینٹیشن نہیں ہوتی ہے۔ خیر پھر بھی میں نے ان کو اپنے بہت سے کالمز کی لنک بھیج دیے۔ وہ کافی خوش تھے اور شکریہ بھی ادا کیا۔ مگر اگلے ہی روز کسی واٹس ایپ گروپ کے ذریعے معلوم ہوا کہ وہ علیل ہیں اور دعا کی درخواست کی گئی تھی۔ پھر معلوم ہوا کہ وہ انتقال کر گئے ہیں۔ پوری ملت کیلئے ان کا جاناایک حادثہ سے کم نہیں ہے۔ زمین سے نوریان آسمان پرواز کہتے تھے یہ خاکی زندہ تر،پائندہ تر، تابندہ تر نکلے