وہ بنیادی طور پر مدرسے کے فارغ التحصیل مُلا تھے لیکن فکری لحاظ سے روایتی ملائیت سے کوسوں دور تھے۔ وہ عالم دین تھے تاہم انہوں نے علم کو مال بنانے کا وسیلہ قطعاً نہیں بنایا۔ابتداء میں وہ سیاست کے میدان میں بھی قدم رنجہ ہوئے تھے لیکن بعد میں جب دیکھا کہ اس شعبے کی آنکھ سے حیا بھی نکل گئی تو ہمارے اس مُلا نے سیاسی حلقوں سے بھی اپنی راہیں جدا کرلیں۔گزشتہ دنوں ان کی رحلت کی خبر سن کر میں دلی طور پر افسردہ ہوا اور سوچنے لگا کہ ’’ موت بھی ان لوگوں کی تلاش میں رہتی ہے جو حقیقت میں رجالِ کار ہوتے ہیں‘‘۔مولوی عبدالرحمن گزشتہ چھ سات مہینوں سے کینسر کے موذی مرض میں مبتلا تھے اور جمعرات چھبیس نومبر کودارِ فانی سے رخصت ہوئے۔مولانا متحد ہند وستان کے بٹوارے سے پانچ چھ سال قبل ژوب (شہابزئی )کے ایک معزز خاندان میں پیداہوئے ۔ابتداء میں ژوب کے ایک پرائمری اسکول میں داخلہ لیا تاہم بارہ برس کی عمرمیںاپنی والدہ کے انتقال کے بعد والد نے انہیں علاقائی دینی مدارس میں مذہبی علوم پڑھنے پرمامور کیا۔بعد میں وہ وقتاً فوقتاًکوئٹہ، پشین ،لاہور،کراچی ، مردان اور کوہاٹ کے مدارس میں پڑھتے رہے۔ مولانا مفتی محمودؒ کے خاص شاگردوں میں ان کاشمار ہوتاہے اورمولانا مفتی محمودہی سے آپ نے ملتان کے قاسم العلوم میں دورہ حدیث پڑھا۔ستر کی دہائی کے اواخر میں جب اپنے آبائی علاقے ژوب لوٹے تو جمعیت علماء اسلام کے پلیٹ فارم سے سیاست کا آغاز کیا بلکہ یہ مبالغہ نہ ہوگاکہ ژوب میں جے یوآئی کی بنیاد آپ اور مرحوم حافظ عبدالغفور حنفی نے رکھی تھی۔کچھ عرصہ بعد آپ جب مذہبی سیاست کرنے والوں کے رویے سے مایوس ہوئے تو مولانا رحمت اللہ مندوخیل (جن سے آپ ذہنی ہم آہنگی رکھتے تھے)کی وساطت سے آپ نے بھی پشتونخواملی عوامی پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی۔مولاناچونکہ حقیقی معنوں میں ایک خود دار مُلا تھے اور اس قابل مدحِ صفت نے انہیں دنیا اغراض سے مستغنی کر دیا تھا۔ کچھ عرصہ کیلئے آپ مسجد کے پیش امام بھی بنے ،لیکن بہت جلد انہوں نے امامت کو چھوڑ دی ۔ وجہ ہرگزیہ نہیں تھی کہ (نعوذ باللہ) انہیں اس نبویﷺ عہدے سے چڑتھی بلکہ وہ سمجھتے تھے کہ اس معاشرے میں مسجد کی امامت اکثر ملاووں(الا ماشاء اللہ) سے خودداری چھین لیتی ہے اور انہیں مطلق لوگوں کی زکواۃ اور صدقات کے رحم و کرم پر چھوڑدیا جاتاہے۔بعد میں آپ نے ژوب میں کتابوں کی ایک دکان کھولی اوراسی دکان کو ذریعہ معاش بنایا ۔یوں کہئے کہ کتابوں کی یہ دکان، ذریعہ ِمعاش سے زیادہ مولانا کیلئے فکری غذا کمانے کی جگہ ثابت ہوئی ،کیونکہ وہ یا تو وہاں پر مطالعے میں مصروف رہتے تھے یا پھردکان پر آنے والے نظریاتی احباب باالخصوص مرحوم سائیں کمال خان شیرانی،مرحوم محمد جان لالا،مرحوم مولانارحمت اللہ مندوخیل ،مرحوم عبدالرحیم مندوخیل، مرحوم میراخان مندوخیل ،جانان لالا اورملک عبدالسلام کاکڑ جیسے لوگوں سے سے مختلف امور پر ان کی گفتگوہوتی رہتی تھی۔شاید اس پیشے میں قلیل آمدنی کمانے کے پیش نظر سائیں کمال خان نے انہیں سرکاری ملازمت اختیار کرنے کا مشورہ دیا ، یوں انہوں نے ایک اسکول میں اسلامیات کے استاد کی نوکری قبول کر لی۔ رواں صدی کے ابتدائی برسوں میں آپ ملازمت سے ریٹائرہوئے ۔ہم نے پہلے بھی ذکرکیاتھا کہ کتاب بینی مولانا کا سب سے پسندیدہ مشغلہ تھا ۔ پشتو کتب کے علاوہ بے شماراردو، عربی اور فارسی کی کتابیں انہوںپڑھی تھیں۔حفظ اشعار میں مولانا گویا اپنے وقت کے مولانا ابوالکلام آزاد تھے کیونکہ بے شمار زبانوں کے مختلف شعراء کے اشعار انہوں نے ازبر کیے تھے۔چیکوسلواکیہ (پراگ) میں مشال ریڈیوسے منسلک ممتاز صحافی اور ان کا بیٹے عبدالحئی کاکڑ اپنے والد کے ذوق مطالعہ کے بارے میں رقمطراز ہیں ’’ شاید یہ مبالغہ نہ ہوگا کہ ان کی آنکھوں نے بیٹے ہونے کے ناطے مجھے اتنی بار نہیں دیکھا ہوگا جتنی بار انہوں نے کتابوں پر نظریں دوڑائی، ان کی صحبت میں مَیں نے خوشحال خان خٹک ، رحمان بابا، حمید بابا، فارسی شعراء بیدل ، عمرخیام ،حافظ شیرازی ،شیخ سعدی ،اقبال اور ان کے ہم نام عبدالرحمن جامی سے آشنا ہوا۔مجھے سردیوں کی وہ شامیں اب بھی یاد ہیں کہ آتش دان کے گرد بیٹھ کر وہ مجھے مولانا بھاشانی ، مولانا ابوالکلام آزاد ، مولانا مفتی محمود ، باچا خان ، خان عبدالصمد خان اچکزئی ، غوث بخش بزنجو اور نہ جانے کتنے سیاسی لیڈروں اور کارکنوں کی جدوجہد کے قصے سنایا کرتے تھے۔ ابوالکلام آزاد ان کی پسندیدہ شخصیت تھی اور یہی وجہ تھی کہ میں نے اٹھارہ برس کی عمر ہی میں ان کی تقریباً تمام کتابیں پڑھ ڈالی تھیں‘‘۔لطف کی بات یہ ہے کہ مولانا وقت کے مشہور پشتو اور اردو موسیقاروں کی گائیکی سے بھی وقتاًفوقتاً لطف اندوز ہوتے تھے۔ پشتو موسیقی میں وہ خصوصاً استاد ناشناس کی غزلوں سے دل بہلاتے جبکہ اردومیں وہ استاد رفیع اور ثریا سننے کے بہت شوقین تھے۔ٹھیٹھ پشتون قبائلی سماج کا فرد ہونے کے باوجود مولانا عبدالرحمن نے قبائلیت ، تربور گلوی اور قبائلی زنجشوں سے خود کو بہت دور رکھا تھا۔ہم نے اکثر لوگوں کو دیکھا ہے کہ خود تو دنیا سے چلے جاتے ہیں لیکن قبائلی اختلافات کا جراثیم اپنی اولاد میں منتقل کرکے ان کے مستقبل کو داو پر لگادیتے ہیں لیکن بھلا ہو اس درویش صفت مُلا کا کہ انہوں نے ایک روشن نام کے علاوہ میراث میںکسی قسم کی عداوت اورنفرت نہیں چھوڑی ۔