جس ایک ’محرک‘کا میں نے ذکر کیا وہ ’’پنڈی ‘‘ہے کہ بہرحال سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے جانے کے بعد بحیثیت ایک ادارہ ’پنڈی‘ کے سارے بڑے جہاندیدہ ایک انسٹیٹیوشن کی حیثیت سے یہ فیصلہ کرچکے ہیںکہ وہ کسی بھی سیاسی بحران کی صورت میں پارٹی تو کیا امپائر بھی نہیں بنیں گے۔2014ء میں ہمارے خان صاحب کا دھرنا اُس موڑ پر آچکا تھا کہ بس ایک ’’امپائر‘‘کی انگلی بلکہ چھڑی ہلنے کی دیر تھی ۔یقینا اول تو حضرت مولانا کا مارچ ابھی گھٹنوں گھٹنوں چلاہے۔یوں اسلام آباد کا تخت اُس سے کوسوں دور ہے ۔پھر نظام ِ مصطفی کے نعرے اور کارڈ کی طرح ابھی حضرت مولانا کا مذہبی کارڈ اور سلیکٹڈ حکومت کا نعرہ زبان ِخلق پر آخر نقارہ خدا تو نہیں بناہے۔۔مگر سال بھر میں معاشی محاذ پر جس طرح حکومت کے اقتصادی اقدام ناکام ہوئے ہیںاُس نے پی ٹی آئی مخالف فضا تیار کردی ہے۔کیا تاجر و صنعتکار اور کیا Poorمحنت کش اور لوئر مڈل کلاس ۔اگر سڑکوں پر باہر نہیں بھی آئے تو اُن کی چیخیں ضرور آسمان کو چھو رہی ہیں۔اور غالباً یہی سب سے بڑا فیکٹر ہے جس نے حضرت مولانا کے لانگ مارچ کو فی الوقت توخان صاحب کی حکومت کو دہلایا نہیں تو ہلا تو ضرور دیا ہے۔ حضرت مولانا فضل الرحمن نے ماہ گزشتہ لانگ مارچ کا اعلان کیا تھا، تو تحریک انصاف کی ساری قیادت نے خوب خوب مذاق تو اڑایا ہی ، مگر ان کے ساتھی اور اتحادی جماعتوں بالخصوص پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی تک نے ’’ہاتھ‘‘ اٹھا دیے تھے کہ یہ کسی بھی حکومت کو گراؤ تحریک کا موزوں وقت نہیں۔ مگر حضرت مولانا تمام محاذوں پر ڈٹے رہے۔ مولانا فضل الرحمن اور ان کی جماعت کا جو مذہبی پس منظر ہے یعنی علمائے دیوبند کے جس مکتب سے اس کا تعلق ہے اس سے لاکھ اختلاف سہی، مگر علمائے دیوبند کی یہ سو سالہ تاریخ رہی ہے کہ جس مسئلے پر ایک بار ڈٹ گئے تو اس سے پیچھے نہیں ہٹتے۔ برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی اکثریت جب مسلم لیگ کا جھنڈا اٹھائے تحریک پاکستان پر اپنی جان قربان کررہی تھی اور تقسیم ہند اور پاکستان کا قیام یقینی ٹھہر گیا تھا اس وقت بھی دیگر علمائے کرام کی طرح مولانا فضل الرحمن کے اجداد پاکستان مخالف موقف پر ڈٹے رہے۔ قیام پاکستان کے بعد کے برسوں میں ان کے سیاسی مخالفین جب ان پر پھبتی کستے تو اس کا جواب بڑی استقامت سے دیتے کہ ہاں ہم نے پاکستان کی مخالفت کی تھی، مگر اب اس کا قیام عمل میں آہی گیا ہے تو اس میں ہم اپنے مسلک کی حکومت قائم کر کے رہیں گے ۔ کوشش کررہا ہوں۔۔۔ کہ مسلکی حوالے سے مولانا فضل الرحمن کی سیاست پر گفتگو کرنے سے گریز کروں، مگر یہ حقیقت ہے کہ مسلم لیگ تو چھوڑیں، بانی پاکستان قائد اعظم اور پاکستان کے قومی ترانے تک سے مولانا کی جمعیت نے اپنی سیاسی کم مذہبی تحریک کو دور رکھا۔ اور پھر قومی سیاست یعنی مین اسٹریم سے الگ تھلگ رہنے کے باوجود ملک کے چار میں سے دو یعنی صوبہ بلوچستان کی پشتون بیلٹ اور آج کے خیبرپختونخوا میں بتدریج انہوںنے اپنی سیاسی قوت میں اتنا اضافہ کیا کہ بالغ رائے دہی کی بنیاد پر سن ستر کے پہلے عام انتخابات میں اس وقت کے قومی اور صوبائی اسمبلی میں ان کے ارکان کی تعداد سب سے زیادہ تھی۔ اور پھر اسی بنیاد پر اس وقت کے صوبہ سرحد میںجمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کے والد مفتی محمود کو صوبے کا پہلا وزیراعلیٰ منتخب کیا گیا۔ یہی نہیں بلوچستان میں نیپ کی حکومت بھی جمعیت کے تعاون ہی سے اقتدار میں آئی۔ جہاں مولانا مفتی محموداور ان کی جمعیت کی اصول پسندی اور اپنے موقف پر ڈٹے رہنے کے لیے ہرقسم کی قربانی دینے کا تعلق ہے تو اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب بھٹو صاحب نے بلوچستان کی منتخب حکومت کو صرف نو ماہ بعد برطرف کیا تو حضرت مولانا مفتی محمود جس صندوق کو اٹھا کر وزیراعلیٰ ہاؤس گئے تھے اسی صندوق کو کاندھے پر رکھ کر پیدل ہی وزیراعلیٰ ہاؤس چھوڑ گئے۔ اور پھر بھٹو مخالف تحریک کے ساتھ اس دن تک جڑے رہے جب تک بھٹو صاحب پھانسی کے پھندے پر نہیں جھول گئے۔ افغان جنگ نے جمعیت علمائے اسلام کو سیاسی طور پر اگر تیسری بڑی اور مذہبی طور پر سب سے بڑی قوت بنا دیا۔ جمعیت کے مدارس کا سارے ملک خصوصا بلوچستان اور صوبہ سرحد میں جال اور اس کے لاکھوں طلبا ایک ایسی قوت بن کر ابھرے کہ جنہوں نے طالبان کی صورت میں سپر پاور امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر ایسی کاری ضرب لگائی کہ جس کے زخم امریکہ بہادر آج تک چاٹ رہا ہے۔ نائن الیون کے بعد سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے اپنے دو مخالفوں یعنی پی پی اور ن لیگ کو پچھاڑنے کے لیے جس طرح مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل کو دوسری بڑی سیاسی قوت کی حیثیت سے کھڑا کیا تو اس وقت ایک ایسا مرحلہ بھی آیا کہ ہمارے مولانا فضل الرحمن کے وزیراعظم بننے میں ایک آنچ کی کسر رہ گئی تھی۔ اب تو پبلک لائبریری آف یو ایس ڈپلومیسی کی وہ رپورٹ بھی سامنے آگئی ہے جس میں اس وقت کے امریکی سفیر اور جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ کی ملاقات کو بڑی تفصیل سے بیان کرتے ہوئے انکشاف کیا گیا ہے کہ امریکیوں کے سامنے انہوں نے مستقبل کے وزیراعظم کے عہدہ جلیلہ کا منصب سنبھالنے کے لیے تعاون اور مدد کی درخواست کی تھی۔ ستائس نومبر دوہزار سات میں Ambassador disscusses election with fazal ur rehman میں جو وکی لیکس میں تفصیلات دی گئی ہیں اگر اسے مکمل آپ کے سامنے پیش کروں تو کالم آخری دموں پر آ جائے۔ یہ ساری تفصیلی تمہید اس لیے باندھی کہ تحریک انصاف کی حکومت اور خاص طور پر وزیراعظم عمران خان مولانا کو محض مولانا ڈیزل کہہ کر اپنی دانست میں قومی سیاست سے باہر نکال بیٹھے تھے، آج ہمارے خان صاحب باقاعدہ انہیں مذاکرات کی دعوت دے رہے ہیں۔ ابتدا میں بھی لکھا کہ اپنے مسلک اور پھر اس سے زیادہ ضد پر قائم رہتے ہوئے مولانا فضل الرحمن اب اس حد تک ڈٹ گئے ہیں کہ اگر ان کے دعوے کے مطابق ان کا راستہ روکا گیا ، یعنی بذریعہ ٹرین اور بسوں ان کے قافلے اسلام آباد جانے سے روکے گئے تو وہ اونٹوں، گھوڑوں اور پیدل اسلام آباد پہنچیں گے۔ مولانا کا دعویٰ تو پندرہ لاکھ کی ریلی کا ہے، لیکن اگر پندرہ ہزار بھی اسلام آباد کے آبپارہ چوک پر پہنچ گئے تو تحریک انصاف کی معاشی بحران کے سبب ڈولتی حکومت نہ بھی گری تو ہل ضرور جائے گی۔