دہائی تو ہی گئی ابھی اسلام آباد ایئر پورٹ پر اترا ہی تھا… کہ ایس ایم ایس کی لائن لگ گئی ۔اجمل خٹک اب ہم میں نہیں رہے۔اسلام آباد کے بجائے گاڑی کا رخ اکوڑہ خٹک کی طرف موڑ دیا۔ شدید بارش میں اکوڑہ خٹک میں پہنچتے پہنچتے دو گھنٹے لگ گئے۔اجمل خٹک کی تدفین کے انتظامات ایک اسکول کے احاطے میں ہو رہے تھے۔مرکزی دروازے پر دیکھا تو مولانا سمیع الحق اپنے صاحبزادے اور شاگردوں کے ساتھ آنے والے سوگواران سے بڑھ بڑھ پُرسا لے رہے ہیں۔ قوم پرست،اشتراکی ،شاعر،صحافی، سیاستدان طالبان کٹر مخالف اجمل خٹک کے سفر آخر میں طالبان کے سب سے بڑے حامی مذہبی رہنما مولانا سمیع الحق کا اس طرح موجود ہونا پشتون معاشرے کی روایت کا مظہر تو تھا ہی مگر اس سے مولانا سمیع الحق کی شرافت،اور عظمت کا بھی میں قائل ہوا۔مولانا سمیع الحق سے اسکرین کے حوالے سے گاہے بہ گاہے ملاقات رہتی…اور اکثر تلخ اور ترش گفتگو ہوتی۔مگر پروگرام کے بعد مولانا بڑی خوش مذاقی سے کہتے۔آپ ہمارے مدرسے کب آرہے ہیں۔بریلویوں کے آنے سے اچھا تاثر جائے گا۔ میں ازراہِ مذاق کہتا…اچھا 12ربیع الاول کو آؤں گا۔میلا د کا اہتمام رکھئیے گا۔’’ضرور ،ضرور‘‘کہہ کر زور دار قہقہہ لگاتے۔مولانا نے اکوڑہ خٹک میں بڑھ کر گلے لگایا تو بڑی افسردگی سے کہا۔آپ آئے بھی تو ایسے دن جب میرا عزیز دوست ہم سے بچھڑ گیا۔میلاد کا اہتمام تو نہیں ہو سکے گا۔ مگر کھانا کھائے بغیر نہیں جائیے گا۔ساتھ کھڑے بیٹے سے تاکید کی۔’’بریلوی صاحب بغیر کھانا کھائے نہیں جائیں گے۔‘‘قوم پرست اشتراکی شاعر ،سیاست دان طالبان کے کٹر مخالف اجمل خٹک کے سفرِ آخر میں فادر آف افغان طالبان مولانا سمیع الحق کا گھر کے ایک بزرگ کی طرح آنے والے مہمانوں کا اس طرح شریک غم ہونا پشتون معاشرے کی اعلیٰ روایت کا تو مظہر تھا ہی مگر مولانا سمیع الحق اپنی شخصیت اور سیاست میں یوں بھی ایک منفرد مقام رکھتے تھے۔مولانا سمیع الحق کے والد مولانا عبدالحق نے 1947ء میں اکوڑہ خٹک میں محدود وسائل اور مختصر قطع اراضی پر مدرسے کی بنیاد رکھی۔اور پھر مہینوں ،برسوں میں یہ صوبے کا ہی نہیں بلکہ پورے ریجن کا سب سے بڑا دینی مدرسہ بن گیا۔مولانا عبد الحق محض عالم دین ہی نہیں تھے بلکہ صوبہ سرحد کے دیگر علمائے کرام کی طرح قومی سیاست میں بھی بھرپور حصہ لیتے تھے۔1970ء میں اس وقت کے صوبہ سرحد میں جمعیت علمائے اسلام، نیشنل عوامی پارٹی کے بعد دوسری بڑی جماعت تھی ۔ مولانا عبد الحق جمعیت علمائے اسلام کے ٹکٹ پر 1973ء سے 1977ء تک رکن قومی اسمبلی رہے۔1977ء کے متنازعہ الیکشن میں بھی وہ اکوڑہ خٹک سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور پھر 1985ء کے غیر جماعتی الیکشن میں بھی انہوں نے کامیابی حاصل کی۔مولانا عبد الحق کے سیاسی میدان میں ہوتے ہوئے مولانا سمیع الحق سیاسی طور پر بہت نمایاں طور پر تو سامنے نہیں آئے تھے ۔البتہ جنرل ضیاء الحق کی مجلس ِ شوریٰ کے وہ رکن رہے۔اور 1985ء سے 1991ء کے دوران سینیٹ کے رکن بھی رہے۔1988ء میں مولانا عبدالحق کے انتقال کے بعد مدرسہ اکوڑہ خٹک کا سارا انتظام ہی نہیں بلکہ مولانا سمیع الحق کے پاس ان کی سیاسی وراثت بھی آگئی تھی۔جمعیت علمائے اسلام میں ان کا مولانا فضل الرحمن سے ’’دوستی اور مخالفت کا رشتہ ‘‘ ساتھ ساتھ چلتا رہا۔کبھی حکومت مخالف جلسوں میں اسٹیج پر شیر و شکر تو کبھی انتخاب میں ایک دوسرے کے مخالف ۔مولانا سمیع الحق نے جمعیت علمائے اسلام (س) بنائی اورمولانا فضل الرحمان کی ڈٹ کر سیاسی مخالفت بھی کی۔مگر ذاتی سطح پر ان کا تعلق مولانا فضل الرحمان سے کبھی نہیں ٹوٹا۔مگر 2013ء کے الیکشن کے آتے اُن کے راستے مولانا فضل الرحمان سے مکمل طور پر جدا ہوگئے تھے۔مولانا سمیع الحق اپنے مدرسے کے پڑھے مگر سیاسی قد کاٹھ میں بڑے مولانا فضل الرحمن کی مخالفت میں تحریک انصاف کے قائد عمران خان سے پہلو لگا کر بیٹھ گئے۔سینیٹ کے الیکشن میں تحریک انصاف کا مولانا سمیع الحق کو عمر کے آخری پہر میں ٹکٹ نہ دینا یقینا ایک بڑی نا انصافی تھی۔مولانا سمیع الحق کی رحلت کی یاد کیوں کہ ابھی تازہ ہے ،اس لئے افغان جنگجوطالبان کی سر پرستی میں جو ان کا اور ان کے مدرسے کا کردار رہا… اس کی بہت زیادہ تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔مگر ایک دینی اور سیاسی قائد کی حیثیت میں پاکستانی ریاست کے مقابلے میں پاکستانی ریاست کو ملیا میٹ کرنے والے جنگجو پاکستانی طالبان اور ان کے لشکروں کی جو انہوں نے دامے ،درمے سخنے مذمت کی۔ اُس کا ذکر کئے بغیر بھی مولانا سمیع الحق کی دینی اور سیاسی شخصیت پر گفتگو مکمل نہیں ہوسکتی ۔مولانا سمیع الحق سینہ ٹھوک کر برسر منبر فخریہ کہا کرتے تھے کہ … ’’طالبان‘‘ اُن کے بچے ہیں اور وہ ان کے فادر بلکہ گاڈ فادر ہیں۔طالبان حکومت کے امیر ملا عمر ہی نہیں بلکہ طالبان کی پہلی کابینہ کے کم از کم 12وزیر مولانا سمیع الحق کے مدرسے اکوڑہ خٹک کے سند یافتہ تھے۔جن کا ذکر وہ بڑے فخر سے کیا کرتے تھے۔مگر پاکستانی طالبان انتہا پسندی اور مذہبی تعصب میں اتنے آگے بڑھ گئے کہ انہوں نے معصوم و بے گناہ مسلمان بچوں ،بوڑھوں اور عورتوں تک کو خون میں نہلانے پر کبھی پشیمانی کا اظہا ر نہیں کیا۔پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں دہشت گردوں نے جس بربریت اور درندگی کا مظاہرہ کیا اس کی مثال کرۂ ارض کی تاریخ میں کم ہی ملے گی۔ مولا نا سمیع الحق نے پاکستان کی سرزمین پر ہونے والے ہر قسم کے خود کش حملوں کو حرام قرار دیا تھا۔ مولانا سمیع الحق کو بھی اس کا بڑی شدت سے احساس ہوگیا تھا۔اور عملی طور پر انہوں نے پاک افغان مذاکرات سے عملی طور پر خود کو الگ بھی کر لیا تھا۔ایک عالم دین کی حیثیت سے وہ ایک سند کا درجہ رکھتے تھے۔مگر ایک سیاست دان کی حیثیت سے وہ خامیوں اور غلطیوں سے مبرا نہیں تھے۔اگر دونوںکو ایک پلڑے میں رکھا جائے تو یہ کہنا مشکل ہوگا کہ کون سا بھاری ہے۔