علمائے کرام کا احترام ہماری گھٹی میں پڑا ہوا ہے۔ والد گرامی مولانا گلزار احمد مظاہریؒ اپنے ایام جوانی میں علی گڑھ یونیورسٹی تعلیم حاصل کرنے گئے تھے مگر ان کی فکری گاڑی نے کانٹا بدلا اور وہ جب واپس بھیرہ پہنچے تو وہ جامعہ دارالعلوم سہارنپور سے باقاعدہ سند یافتہ عالم دین تھے۔ وہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی کتب، فکر اور شخصیت سے بہت متاثر ہوئے اور انہوں نے جماعت اسلامی میں شرکت کرلی۔ وہ جماعت اسلامی کے سینئر رہنما تھے مگر وہ ہر مکتب فکر کے عالم دین سے گہرا قلبی تعلق رکھتے تھے اسی لیے جماعت اسلامی میں رہتے ہوئے بھی انہوں نے جمعیت اتحاد العلماء قائم کی۔ جمعیت اتحاد العلماء کے قیام اور 1960ء کی دہائی کے مشرقی و مغربی پاکستان میں اس کی وسعت اور قبولیت کے لیے وہ جن علمائے کرام کی خدمت میں رہنمائی کے لیے حاضر ہوا کرتے تھے ان میں دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے مدارالمہام مولانا عبدالحق، شیخ الحدیث مولانا محمد چراغ اور مفتی سیاح الدین کاکا خیل جیسی انتہائی واجب الاحترام شخصیات شامل تھیں۔ ہمارے غریب خانے پر جب کبھی مولانا محمد چراغ یا مفتی سیاح الدین کاکا خیل تشریف لاتے تو والد گرامی ہم بچوں کو بھی ان کی زیارت کا موقع دیتے اور ہمیں عملی تربیت دیتے کہ واجب الاحترام علمائے کرام کا کس طرح ادب و احترام کیا جاتا ہے۔ انہی مجالس میں ہم نے والد گرامی سے اکوڑہ خٹک کے شیخ الحدیث مولانا عبدالحق کا ذکر خیر سنا۔ بعدازاں والد گرامی کا مولاناعبدالحق کے صاحبزادے مولانا سمیع الحق سے بھی شفقت و محبت کا رشتہ قائم ہوگیا۔ مولانا سمیع الحق والد گرامی کا بے حد احترام کرتے تھے اور بعدازاں بھائی فرید پراچہ سے اس شفقت و مودت کا اظہار مولانا سمیع الحق فرمایا کرتے تھے۔ اگرچہ مولانا سمیع الحق ایک سیاست دان بھی تھے، سینیٹر بھی رہے، وہ ایک سکالر بھی تھے، وہ بہت بڑا سماجی مقام و مرتبہ بھی رکھتے تھے مگر ان کی سب سے نمایاں شان اور پہچان ایک عالم دین کی حیثیت سے تھی۔ وہ کئی برس سے غیر اعلانیہ طور پر سیاست ترک کر چکے تھے اور زیادہ وقت دارالعلوم اکوڑہ خٹک میں درس و تدریس اور تصنیف و تالیف کودیتے تھے۔ مولانا اپنے والد محترم شیخ الحدیث مولانا عبدالحق کی پیروی کرتے ہوئے فرقہ واریت کو اپنے قریب بھی نہ پھٹکنے دیتے۔ وہ مسالک کی نہیں وحدت کی بات کرتے تھے، وہ تنگ نظری کی نہیں وسعت قلبی کی بات کرتے تھے۔ یہی مولانا کی سب سے بڑی خوبی تھی۔ وہ دلوں کو توڑنے کا نہیں دلوں کو جوڑنے کا کام کیا کرتے تھے۔ دینی جماعتوں کے سب سے موثر اتحاد متحدہ مجلس عمل کے قیام میں ان کا کلیدی کردار تھا۔ مولانا سمیع الحق کے والد گرامی مولانا عبدالحق متعدد بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ وہ اپنے حلقے میں انتہائی محبوب محترم شخصیت سمجھے جاتے تھے۔ 1970ء میں مولانا عبدالحق اجمل خٹک جیسے بڑے سیاستدان کو شکست دے کر قومی اسمبلی کے ایوان میں پہنچے جہاں انہوں نے حق گوئی کی اعلیٰ و ارفع مثالیں قائم کیں۔ دوسری بار وہ 1977ء میں اس دورکے سابق وزیراعلیٰ کے پی کے نصراللہ خٹک کو شکست دے کر کامیاب ہوئے۔ وہ علم و عرفان، حکمت و دانش، عزم و استقلال اور خلوص و خیر خواہی کا مرقع تھے۔ مولانا سمیع الحق اس لحاظ سے خوش قسمت تھے کہ انہیں نہ صرف اپنے والد گرامی سے سیاست، شہرت اور عزت ورثے میں ملی بلکہ انہیں ان صفات میں سے بھی بہت بڑا حصہ ملا جن کی بنا پر ان کے والد مرجع خلائق تھے۔ مولانا عبدالحق کا جنازہ بہت بڑا تھا۔ اسی طرح مولانا سمیع الحق کے جنازے میں تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندے اور تمام دینی مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام شامل تھے۔ علمائے کرام کے جنازے ان کی صداقت کا بہت بڑا ثبوت ہوتے ہیں۔ امام احمد بن حنبلؒ سنی مکتب فکر کے انتہائی واجب الاحترام عالم دین تھے۔ ان کا عرب و عجم میں بے حد احترام کیا جاتا تھا۔ وہ عالم باعمل تھے۔ خلیفہ معتصم معتزلہ کے مسئلہ خلق قرآن میں ان کے ساتھ تھا اور اس معاملے میں قرآن و حدیث سے ثابت شدہ کسی دوسری دلیل یا رائے کو سننے پر بھی آمادہ نہ تھا۔ جب امام احمد بن حنبل نے معتصم کی رائے سے علی الاعلان اختلاف کیا تو خلیفہ کے حکم پر امام محترم کوڑے مارے گئے۔ انہیں حق کی پاداش میں صعوبتیں دی گئیں۔ جیل کی تنگ و تاریک کوٹھڑیوں میں ان کے پائوں میں بیڑیاں ڈال کر انہیں اذیتیں دی جاتی تھیں مگر ہمت کے اس کوہ گراں نے اپنے موقف میں سرمولچک بھی پیدا کرنے سے انکار کردیا۔ جب حکومت کے بعض کارندے ان سے کہتے کہ آپ کس ذلت میں ہیں اور خلیفہ کو کیا عزت حاصل ہے تو وہ صرف اتنا کہتے کہ ہمارے اور تمہارے آقائوں کے درمیان ہمارے جنازے فیصلہ کریں گے اور تاریخ کی گواہی یہی ہے کہ جب اگست 855 ء میں امام احمد بن حنبل کا انتقال ہوا تو چشمِ فلک نے ان کے جنازے جیسا جنازہ کبھی نہ دیکھا تھا۔ اس زمانے کے بغداد میں ان کے جنازے میں 8 لاکھ افراد نے شرکت کی۔ اسی طرح جماعت اسلامی پاکستان کے بانی، مفسر قرآن ممتاز عالم دین کہ جنہیں بارہا قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں حتیٰ کہ انہیں ایک فوجی عدالت نے سزائے موت بھی سنا دی اور انہیں موت کے قیدیوں کا جوڑا بھی پہنا دیا تھا مگر انہوں نے معافی کی درخواست پر دستخط کرنے سے انکار کردیا۔ جب 25 ستمبر 1979ء میں مولانا مودودی کی نماز جنازہ ادا کی گئی تو اس میں لاکھوں لوگوں نے پاکستان کے طول و عرض سے شرکت کی۔ یہ بھی تاریخ کا دلچسپ کرشمہ تھا کہ کبھی فوجی عدالت سے سزائے موت پانے والے عالم دین کے جنازے کی صف اول میں اس وقت کا فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق بھی موجود تھا۔ بہرحال مولانا سمیع الحق کو انتہائی بے دردی سے ناحق ان کے بیڈروم میں جمعۃ المبارک کو قتل کردیا گیا۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے میں نے ممتاز دفاعی تجزیہ کار اور صوبہ خیبر پختونخوا کی سب سے زیادہ باخبر شخصیت میجر عامر سے رابطہ قائم کیا۔ میجر صاحب سے ہمارے بھی دلی اور دینی روابط ہیں۔ میں نے میجر صاحب سے پوچھا کہ ان کی رائے میں مولانا کے قتل کے پیچھے کیا محرکات ہیں اور کون سی قوتیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سچی بات یہ ہے کہ ابھی تک اس بارے میں کوئی مصدقہ خبر نہیں ملی مگر یہ بڑا ہی ظالمانہ، سفاکانہ اور انتہائی قابل مذمت اقدام ہے۔ میجر صاحب نے بتایا کہ خیبر پختونخوا میں دو بڑی دینی درس گاہیں ہیں۔ ایک اکوڑہ خٹک میں دارالعلوم حقانیہ اور دوسری پنج پیر میں دارالعلوم تعلیم القرآن جو ان کے والد گرامی مولانا محمد طاہر نے قائم کی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ دونوں درس گاہوں اور ان کے اکابر کے درمیان گہرے قلبی روابط موجود تھے۔ میجر عامر کے ذاتی طور پر بھی مولانا سمیع الحق کے ساتھ بڑے قریبی مراسم تھے۔ مولانا کی شہادت سے ایک بار پھر یہ بات ثابت ہو گئی کہ پاکستان میں شخصیت بڑی بلکہ بہت بڑی ہی کیوں نہ ہو اس کو ختم کیا جاسکتا ہے اور ایسی اندھی وارداتوں کے قاتلوں کا کوئی پتہ بھی نہیں چلتا چاہے وہ لیاقت علی خان کا قتل ہو یا بینظیر بھٹو کا قتل ہو اور اب مولانا سمیع الحق کا قتل ہو۔ ہم مولانا سمیع الحق کی مغفرت اور بلندی درجات کے لیے دعا گو ہیں۔