سیاستدانوں کے درمیان سیاسی اختلافات کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ ایسے اختلافات ہر وقت سیاستدانوں کے بیچ ہوتے رہتے ہیں اور شاید یہی سیاست کا حسن بھی ہے۔سیاسی منظرنامے کا رنگ اس وقت بدصورتی اور بدمزگی کا روپ دھار لیتاہے جب یہ حضرات ایک دوسرے سے سیاسی اختلاف کرنے کی بجائے ذاتی انتقام پر اتر آتے ہیں ۔اس انتقام کا بالآخر نتیجہ یہ نکلتاہے کہ یہ حضرات ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے اورایک دوسرے کو ننگی گالیوں سے نوازنے سے بھی احتراز نہیں کرتے۔ مولانا فضل الرحمن اور وزیراعظم عمران خان کی سیاست بھی آج کل اس مرحلے میں داخل ہوچکی ہے جسے قبیح اور بدصورت طرزسیاست کانام ہی دیا جاسکتاہے ۔اب تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ مذکورہ اختلاف کی وجہ سے بعض عناصر کو گزشتہ دنوںان دو رہنمائوں کو ایک دوسرے کومارنے کی سازشی افواہیں گھڑنے کا موقع بھی ہاتھ آیاہے۔مولانا فضل الرحمن اور عمران خان دونوں سیاستدان ہیں اور دونوں ایک دوسرے سے جمہوری انداز میں سیاسی اختلاف رکھنے کا حق رکھتے ہیں۔عمران خان اگریہ سمجھتے ہیں کہ مولانافضل الرحمن بھی آصف زرداری اور میاں محمد نواز شریف کے قبیل کے سیاستدان ہیں اور اسٹیٹس کو کی علامت ہیں ، تو ان کے اس اختلاف کو سیاسی اختلاف پر محمول کیا جانا چاہیے یابالفرض عمران خان نظام کی خرابی کے ذمہ دار آصف علی زرداری اور میاں محمد نواز شریف کو قرار دینے کے ساتھ ساتھ مولانا صاحب کو بھی حصہ بقدر جثہ اس خرابی کا ذمہ دار سمجھتے ہیںتو یہ بھی ان کا سیاسی حق بنتاہے ۔لیکن اگر وہ مولانا فضل الرحمن کیلئے سب وشتم پر اتر آئیں اور مختلف القابات سے ان کو نوازتے ہیں تو یہ سیاست کی بجائے انتقام کے زمرے میں آتاہے ۔اسی طرح مولانافضل الرحمن نے بھی عمران خان سے سیاسی اختلاف رکھنے پر اکتفاء کرنے کی بجائے اسے ذاتی اختلاف بنا یا ہوا ہے ۔مولانا صاحب کے مطابق عمران خان سرے سے اس ریاست کی وزارت عظمیٰ کے اہل نہیں ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان کو مغربی نظام کو مسلط کرنے کیلئے ایک ٹاسک کے تحت یہاں لایا گیاہے۔ مولانا صاحب کے پاس آخر ایسے کونسے ثبوت ہیں جس کی بنیادپر وہ عمران خان کو یہودیت کا پرچارک اور غیر اسلامی ایجنڈے کا علمبردار قرار دے رہے ہیں۔ اگرجلسوں اور دھرنوں کے دوران موسیقی بجانے سے عمران خان یہودی بن سکتاہے تو پھر مولانا صاحب کی حلیف جماعت پی ایم ایل این کی ریلیوں اور جلسوں میں بھی یہی موسیقی بجائی جاتی ہے ،کیا کبھی مولاناصاحب نے کبھی اس طرف بھی انگلی اٹھائی ہے ؟ یا بالفرض جلسے میں خواتین کی بھر مار سے اگر کسی مسلمان لیڈر کے عقیدے میں تبدیلی آسکتی ہے تو پھر خواتین کی یہ بھرمار پیپلز پارٹی کے جلسوں میں روز اول سے دیکھنے میں آرہی ہے ، کیا مولانا صاحب نے پیپلزپارٹی کی قیادت پر بھی کبھی ایسا الزام لگایاہے ؟بلکہ مجھے تو ایک حساب سے عمران خان، آصف زرداری اور میاں نواز شریف کے مقابلے میں کہیں زیادہ اسلام پسند نظرآتے ہیں ۔کیونکہ اقتدار میں آتے ہی انہوں نے اپنی پہلی تقریر میں ملک کومدینہ طرز کی ریاست بنانے کا اعلان کیااورپھر سعودی عرب کے حالیہ دورے کے موقع پر بھی انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا تھا۔ دوسری طرف پوری زندگی میں کوئی ثابت کردے کہ میاں نواز شریف یا آصف زرداری نے اس ملک کے نظام کو اسلامی بنانے کا نجی محفلوں میں بھی اعلان کیاہو یاکسی دوسری جماعت کے رہنما نے اس عزم کا اظہار کیا ہو ۔اُدھرحال یہ ہے کہ مولانا صاحب نے نہ تو کبھی آصف زرداری کے عقیدے میں کیڑے نکالنے کی کوشش کی ہے اور نہ ہی ان کو کبھی میاں نواز شریف کے عقیدے میں کھوٹ نظر آیاہے۔ مولانا صاحب کو تو ایم کیو ایم کے سابق قائد الطاف بھائی کے نظریے اور عقیدے میں بھی فرق نظر نہیں آیا جو پچیس سال سے برطانیہ کے ایم آئی سکس کی گود میں بیٹھے ہوئے تھے اور کراچی میں ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کے قتل میں ملوث پائے گئے۔ جو بھارت کے دورے کے موقع پر پاکستان کے خلاف بھارتی حکمرانوں کی زبان بھی بولتے رہے۔مولانا صاحب کو تو جنرل مشرف کی وہ پارسائی بھی قبول تھی جس کے تحت وہ اپنے دور آمریت میں امریکہ کے صف اول کے اتحادی بھی رہے اور افغانستان میں طالبان کی حکومت کو گرانے کیلئے ملک کے ہوائی اڈے بھی امریکہ کو مہیا کردیئے۔ جنہوں نے لال مسجد آپریشن میں سینکڑوں حافظ قرآن بچیوں کو گولیوں سے بھون ڈالا اور جنہوں نے اسرائیل سے بھی تعلقات بحال کرنے کی کوششیں کیں۔ مولاناصاحب کا اصل مسئلہ صرف اور صرف سیاسی ہے ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مدارس کے سادہ لوح طلباء ،خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے مذہبی پختونوں کو اپنا بنانے کا واحد حل یہ ہے کہ عمران خان کے عقیدے کو نشانہ بنایا جائے ۔ وہ سمجھتے ہیںکہ عمران خان کی جماعت اُن سے ان کے گڑھ خیبر پختونخوا کو بھی ہتھیانے میں کامیاب ہوگئی ہے سو اس جنگ میں اب صرف اور صرف عقیدے ہی کی بنیاد پر کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے جوکہ ان کی ناکام طرز سیاست کی بین دلیل ہے۔