میں نے ان کو پہلی بار اکوڑہ خٹک ہی میں دیکھا تھا۔ ان کی وہ تصویر ذہن میں ایسے نقش ہوئی کہ آج تک تازہ ہے۔ ہم اسلام آباد سے غالباً وارسک میں قائم افغان مہاجر کیمپ میں جا رہے تھے کہ اچانک صلاح الدین صاحب نے کہا کیوں نہ راستے میں اکوڑہ خٹک چند لمحوں کے لیے رک جائیں۔ یہ ایک طرح کا مطالعاتی دورہ تھا۔ غالباً میجر ابن الحسن صاحب بھی ساتھ تھے۔ دو چار دوست اور بھی تھے۔ ایسی عمدہ تجویز سے کون انکار کر سکتا تھا۔ افغان جہاد اپنے عروج پر تھا اور دارالعلوم حقانیہ کی شہرت ایسی تھی کہ اسے افغان مجاہدوں کا جی ایچ کیو کہا جاتا تھا۔ مولوی یونس خالص‘ جلال الدین حقانی اور تحریک جہاد کے بڑے بڑے رہنما یہاں کے طالب علم رہ چکے تھے۔ دراصل یہ اس پورے خطے میں علوم اسلامیہ کی سب سے بڑی یونیورسٹی تھی۔ جب برصغیر کی تقسیم ہوئی تو اسلامیان ہند کی میراث کی تقسیم کا بھی مسئلہ پیدا ہوا۔ برصغیر کی بڑی بڑی اسلامی درسگاہیں اس سرزمین پررہ گئی تھیں جو اب بھارت کا حصہ تھیں ۔فیض کے وہ سرچشمے اس پاک سرزمین پر پہنچے تو جگہ جگہ اپنا رنگ دکھانے لگے۔ دیو بند مکتب فکر میں فکری طور پر دو دبستان تھے۔ ایک وہ جو مولانا اشرف علی تھانوی ؒکا مکتب فکر تھا اور پاکستان کا حامی تھا۔ مولانا ظفر احمد عثمانی ؒاور مفتی محمد شفیع ؒنے کراچی کا رخ کیا۔ مفتی محمد شفیع ؒصاحب نے دارالعلوم کورنگی کی بنیاد رکھی اور دیکھتے دیکھتے یہ اتنا بڑا ادارہ بن گیا کہ آج وہ علوم اسلامیہ کی بہت بڑی یونیورسٹی ہے۔تاہم دیو بند کی وہ روایت جو سیاسی اعتبار سے تو تشکیل پاکستان کی حامی نہ تھی۔اس کے علماء نے بھی جگہ جگہ دینیات کے چراغ روشن کئے۔ کراچی میں نیو ٹائون کا مدرسہ اتنا بڑا بن گیا کہ دنیا بھر سے لوگ وہاں تعلیم حاصل کرنے آتے۔ ان کے سربراہ مولانا یوسف بنوریؒ کے نام پر نیو ٹائون کا نام بھی نبوری ٹائون رکھ دیا گیا۔ وہ تحریک ختم نبوت کے سربرآوردہ قائدین میں سے تھے۔ خیبر پختونخواہ کے علاقے میں اکوڑہ خٹک میں مولانا عبدالحق نے ایک ایسی مضبوط بنیادوں والی درس گاہ بنائی کہ اس علاقے میں علم کا شوق رکھنے والا ادھر کا رخ کرتا۔ پاکستان کے پختون علاقے ہی میں نہیں‘ افغانستان میں بھی اس مکتب فکر کی کوئی اور درسگاہ نہ تھی۔جس نے بھی علم حاصل کرنا ہوتا وہ ادھر کا رخ کرتا۔ مولانا عبدالحق کی ایک سیاسی پہچان بھی بن گئی تھی۔وہ 70ء میں قومی اسمبلی کے رکن بھی تھے۔ اس اسمبلی میں پروفیسر غفور احمد‘ شاہ احمد نورانیؒ‘ مولانا مصطفی الازہری‘ مولانا ظفر احمد انصاری اور جانے کتنے اہم ارکان تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہماری قانون ساز اسمبلی کو ختم نبوت کے مسئلے سے دوچار ہونا پڑا۔ میں دور نکل گیا۔ بتانا یہ تھا کہ اکوڑہ خٹک میں رکنے کا خیال اس لئے آیا کہ افغان جہاد میں اس کے طلبہ کا کردار اس وقت بھی نمایاں تھا۔ یہ تب کی بات ہے جب طالبان کی ابھی پیدائش بھی نہ ہوئی تھی۔ مولانا عبدالحق ؒانتقال کر چکے تھے۔ ان کے بیٹے سمیع الحقؒ کے بارے میں مرا تاثر یہ تھا کہ یہ بڑے باپ کی میراث کے امین ہیں تو جانے یہ اس مرتبے کے شایان شان ہیں یا نہیںمیں نے کہا کہ میں ان کی وہ تصویر اب تک نہیں بھولا۔ صلاح الدین صاحب سے تو ان کی خاص ملاقاتیں تھیں۔ مگر ہم لوگوں کے نام سن کر بھی ایسے جھوم اٹھے جیسے بہت بڑی دولت مل گئی ہو۔خوشی خوشی ایک ایک جگہ‘ ایک ایک چیز دکھاتے رہے۔ لائبریری میں لے گئے۔ دارالعلوم کا کچن دکھایا‘ باتیں کرتے ہوئے مدرسے کے پیچھے لے گئے۔ اور انگلی کے اشارے سے بتایا‘ وہ سامنے دریا کے اس بار دیکھ رہے ہو۔ یہ بالا کوٹ ہے۔ میں بالاکوٹ کے مجاہدین کی حکمت عملی کے بارے میں فکری طور پر بعض تحفظات رکھتا ہوں مگر اس لمحے مجھے یوں لگا کہ سمیع الحق کہہ رہے ہوں‘ تم اس افغان جہاد کی بات کرتے ہو۔ہماری تاریخ تو اس کی لمبی داستان رکھتی ہے۔ اس کے بعد مولانا سمیع الحق سے جب جب ملاقات ہوئی وہ اس منظر کی مجسم تصویر نظر آئے۔ہمیشہ ایسے تپاک سے ملتے جیسے روز کا ملنا جلنا ہے۔ وہ اس دفاع پاکستان کونسل کے صدر تھے جس کے حافظ سعید نائب صدر ہیں۔ ملی یکجہتی کونسل بنی تو شاہ احمد نورانی کی صدارت میں وہ سیکرٹری جنرل تھے۔ اپنے موقف کے پکے مگر دین کا نام لینے والوں کے بلا تفریق مسلک محبت کرنے والے۔ انہوں نے افغان جہاد کے بارے میں کبھی لگی لپٹی نہیں رکھی۔ اس لیے ان کی باتوں میں سچائی کی ایک مہک تھی۔ جب طالبان وجود میں آئے تو انہوں نے صاف کہا کہ وہ اپنے وطن کی آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں۔ یہ امریکی یہاں کیا کرتے پھر رہے ہیںمگر اس کے ساتھ پاکستانی طالبان کے خودکش حملوں کی مذمت کرتے تھے اور کہتے تھے کہ افغانستان میں تو جہاد ہے۔ مگر پاکستان میں یہ لوگ کیا کر رہے ہیں۔ یہاں تو آئین کی حکمرانی ہے۔ اس کے باوجود ان کا احترام کیا جاتا تھا۔ انہیں استاد اور باپ کا درجہ دیا جاتا تھا۔ جب اسامہ بن لادن کا نام لینا بھی گناہ ہو گیا تھا تو ان سے پوچھا گیا‘ مولانا آپ کبھی اسامہ سے ملے ہیں بے ساختگی سے کہا۔ ہاں یہ جوان ادھر پشاور میں رہتا تھا۔ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے۔ ملا عمر انہیں اپنا استاد کہتے تھے۔ یہ بتاتے تھے کہ وہ دارالعلوم حقانیہ میں طالب علم رہا ہے۔ مگر تعلیم مکمل کئے بغیر چلا گیا تھا۔ ملا عمر کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ بنوری ٹائون کے استاد نظام الدین شامزئی کے بھی شاگرد تھے۔ ایک بارکوشش کی گئی کہ ان کی رائے پر اثر انداز ہونے کے لیے انہیں بھیجا جائے۔ مگرکوئی فائدہ نہ ہوا۔ سیاست اپنی اپنی ہوتی ہے۔ شاید سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا‘ اب تو خیر دماغ بھی نہیں ہوتا۔ مولانا فضل الرحمن بھی تو مدرسہ حقانیہ کے فارغ التحصیل ہیں۔ مگر سیاست میں ان کی راہیں جدا ہیں۔ جلال الدین حقانی کے بارے میں تو سمیع الحق بیان کر چکے ہیں کہ یہ یہاں کا طالب علم بھی تھا اور استاد بھی۔ جب افغانستان کے حالات بگڑے تو مولانا عبدالحق نے کہا کہ جائو‘ تمہارے وطن کو تمہاری ضرورت ہے۔ یہ وہی جلال الدین حقانی ہیں جن کی نسبت سے حقانی نیٹ ورک کا چرچا ہے۔ مولانا سمیع الحق ایسے انگاروں کے درمیان رہے مگر طبیعت میں ایک عجب ٹھنڈک تھی: ہم دشمن کے دشمن جاں ہیں‘ ہم یاروں کے یار ہم سورج کی جلتی کرنیں‘چاند کی نرم پھوار مولانا کے بارے میں کہتے ہیں‘ انہوں نے بندوق تک نہیں اٹھائی۔ہمیشہ آئین پاکستان سے وفاداری کی۔ طالبان کے اکثر دھڑے ان کا آج بھی احترام کرتے ہیں۔جب پاکستان کی حکومت نے نواز شریف کے زمانے میں مذاکرات کا ڈول ڈالا‘ تو مولانا سمیع الحق کو بنیادی اور کلیدی کردار کی زحمت کی انہوں نے بہت کچھ لکھا۔ مذہبی بھی اور سیاسی بھی۔ مگر یہ داستان لکھنے کا موقع ہی نہیں آیا۔ یہ تاریخ تو تب لکھی جا سکتی تھی جب یہ مشن مکمل ہو جاتا۔ جنگ ختم ہو جاتی۔ روسیوں کی رخصتی کے بعد امریکی بھی رخصت ہو جاتے۔ مگر ابھی اس کا وقت نہ آیا کہ موت نے آن لیا۔ وہ اس دھرنے میں بیٹھنے والوں سے بھی متفق تھے جو آج کل میدان میں تھے۔ شاید وہ ان کے اجتماع میں بھی جانا چاہتے تھے‘ مگر سڑکوں کی بندش نے موقع نہ دیا۔ مگر اللہ نے یہ کرم کیا کہ شاید ان کی شہادت نے ملک میں امن کی راہیں کھول دیں۔