تمام تر مجبوریوں ،محرومیوں ،لاتعداد مشکلات اور چیلنجوں کے باوجود بھارتی مسلمانوں نے پچھلی ایک صدی کے دوران نہ صرف چند عالمی شہرت یافتہ ادارے قائم کئے بلکہ انہیں وسائل کی کمی کے باوجود زندہ بھی رکھا ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ،جامعہ ملیہ اسلامیہ، دینی اداروں میں ام المدارس دارالعلوم دیوبند، مظاہرالعلوم سہارنپور اور لکھنوکے ندوۃ العلماء وغیرہ نے پوری دنیا کو منور کیا ہے۔ اسی طرز عمل کو برقرار رکھتے ہوئے نوئے کی دہائی کے اوائل میں جید عالم دین مرحوم قاضی مجاہد الاسلام قاسمی اور علی گڑھ سے فارغ التحصیل ، ماہر اقتصادیات اور انسٹیٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز کے سربراہ ڈاکٹر منظور عالم نے مسلمانوں کو درپیش نئے مسائل کا حل ڈھونڈنے اور اجتہاد کا دروازہ کھولنے کیلئے اسلامک فقہ اکیڈیمی کی داغ بیل ڈالی۔ اس ادارے کی انتظامی باگ ڈور ایک ایسے ہاتھ میں دی، جو نام و نمود سے عاری ، تمام مکتبہ ہائے فکرسے حسن و ظن و اتحاد ملت کیلئے درد مند دل رکھنے والی شخصیت تھی۔ ان کا نام مولانا محمدامین عثمانی تھا، جن کا پچھلے ہفتے دہلی میں مختصر علالت کے بعد انتقال ہوگیا۔ یونیورسٹی میں پروفیسری کی نوکری کو ٹھکرا کر فقیرانہ مزاج کے اس شخص نے 1989میں ہی قاضی صاحب اور ڈاکٹرمنظور عالم کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے نوزائیدہ اکیڈیمی کے امور سنبھالے اور پچھلے 30برسوں میں اسکو پروان چڑھاکر ایک عالمی ادارہ بنادیا۔ اس ادارہ کی افادیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جنوبی افریقہ میں جب نسل پرست دورکا خاتمہ ہوا اور مقتدر عالمی شخصیت نیلسن منڈیلا نے 1994ء میں زمام اقتدار سنبھالی تو دیگر امور کے علاوہ انہیں ملکی آئین اور قوانین کی تشکیل نو اور ان کو عوام کی امیدوں اور آرزوئوں کے ساتھ ہم آہنگ کر نے کا مسئلہ بھی درپیش تھا۔ چونکہ وہاں مسلمانوں کی بھی اچھی خاصی تعداد آباد ہے اس لئے جب مسلم پرسنل لاء کا مسودہ تیار کرنے کی بار ی آئی تو پوری دنیا میں نیلسن منڈیلا کی نظر نئی دہلی کے ذاکر نگر علاقے میں واقع اس ادارے اسلامک فقہ اکیڈیمی پر پڑی۔منڈیلا سعودی عرب، ایران، پاکستان یا کسی بھی اسلامی ملک یا ان کے اداروں کو یہ کام تفویض کرسکتے تھے، مگر ان کا کہنا تھا کہ بھارت چونکہ ایک متنوع آبادی کا ملک ہے، جہاں مختلف مذاہب اور نسلوں کے ماننے والے رہتے ہیں، اس لئے وہاں کا ادارہ احسن طریقے سے جنوبی افریقہ جیسے کثیرالجہتی ملک میں رہنے والے مسلمانوں کے مسائل کا ادراک کرے گا۔ نوے کی ابتدا میں جب تعلیم کی غرض سے میں دہلی وارد ہوا، تو نظام الدین ویسٹ اور بعد میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پاس بٹلہ ہائوس میں جب بھی اوبجکٹیو انسٹوٹ کے دفترجانا ہوتا تھا ، تو ایک کونے میں خاموش طبیعت کے مالک مولانا عثمانی اپنے ڈیسک پر بلاکر کشمیر کے حالات و واقعات پر استفسار کرتے تھے۔ ان کی گفتگو سے اندازہ ہوتا تھا کہ نہ صرف وہ ایک دردمند دل رکھتے تھے، بلکہ عالم اسلام کے مسائل پر بھی ان کی گہری نظرتھی ۔ فقہ اکیڈیمی کے قیام کے بعد اس کا پہلا سیمینار دہلی کی ہمدرد یونیورسٹی کے وسیع و عریض کنونشن سینٹر میں منعقد ہوا۔ عثمانی صاحب کو اس سیمینارر میں کام کرنے کیلئے اور ملک و بیرون ملک سے آئے مہمان علما ء کا خیال رکھنے کیلئے رضاکاروں کی ضرورت تھی۔ میں نے بھی حامی بھر لی ۔ جب وہ ڈیوٹیاں تقسیم کررہے تھے، تو مجھے مولانا ابوالحسن علی ندوی یعنی علی میاں کی خدمت کرنے کیلئے کہا گیا۔ ان کو ایئرپورٹ سے ریسیو کرنا، ہمدرد کے اسکالرز ہاوس میں ٹھہرانا اور واپسی تک انکی دیگر ضروریات کا خیال رکھنے کے علاوہ سیمنار وغیرہ کا مواد ان تک پہنچانا میری ذمہ داری تھی۔ علم کے اس سمندر کی جوتیاں سیدھی کرنے کی سعادت نصیب تو حاصل ہوئی، مگر اس سے قبل عثمانی صاحب نے ایک کونے میں لے جاکر میرے گوش گزار کردیا کہ علی میاں کا خیال رکھنے کیلئے صرف اس وجہ سے انہوں نے مجھے منتخب کیا، کہ میں وقتاً فوقتاً کشمیر کے حالات سے مولانا کو آگاہ کرتا رہوں۔ کیونکہ حکومت ان کو اسلامی ممالک خاص طور پر سعودی عرب وغیرہ ایک غیر سرکاری سفیر کے بطور بھیج رہی تھی، تاآنکہ کشمیر کے سلسلے میں وہ بھارتی حکومت کے موقف کی تائید کریں۔ آج کے مقابلے ان دنوں سعودی عرب و ایران کا موقف کشمیر کے معاملے میں بھارت کے تئیں خاصا سخت تھا۔ علی میاں کے بارے میںبھارتی وزارت خارجہ اور انٹیلی جنس ذرائع کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کا شاہی خاندان ان کا خاصا معتقد ہے۔ شاہ خالد اور شاہ فہد خاص طور پر محل کے دروازے پر آکر ان کو خو ش آمدید کرتے تھے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے کہ اس سیمینار کا موضوع کرنسی نوٹ یا اقتصادی امور سے متعلق کچھ امور تھے۔ ان موضوعات پر بحث کرنے سے قبل فقہ پر دسترس رکھے والے علماء کی سہولت کیلئے پہلا سیشن ریزور بینک آف انڈیا کے ڈپٹی گورنر اور چند دیگر ماہر معاشیات کا تھا، جنہوں نے موجودہ معاشی ڈھانچہ کے مختلف پہلوئوںپر روشنی ڈالی۔ اسکے بعد ہی علماء نے بحث و مباحثہ شروع کیا اور ان کی مد د کیلئے ماہرین معاشیات موجود رہے۔ بحث و مباحثہ کیا تھا ، بس علم و فضیلت کے دریا بہہ رہے تھے۔ چند برس قبل شمال مشرقی صوبہ آسام کے شہر بدر پور میں ان کی کاوشوں سے ایک غیر معمولی اجلاس منعقد ہوا جس میں سو سے زیادہ اسکالروں اور مفتیوں نے شرکت کی جن میں ایران اور سعودی عرب کے مندوبین بھی شامل تھے۔ اس نشست کا موضوع 'وحدت امت‘ تھا۔ تین دن پر محیط بحث و مباحثہ کے بعد اتفاق رائے سے بتایا گیا کہ وحدتِ امت کو نقصان پہنچانے والے اختلافات اس وقت کا بڑا مْفسِدہ ہے، جس کے باعث امت مسلمہ بدحال ہے۔ اختلاف کی وہ تمام صورتیں جو فطری اور محمود ہیں، ہرگز نقصان رساں نہیں، لیکن وہ بھی اگر شرعی حدود کی رعایت کے ساتھ نہ ہوں تو امت کے لئے زہر ہیں۔ جو اختلافات مذموم ہیں، کتنے ہی اچھے جذبہ سے ہوں وہ بہرحال غیر شرعی ہیں۔ ان کے مطابق اس وقت شیعہ سنی اختلافات بھیانک شکل اختیار کرچکے ہیں، ان کی بنیاد پر امت مسلمہ بدترین جنگ اور خونریزی میں مبتلا ہے اور دشمنان اسلام نے منصوبہ بندی کرکے ان اختلافات کو بھڑکا کر عالم اسلام میں تباہی مچا رکھی ہے۔ اسلام اس کی قطعاً اجازت نہیں دیتا اور اس کو فساد فی الارض سے تعبیر کرتا ہے۔ اس وقت عالم اسلام کے مختلف ملکوں میں شیعہ سنی آویزش جو شکل اختیار کر چکی ہے اس کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔ اس کو روکنے کے لئے مصالحتی کوششیں اور مذاکرات ہی واحد حل ہے۔ (جاری ہے)