مکرمی !مولانا صاحب کی ساری توجہ آجکل سیاسی معاملات،آزادی مارچ اور دھرنا پر ہی ہے، کاش مولانا نے اتنی ہی توجہ اسلام کی خدمت، تبلیغ اور تعلیم پر دی ہوتی تو لوگوں کو دھرنے یا مارچ کے لئے ٹریننگ نہ دینا پڑتی ،لوگ خود بخود ہی اپنے حقوق کی پاسداری اور آئین کے عملی اطلاق کے لئے سڑکوں پر نکل پڑتے۔چونکہ ایسا کرنے میں ان کی اہمیت اور مفاد دونوں کی قدر کم ہوجاتی اس لئے مولانا سمیت دیگر سیاستدان اور علما کرام عوام الناس کو مچھلی دیتے ہیں کانٹا دے کر مچھلی پکڑنے کا فن نہیں بخشتے۔حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ لوگوں کی ایسی تربیت کر دی جائے کہ جب کبھی جمہوری یا آمرانہ فکر کے سیاستدان ملک پر شب خون ماریں تو عوام بغیر کسی ڈر اور خوف کے اپنے حقوق کی پاسداری کے لئے حکومت وقت کے خلاف ڈٹ جائیں نا کہ ایسے لوگ جو خود کرپشن میں ملوث ہوں،ٹیکس چور ہوں،اپنا پیسہ فرانس،انگلینڈ اور سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں چھپائے رکھتے ہوں۔حزب اختلاف کی جماعتوں سے مل کر اب مولانا سیاسی بساط پر ایسی ایسی چالیں چل رہے ہیں کہ خود شطرنج کے مہرے بھی حیران وششدر ہیں کہ یہ مولانا کو کسی بن چین کیوں نہیں پڑتا۔ اگر مولانا اپنی پارٹی کے تمام عہدیداران کو جتوا کر اسمبلی میں لے بھی آتے ہیں تو پھر بھی کسی طور ان کی جماعت اقتدار میں نہیں آسکتی اور نہ ہی مولانا کے سر پروزیراعظم کا تاج سجے گا۔ اگر ایسا ممکن نہیں تو پھر مولانا حکومت گرانے اور وزیراعظم کو گھر بھیجنے کے درپے کیوں ہیں؟ (مراد علی شاہدؔ دوحہ قطر)