مولانا فضل الرحمن ہماری سیاست کا ایک اہم اور معروف کردار ہیں۔ کوئی تین عشروں سے ان کی سیاست میں مختلف فیز آئے ہیں۔ ابتدا انہوں نے اپوزیشن سے کی۔ جنرل ضیاء کے دورحکومت میں وہ اپوزیشن اتحاد ایم آر ڈی کا حصہ رہے، غیر جماعتی انتخابات کا بائیکاٹ بھی کیا۔ جنرل ضیا ء کے حادثے کے بعد ملک میں جماعتی سیاست شروع ہوئی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے مابین سخت سیاسی کشمکش چلتی رہی۔ مولانا فضل الرحمن ابتدا میںکچھ عرصہ اپوزیشن میں رہے، مگر پھر انہوں نے کمال ہوشیاری کے ساتھ موقعہ دیکھ کر اپنا سیاسی موقف تبدیل کرنا اور فائدے اٹھانا سیکھ لیا۔ حکومتیں بدلتی رہیں، مگر مولانا کی حیثیت پر کچھ زیادہ فرق نہیں پڑا۔ جنرل مشرف نے انتخابات کرائے تو مولانا نے ایم ایم اے کے پلٹ فارم پر تمام دینی جماعتیں اکٹھی کر لیں ۔ سیاسی خلا اور افغانستا ن پر امریکہ فوج کشی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان سب نے نہایت جذباتی مہم چلائی، انتخابی نشان کتاب حاصل کیا اور انتخابی جلسوں میںایم ایم اے کے امیدوار اپنے نشان کو کتاب مقدس قرآن حکیم سے تشبیہہ دیتے رہے۔ الیکشن میں انہوں نے میدان مار لیا اور صوبائی حکومت بنا لی، جبکہ مشرف حکومت کے ساتھ مذاکرات کر کے ایل ایف او کی پارلیمنٹ سے منظوری کی راہ ہموار کی۔ اس وقت ایم ایم اے دعویٰ کرتی تھی کہ ہم نے مشرف سے وردی اتار دینے کا وعدہ لے لیا ہے اور دسمبر دو ہزار چار تک وہ وردی اتار دے گا۔ جنرل مشرف مزید مقررہ مدت کے چار برس بعد بھی مسلط رہے۔پتہ چلا کہ ڈکٹیٹر نے ہمارے مولوی صاحبان کو ایک قانونی نکتہ پر بے وقوف بنا دیا تھا۔ ایک اور امتحان سے ایم ایم اے کو واسطہ پڑا جب صدرمشرف نے اسی اسمبلی سے دوسری بار صدارتی مینڈیٹ لینا چاہا۔ اپوزیشن نے طے کیا کہ سرحد اسمبلی توڑ دی جائے تاکہ صدر کا الیکٹرول کالج ادھورا رہ جائے۔ ایسا نہ ہوسکا، اس کی ذمہ داری مولانا فضل الرحمن پر عائدکی جاتی رہی۔ایم ایم اے بعد میں توڑ دی گئی اور پھر اس کی بحالی میںدس برس لگ گئے۔ قاضی حسین احمد کے بعد سید منور حسن امیر جماعت بنے ، ان کا کہنا تھا کہ ایم ایم اے دوبارہ بنانے سے پہلے یہ طے ہوجائے کہ کیا وجوہات تھیں جن کی بنا پر اسے تحلیل کرنا پڑا اور جس کی غلطی ہو، وہ اس پر معذرت کرے۔ سید منورحسن سے کئی امور پر اختلاف کیا جا سکتا ہے، مگر وہ اصولوں پر سٹینڈ لینے والے شخص تھے۔ جماعت کے اندر ایک لابی ہمیشہ ایم ایم اے کے حق میں رہی ہے ، منور حسن کی موجودگی میں یہ لابی مگر ناکام رہی۔ جماعت اسلامی اور ایم ایم اے کا لو‘ ہیٹ ریلیشن تو خیر ایک الگ ہی کہانی ہے، اس وقت اس پر بات کرنا مقصود نہیں۔ بات مولانا فضل الرحمن کی ہو رہی تھی۔ مولانا کی سیاست کا اپنا ہی ایک انداز ہے۔ ان کے حامی اس پر فدا رہے ہیں۔ وہ اسی حکمت عملی اور تدبر گردانتے ہیں۔ مولانا کے مخالفین البتہ اسے کہہ مکرنی اور سیاسی چالبازی کا نام دیتے ہیں ، انہیں لگتا ہے کہ دین کے علمبردار کسی عالم دین کو ایسی موقعہ پرستانہ ، ایکسپلائٹ کرنے والی سیاست سے دور رہنا چاہیے۔ ظاہر ہے اس قسم کے مشوروں یا تنقید سے مولانا فضل الرحمن کی صحت پر کیا اثر پڑ سکتا ہے۔ خیبر پختون خوا میں ان کی مخصوص پاور پاکٹس ہیں، جہاں سے وہ چند سیٹیں نکالتے رہے ہیں۔ ڈی آئی خان سے ان کا تعلق ہے۔ ڈیرہ،ٹانک، لکی مروت میں ان کا ذاتی اثرورسوخ گہرا ہے۔ کوہستان اور اکا دکا دیگر نشستوں پر بھی مولانا کی جماعت کو ووٹ مل جاتے ہیں۔ فاٹا سے انہیں ماضی میں کچھ نہ کچھ ملتا رہا، اس بار انضمام کی مخالفت کر کے وہ خسارے میں رہے۔ ویسے مولانا کے لئے خسارہ تو اس بارذاتی نوعیت کا تھا، اگرچہ ان کی مجموعی طور پر قومی اسمبلی کی نشستیں بڑھ گئیں۔ وہ اپنی دونوں نشستوں سے الیکشن ہار گئے، ان کا صاحبزادہ البتہ ڈیرہ کم ٹانک کی سیٹ سے کامیاب ہوا۔ مولانا اور ان کے عقیدت مند تو اس شکست کی ذمہ داری اسٹیبلشمنٹ پر عائد کرتے ہیں۔ الیکشن سے پہلے ہم نے اپنے اخبار 92نیوز کے لئے خصوصی اشاعتوں کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ اس حوالے سے مختلف حلقوں میں مقامی صحافیوں سے رپورٹس لیتے رہے۔ اس وقت خاصی حیرت ہوئی جب الیکشن ڈے سے کئی دن پہلے ڈیرہ کے مقامی صحافی یہ بتاتے رہے کہ مولانا دونوں سیٹیں ہار بھی سکتے ہیں۔اس کی دو تین وجوہات بتائی جاتی تھیں۔ مولانا نے ڈیرہ کی سیاست اپنے جس بھائی کے سپرد کر رکھی ، اس کی نااہلی سے مقامی سطح پر بیزاری اور ناپسندیدگی کی لہرآئی، مولانا نے خود اپنے حلقوں کو ایزی لیا اور تمام تر زور بیٹے کی سیٹ پر لگایا۔ ان کا خیال تھا کہ وہ آسانی سے جیت جائیں گے۔ انہوں نے ڈیرہ سے پی ٹی آئی کے دبنگ امیدوار کو انڈراسٹیمیٹ کیا، جس نے مقامی سطح پر جوڑ توڑ کر کے اچھے اتحاد بنائے اوراینٹی مولانا ووٹ تقسیم نہ ہونے دیا۔ ایک فیکٹر عمران خان کے حق میں آنے والی لہر بھی تھی۔ 2018ء کے انتخابات میں پی ٹی آئی نے کے پی کے سے لینڈ سلائیڈ وکٹری حاصل کی۔ عمران خان نے اپنی انتخابی مہم میں مولانا فضل الرحمن پر خاصی ہارڈ ہٹنگ بھی کی تھی۔ اپنے مخصوص جارحانہ انداز میںعمران خان بار بار مولانا پر حملہ آور ہوتے رہے اور گاہے ضرورت سے زیادہ سخت، ناشائستہ الفاظ بھی استعمال کر ڈالتے۔ مولانا فضل الرحمن کو اس انداز کی مخالفت کا پہلی بار واسطہ پڑا ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف یا بعد میں زرداری صاحب کو اگر مولانا فضل الرحمن کی سیاست سے اختلاف بھی ہوا تو انہوں نے یوںبراہ راست ہدف بنا کر حملے نہیں کئے۔ ایک وجہ شائد یہ کہ پی پی پی کا اصل میدان سندھ اور ن لیگ کا پنجاب رہا، جبکہ پی ٹی آئی کو پہلی کامیابی ملی ہی خیبر پختون خوا سے تھی، جہاں مولانا فضل الرحمن کی جماعت جے یوآئی ان کی فطری حریف بنتی تھی۔ مولانا نے بھی جواب میں عمران خان پر ہمیشہ تند وتیز حملے کئے ، اپنے جلسوں اور ٹی وی انٹرویوز میں انہیں یہودی ایجنٹ قرار دیتے رہے۔ جس حد تک وہ جا سکتے تھے چلے گئے، مگر ظاہر ہے یہودی ایجنٹ قرار دینے جیسے گھسے پٹے جملے کی آج کے دور میں کیا وقعت ہوسکتی ہے؟ الیکشن ہارنے کے بعد مولانا فضل الرحمن کا غم وغصہ دیدنی تھا۔ پہلی بار انہیں اس قدر غضبناک دیکھا گیا۔ نہایت جذباتی انداز میں وہ ٹی وی کیمروں کے سامنے شعلے برساتے رہے کہ ہم پارلیمنٹ کا اجلاس ہی نہیں ہونے دیں گے، یہ الیکشن فراڈ ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اس وقت انہیں ٹھنڈا ہونا پڑا جب پیپلزپارٹی اور ن لیگ دونوں میں سے کسی نے بھی ان کے انتہائی موقف کی تائید نہیں کی۔ مایوسی کے عالم میں انہوں نے عوام رابطہ مہم شروع کی اور پنجاب کے مختلف شہروں میں ملین مارچ کرتے رہے۔ قومی میڈیا نے بدقسمتی سے مولانا کے ان جلسوں کو بالکل ہی لفٹ نہیں کرائی۔لائیو کوریج تو دور کی بات ہے، خبروں میںجھلکیاں تک نہ دکھائیں۔ مولانا کے حامی غالباً اسی وجہ سے قومی میڈیا کو دجالی میڈیا کہہ کر دل کی بھڑاس نکالتے ہیں۔ سرگودھا میں ہونے والے ایک جلسے کی اخباری کوریج خاکسار نے پڑھی ۔ رپورٹر نے کمال گستاخی سے مولانافضل الرحمن کے ملین مارچ کو بمشکل دو ہزار افراد کا جلسہ قرار دیا۔ مزید افسوسناک امر یہ ہے کہ ایک نہیں بلکہ تمام اخبارات کے مقامی صحافی یہی بات لکھتے رہے۔ ناہنجار کہیں کے۔ کم از کم انہیںملین مارچ کے نام کا ہی کچھ لحاظ کر لینا چاہیے تھا۔ ملین دس لاکھ کو کہتے ہیں، چلیں وہ دس لاکھ نہ سہی، ایک لاکھ حاضرین کہہ ڈالتے، دس ہزار تو کہنے میں کوئی حرج نہیں تھا۔ایسی’’ صحافت‘‘ سے اگر مولانا جیسے شائستہ مزاج سیاستدان برہم نہ ہوں تو پھر کیا کریں؟ مولانا فضل الرحمن عمران خان کی حکومت کے خلاف تحریک چلانے کو بے تاب ہیں۔بلاول بھٹو کی افطاری نے اپوزیشن کے اتحاد اور عید کے بعد عوامی تحریک چلائے جانے کی امید پیدا کی ہے۔ مولانا فضل الرحمن اس حوالے سے خاصے پرجوش دکھائی دے رہے ہیں۔صحافتی حلقے البتہ اس پر حیران ہیں کہ عید پانچ جون کو متوقع ہے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ جون ، جولائی ، اگست کے آگ برساتے موسم میں پنجاب، سندھ اور کے پی کے کا کیا حال ہوتا ہے۔ سنتالیس، اڑتالیس ڈگری سنٹی گریڈ میں تحریک چلانا تو درکار اپنے کام کاج کے لئے گھروں سے نکلنا محال ہوجاتا ہے۔ دیکھیں مولانا اس مشکل کا کیا حل نکالتے ہیں؟ شنید ہے کہ وہ اپنے زیراثر مدارس کے طلبہ کو متحرک کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ حکومت نے بھی کچھ نہ کچھ جواب میں سوچ رکھا ہوگا۔ یہ اور بات کہ فواد چودھری جیسے آگ بدست وزرا کے ہوتے ہوئے وزیراعظم کو کسی دشمن کی کیا ضرورت ہے؟ مدارس اور ان کی تنظیموں کے لوگ پہلے ہی سے چودھری صاحب کے بیانات سے نالاں اور ناراض ہیں۔ اگر کوئی ایک آدھ چنگاری بارود پر پڑ گئی، کسی وزیر نے ن لیگ کے زاہد حامد جیسی غلطی کر ڈالی تب شائد اس تحریک کو کچھ ایندھن مل جائے گا۔ سردست تو یوں لگ رہا ہے کہ چھوٹی عید کے بعد والی تحریک بڑی عید کے فوراً بعدبھی چلانا ممکن نہیں ۔ مولانا فضل الرحمن کو تب تک کوئی معقول شغل ڈھونڈ لینا چاہیے۔