ہمارے دوست عدیم ہاشمی نے کہا تھا: غم کی دکان کھول کے بیٹھا ہوا تھا میں آنسو نکل پڑے ہیں خریدار دیکھ کر کچھ ایسی صورت حال میرے پیارے وطن کی ہے جتنا سوچتے ہیں‘ سوچ کے دھاگے الجھتے جاتے ہیں کبھی سوچا کرتے تھے کہ کہانی میں یہ کیسا بے وقوف شخص ہے جو اسی شاخ کو کاٹ رہا ہے جس پر وہ خود بیٹھا ہے کوئی اپنے ہی لیے گڑھا کیسے کھود سکتا ہے اور کوئی اپنے سامنے اپنے ہی جیسے شخص کو مرتے ہوئے کون دیکھ سکتا ہے۔ جبکہ وجہ بھی نظارہ کرنے والا ہو۔ ہم نے سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ عقل گنگ ہو گئی‘ حواس شل اور ادراک لاپتہ۔ کہاں خالد احمد یاد آئے: شہر جاگے تو ہمیں خون میں تر دیکھیں گے سنگ آنکھیں نہیں رکھتے ہیں کہ سر دیکھیں گے اپنے ہی شہر کا نوحہ لکھنا کس قدر اذیت ناک عمل ہے شاعراس وقت کیسے لکھے؟ اس پر کچھ نہیںکھلتا۔ اس کے دل پر زخم لگتے گئے اور درمیان میں ایک اور گہرا گھائو آن پڑا۔ ابھی کل کی بات ہے کہ جب ہم ظہیر الدین بابر کے جنازے کے لیے ملٹری اکائونٹس کے ساتھ ملحقہ قبرستان میں کھڑے تھے اور مولانا سمیع الحق ناسازی طبع کے باوجود خاص طور پر اکوڑا خٹک سے جنازہ پڑھانے کے لیے آئے تھے ۔انہوں نے جنازہ سے پہلے مختصر سا خطاب کیا اور ظہیر الدین بابر کی اسلام کی اشاعت کے لیے خدمات کا تذکرہ کیا اور کہا کہ اس جنازے میں بے شمار علماء بھی شریک ہیں۔ جنازے کے بعد میں انہیں بہت قریب سے دیکھ رہا تھا‘ ہاتھ ملانے والے انہیں آگے بڑھنے نہیں دے رہے تھے۔ وہ مسکراتے ہوئے ہاتھ ملاتے گئے۔ اس سے پہلے بھی وہ ظہیر صاحب سے ملنے آتے اور ظہیر صاحب اکوڑہ خٹک ان سے ملنے جاتے۔ یہ سارا منظر اسی طرح میری آنکھوں میں ترو تازہ ہے مگر اس کا رنگ بدل کر سرخ ہو گیا ہے ان کی عزت اور قدر لوگوں کی نظر میں بہت زیادہ تھی کہ وہ مولانا فضل الرحمن سے الگ سوچ رکھتے تھے کھرے اور سچے آدمی۔ آپ مشفق کا لفظ بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ طالبان انہیں اپنا باپ کہتے تھے وہ طالبان کے خلاف پراپیگنڈا کو مسترد کرتے تھے۔ وہ عمران خان کی رائے کے حامی تھے کہیں تو وہ عمران خاں کے ساتھ کھڑے تھے۔ امریکہ ان کی اہمیت سے واقف تھا۔ ان کی صاف گوئی پر مشتمل ایک کلپ اب بھی وائرل ہے جس میں ان کی آقا ﷺ سے محبت ہویدا ہے۔ وہ ختم نبوت کے حوالے سے کس قدر سخت اور بے لچک موقف رکھتے تھے۔ پھر عدیم ہاشمی یاد آیا: مصالحت نہ سکھا جبر ناروا سے مجھے میں سربکف ہوں لڑوادے کسی بلا سے مجھے دفاع پاکستان کے لیے انہوں نے باقاعدہ ایک محاذ بنا رکھا تھا جس میں محب وطن لوگ ایک گو نہ آسودگی محسوس کرتے تھے۔ یہ چند لوگ ہی تو نظریہ کے عملی محافظ تھے ان کے مدرسہ حقانیہ کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ میں نے میجر عامر سے ان کی بہت تعریف سنی تھی۔ ہمارے دل کی دل میں رہی کہ ان کے ساتھ ڈھیر ساری باتیں کریں اور کچھ سیکھیں۔ میں اسے گھر کی بات سمجھتا رہا کہ ظہیر الدین بابر کے ساتھ روز کا اٹھنا بیٹھنا تھا۔ کس کو معلوم ہوتا ہے کہ کیا ہو جائے گا لگتا ہے کہ ان کی ریکی کی جا رہی تھی اور پھر موقع پیدا کیا گیا کہ جب لوگ ان کے پاس نہیں تھے اس سانحہ کو پورے ملک میں بہت زیادہ محسوس کیا گیا ہے کہ وہ ایسے محب وطن تھے کہ جن کے بارے میں کہا جا سکتا ہے: ہیں ابھی شہر میں ناموس پہ مرنے والے جینے والوں کے لیے اتنا سہارا ہی سہی ان کے جنازے میں پاکستان ہی نہیں دوسرے اسلامی ملکوں سے بھی وفد آئے۔ نماز جنازہ ان کے بیٹے حامد الحق نے پڑھائی۔ خیبر پختونخواہ میں سوگ‘ قومی پرچم سرنگوں۔ حامد میر کہہ رہا تھا کہ کچھ عرصہ قبل انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ انہیں شہادت نصیب ہو جائے۔ اب اتفاق دیکھیے کہ وہ بیمار بھی رہے مگر انہیں شہید کر دیا گیا انہوں نے بھر پور زندگی بسر کی۔ وہ سیاستدان کم مصلح زیادہ تھے اور وہ افغانستان میںپاکستان کا عمل دخل چاہتے تھے۔ اشرف شریف نے اپنے کالم میں جو سٹریٹجک پہلو کا تذکرہ کیا ہے وہ غلط نہیں وہ عالمی قوتوں کی نظر میں کھٹکتے تھے کہ انہیں طالبان میں بہت توقیر اور وقار حاصل تھا۔ ایک سچے عالم دین کا چلا جانا یقینا ایک بہت بڑا نقصان ہے۔آخر میں حبیب تلونڈوی کی نعت کا ایک بند: اے نبیؐ امیّ لقب اے وارثِ ام الکتاب اے عرب کے ماہِ روشن ‘ اے عجم کے آفتاب آیۂ اناّ فتحنا شانِ محبوبی تری حسن کی معراج ہے ہر حسن ہر خوبی تیری تیرے آنے سے اندھیروں میں اجالا ہو گیا تیرے دم سے دین حق کا بولا بالا ہو گیا