وزیر اعظم غربت میں کمی اور بدعنوانی کے خاتمہ کے گر سیکھنے چین گئے اور ملک میں ان کے ایک بڑے حامی مولانا سمیع الحق کو قتل کر دیا گیا۔ ہو سکتا ہے اس قتل کے محرکات نہائت معمولی اور مقامی ہوں مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ اس قتل کا فائدہ ان قوتوں کو پہنچے گا جو افغانستان میں پاکستان کا اثرورسوخ کم کرنا چاہتی ہیں۔ ہم جس دنیا میں رہتے ہیں وہاں بہت کچھ ہو رہا ہے۔ ہمارے اردگرد کھیتوں میں ہل چلائے جا چکے ہیں۔ اب وتر کا انتظار کیا جا رہا ہے کچھ جگہ گندم بوئی جا چکی ہے باقی لوگ ہفتہ دس دن میں یہ کام مکمل کر لیں گے۔ ممکن ہے ہم جہاں رہتے ہیں وہاں کوئی کارخانہ ہو جہاں روز صبح اور شام کے وقت کمزور جسموں اور زرد چہروں والے نوجوان قدم گھسیٹ گھسیٹ کر گھروں سے آتے اور جاتے ہوں۔ ہو سکتا ہے ہم جہاں کھڑے ہوں وہاں ایک مزدور کھانے پینے کی چیزوں سے بھری ریڑھی لگائے کھڑا ہو اور ایک بپھرا ہوا ہجوم اس کی کمائی اٹھا اٹھا کر اپنی طاقت دکھا رہا ہو۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ ہم افغان بارڈر کے قریب جنگل سے لکڑیاں کاٹ رہے ہوں اور اچانک افغانستان سے چند لوگ آئیں اور ہمیں دبوچ کر اپنے علاقے میں لے جائیں۔ اس دنیا میں بہت سے ایسے کام بھی ہوتے ہیں جو ہمارے اردگرد یا ہماری موجودگی میں نہیں ہوتے مگر وہ ہو رہے ہوتے ہیں۔ امریکہ کے ساتھ تحریک انصاف کی حکومت نے مذاکرات کی کھڑکی کھولی۔ یہ نہ پوچھئے گا کہ یہ مذاکرات ابھی تک ہوئے نہیں پھر کھڑکی کہاں سے کھل گئی۔ جب سے دنیا میں ٹی وی چینلز کی بہتات ہوئی ہے سفارت کاری ایک مشکل کام ہو گیا ہے۔ سفارت کار محتاط اور لگی لپٹی گفتگو کے ذریعے دھیرے دھیرے معاملات کی پرتیں کھولتے ہیں‘ ٹی وی رپورٹر مذاکراتی ایجنڈے کے بارے میں کچی پکی اطلاعات پر سوال تیار کرتا ہے اور پھر سوالات کا بارود لگا کر محتاط گفتگو کو اڑا دیتا ہے۔ اس عمل کا ارتعاش پیدا ہوتا ہے اور عموماً مذاکرات یا سفارتی بھاگ دوڑ ناکام رہ جاتی ہے۔ میڈیا خبر کی تلاش میں تنکا تنکا بنے ہوئے گھروندے کو پھر سے تنکا تنکا کر دیتا ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ اپنے انٹیلی چیف اور سیکرٹری خارجہ کے ہمراہ حالیہ برس افغان اور امریکی حکام سے مذاکرات کرتے رہے ہیں۔ افغانستان میں امن پاکستان کے مفاد میں ہے۔ ہم امریکہ کو یہ سمجھاتے رہے ہیں۔ اس فوجی سفارت کاری نے کچھ رکاوٹیں ختم کیں۔ پھر کچھ ہوم ورک دونوں جانب سے کیا گیا۔ افغانستان کا اپنا مطالبہ تو کچھ بھی نہیں شائد وہ تجارتی مال کے آنے جانے کی رعائتوں سے زیادہ کچھ نہیں چاہتے مگر جو امریکہ چاہتا ہے وہ بھی افغانستان کی زبان سے نکل رہا ہے۔ کئی بار ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ افغان بھائی ایسی لطیف سٹریٹجک نکتہ دانی کہاں سے سیکھ رہے ہیں ہم چونکہ ہر جگہ نہیں ہیں اس لیے یہ سمجھنے میں کافی وقت لگ جاتا ہے کہ صدر اشرف غنی جو بات کہہ رہے ہیں اس کا افغانستان سے کوئی تعلق نہیں تو کس سے تعلق ہے۔ بھارت کی قربت کے باعث پاکستان امریکی اشاروں کے ابلاغ کو غیر دوستانہ تصور کرتا ہے۔ یعنی امریکہ نے پاکستان سے جو بات کہنا ہو وہ بھی افغان حکام‘ بھارتی حکومت اور کبھی کبھی خود امریکی انتظامیہ کی جانب سے کہی جاتی ہے۔ امریکہ اور افغان حکام حقانی نیٹ ورک کی بات کرتے ہوئے تشویش زدہ ہو جاتے ہیں۔ بھارت حقانی نیٹ ورک پر زور دینے کی بجائے حافظ سعید‘ مولانا مسعود اظہر‘ ممبئی حملوں‘ سید صلاح الدین‘ حزب المجاہدین اور لشکر طیبہ کی بات کرتا ہے۔ بھارت نے اپنی لسٹ والے معاملات کو افغانستان سے جوڑ کر کشمیر کی جدوجہد آزادی کو امریکی مفادات کے خلاف تحریک بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی۔ پاکستان کے وزیر خارجہ جناب شاہ محمود قریشی دس روز تک امریکہ میں رہے۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا جسے ہم سب نے سنا مگر دس روز تک وہ بہت سے اداروں‘ حلقوں اور شخصیات سے ملتے رہے۔ انہوں نے بڑی عرق ریزی کے ساتھ کشمیر کے دھاگے افغانستان کی گنجلک ڈوروں سے الگ کرنے کی کوشش کی۔ اب ٹرمپ انتظامیہ چاہتی ہے کہ افغانستان میں امن اس شکل میں قائم ہو جو امریکہ کے مفادات کا تحفظ کر سکے‘ اس کی کئی صورتیں ہیں‘ ایک یہ کہ افغانستان میں امریکہ کے نامزد شخص کو جائز حکمران سمجھا جائے اور اس کے کہے کو امریکی کہا سمجھا جائے۔ دوسرا یہ کہ ان تمام طاقتوں کو افغان حکومت سے تعاون پر مجور کیا جائے جن پر پاکستان کا اثرورسوخ ہے۔ امریکہ نے صرف پاکستان سے بات نہیں کی بلکہ طالبان سے مذاکرات بھی جاری رکھے۔ طالبان کے مطالبے پر امریکہ نے پاکستان سے ملا برادر کو رہا کرنے کا کہا۔ ملا برادر دو ہفتے قبل رہا ہو کر ان ٹھکانوں پر پہنچ چکا ہے جو ہمیں دکھائی نہیں دے رہے۔ یہ خدشات بہرحال موجود رہیں گے کہ امریکہ کبھی اپنے مقاصد صرف مذاکرات اور سفارت کاری کے ذریعے پورے نہیں کرتا۔ یہ ٹولز تو اس وقت استعمال کئے جاتے ہیں جب امریکہ کو اقوام متحدہ کی ساکھ بحال رکھنے اور خود کو سکیورٹی کونسل کا ذمہ دار رکن ثابت کرنا ہو۔ امریکہ میں موجود ہزاروں تھنک ٹینکس دن رات ایسی رپورٹیں تیار کرنے میں مصروف ہیں جن میں امریکہ کو ایک مہذب‘ قانون پسند عالمی طاقت کی حیثیت میں جائز سفارتی ذرائع استعمال کر کے اپنی طاقت بڑھانے کے طریقے بتائے جاتے ہیں۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ امریکہ اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے اس خفیہ فورس کو استعمال کرتا ہے جو ہر اس ملک میں سفارت کاروں‘ مختلف شعبوں کے ماہرین‘ ٹھیکیدار یا تجارتی عملے کی صورت میں موجود ہوتی ہے جہاں امریکی مفادات کا گھی ٹیڑھی انگلی سے نکالنے کی ضرورت ہو۔ مولانا سمیع الحق کا قتل ایک بزرگ رہنما کا قتل ہے جسے طالبان کا باپ کہا جاتا ہے۔ جب کسی کا باپ مار دیا جائے تو وہ یتیم ہو جاتا ہے۔ اچھے طالبان اور برے طالبان کی بحث صرف پاکستان کے لیے اہم ہے امریکہ اور افغانستان ہر اس گروپ یا فرد کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں جو افغانستان پر ان کے قبضے کو تسلیم نہیں کرتا۔ قتل کا انداز بتاتا ہے کہ یہ بین الاقوامی ایجنسیوں کی کارروائی ہے۔ ممکن ہے سرجیکل سٹرائیک کے نعرے لگانے والے ہمسائے نے بین الاقوامی ایجنسیوں کے ساتھ مل کر یہ وار کیا ہو۔ بہرحال مولانا کے قتل سے پاکستان اس مصالحت کار سے محروم ہو گیا جس نے طالبان کو پاکستان کے خلاف کارروائیوں سے روکا۔جو پولیو کے قطرے پلانے کا حامی تھا اور جو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اس بیانیے کا محافظ تھا جس نے دینی قوتوں کو ریاست سے دور کرنے کی سازشیں ناکام بنائیں۔