بی اے کا رزلٹ آیا تھا۔ ماڈل ٹائون لنک روڈ کے پاس وزیرستان کے ایک پٹھان نے ٹمبر کا کاروبار جما رکھا تھا۔ ایک دن جم میں ورزش کر رہا تھا کہ میرا دوست دو نوجوانوں کے ساتھ آ پہنچا۔ ان سے حمید خان اور مودود خان کے نام سے تعارف ہوا۔ وہ چاہتے تھے کہ میں انہیں انگریزی پڑھائوں۔ دونوں ایف اے کے امتحان کی تیاری کر رہے تھے۔ فیس مناسب تھی اس لیے میں نے مغرب کے بعد پڑھانے کی حامی بھر لی۔ دونو ںکزن تھے۔ دونوں سخت گیر والدین کی نگرانی میں پلے تھے۔ بہت شرمیلے اور احترام کرنے والے تھے۔ وہ اکثر وزیرستان کے حالات اور لوگوں کے متعلق بتایا کرتے۔ انہوں نے بتایا کہ وہاں قبائلی نوجوان شغل شغل میں کسی سکول کو مارٹر گولے سے اڑا دیتے ہیں۔ یہ اس علاقے میں طالبان اور عسکریت پسندی سے پہلے کی بات ہے۔ وہ بتایا کرتے کہ چھوٹے چھوٹے بچوں کو ماں سے الگ کر کے باپ لاہور اور کراچی میں لے آتے ہیں تاکہ وہ عورتوں کی قربت اور محبت کے باعث نرم دل نہ رہیں۔ چند سال قبل مجھے سی ایس ایس اور پی ایم ایس کے طلباء کو پڑھانے کا موقع ملا۔ انٹرنیشنل ریلیشنز اور انٹرنیشنل لاء کی کلاسز میں بلوچستان کے پی کے اور قبائلی علاقوں کے طلباء کی دلچسپی زیادہ تھی۔ زیب اللہ وزیر ان دنوں خیبر پختونخواہ کے کسی سرکاری محکمے میں ملازمت کر رہا ہے۔ زیب اللہ میرا سٹوڈنٹ تھا۔ فاٹا اور خیبر پختونخواہ کے انضمام پر اس نے بتایا کہ وہ خوش ہے نہ رنجیدہ۔ بس جذبات سے عاری کیفیت ہے۔ زیب اللہ مولانا فضل الرحمن اور محمود اچکزئی کے نظریات کا حامی نہیں تاہم وہ ذاتی طور پر انضمام پر پرجوش نہیں ہے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ قبائل میں لوگوں کی کتنی تعداد اس فیصلے سے خوش ہے۔ اس نے جواب دیا واضح اکثریت اس فیصلے پر خوش ہے۔ جو لوگ خوش ہیں ان کے پاس دو وجوہات ہیں پہلی وجہ یہ کہ ان کے خیال میں اب ان علاقوں میں انگریز دور کے غلامانہ قوانین کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ دوسرا یہ کہ اب قبائلی علاقوں کی پسماندگی دور ہو گی تیسری سوچ والا ایک گروپ بھی خوش ہے۔ اس میں منظور پشتین کے کچھ حامی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بکھرے اور تقسیم پشتون اب ایک ہو گئے ہیں۔ اب وہ اپنے حقوق کے لیے زیادہ مضبوط کردار ادا کر سکتے ہیں۔ میں نے زیب اللہ سے پوچھا کہ قبائلی علاقے میں ایک کروڑ انسان بستے ہیں۔ ان کے روزگار کے معاملات ہیں۔ ان کے بچوں کو تعلیم کی ضرورت ہے۔ یہ بیمار پڑتے ہوں گے تو انہیں علاج معالجہ درکار ہوتا ہو گا۔ ان ایک کروڑ لوگوں میں ایسی کتنی ہی بچیاں ہوں گی جو اعلیٰ ذہانت کی مالک ہوں گی تو وہاں کتنے کھیلوں کے میدان‘ سکول‘ کالج اور ہسپتال کام کر رہے ہیں۔ ایک اور قبائلی نوجوان صدام وزیر نے مجھے جو اعداد و شمار دیئے ان کے مطابق قبائل کی سات ایجنسیوں میں 568گورنمنٹ پرائمری سکول ہیں۔ 813مڈل سکول ہیں۔ 342گرلز پرائمری سکول ہیں۔ 196کالج ہیں، 113بیسک ہیلتھ یونٹ ہیں۔ 14گرلز کالجز ہیں۔ 11تحصیل ہیڈ کوارٹرز اور 39تحصیلیں ہیں۔ ہمارے ہاں سیاستدانوں کو اگر برا بھلا کہا جاتا ہے تو اس کی کچھ وجوہات ہیں۔ سب سے پہلی وجہ یہ کہ وہ کبھی ریٹائرڈ نہیں ہوتے۔ سیاست میں انہوں نے جو کچھ کیا ہوتا ہے وہ قبر تک ان کے ساتھ رہتا ہے۔ عہد جوانی میں جو سیاستدان زیادہ دبنگ اور جھگڑالو رہا انجام کار اسے اتنی ہی ذلت و خواری اٹھانی پڑی۔ خیر ہم کے پی کے اور فاٹا کے انضمام کے حوالے سے مولانا فضل الرحمن اور محمود اچکزئی کے موقف کا جائزہ لینا چاہتے ہیں۔ جب اس انضمام کی بات ہوئی تو دونوں رہنمائوں نے اس کی مخالفت کی۔ مخالفت کی فوری وجہ تجویز کا تحریک انصاف کی طرف سے آنا تھا۔ تحریک انصاف نے سب سے زیادہ پشتون ووٹر کو متاثر کیا ہے۔ محمود اچکزئی پشتون قومیت پرستی کی سیاست کرتے ہیں جبکہ مولانا فضل الرحمن ساری دنیا کے پشتونوں کو اپنے مدارس کا طالب علم رکھنا چاہتے ہیں۔ جیسے سندھ اور جنوبی پنجاب کے جاگیردار مزارعین بچوں کو سکول بھیجنے کی بجائے اپنی زمینوں پر گھومنے پھرنے‘ کھانے پینے کی آزادی دے کر ان پر احسان جتلاتے ہیں۔ مولانا بھی چاہتے ہیں کہ فاٹا کے افلاس زدہ لوگ ان کی باتوں پر یقین کرتے ہوئے عمران خان کو یہودیوں کا ایجنٹ سمجھیں‘ سیاسی آزادیوں کو تہذیب کی تباہی تصور کریں اور گھر سے نکلنے والی ہر عورت کو گناہگار قرار دیں۔وہ یہ سبق پڑھاتے رہتے ہیں کہ ہمیں یہ سکول کالج قبول نہیں کیونکہ یہ ہماری روایات کے دشمن ہیں۔ محمود اچکزئی قوم پرستی کے پرانے داعی ہیں۔ ایک تجربہ کار پارلیمنٹرین ہونے کے باوجود وہ یہ نہیں جانتے کہ جب مختلف بڑی قومیں خود کوایک وفاق میں ضم کر لیتی ہیں تو انہیں ایک بڑی شناخت ملتی ہے۔ جیسے کہ ان دنوں گلوبل سٹیزن کا تصور ابھر چکا ہے۔ پاکستان جیسی بڑی وفاقی ریاست میں قوم پرستی سے جڑے رہنے کا مطلب ہے کہ آپ ریاست کے آئین کو تسلیم نہیں کرتے۔ آئین اور ریاست کے بارے میں جناب اچکزئی کے ارشادات کا مطالعہ کریں آپ کو ان کی فکر کا گرڈ سٹیشن مل جائے گا۔ قوم پرستی وفاق کو کیسے نقصان پہنچاتی ہے اس کی مثال ہم بنگالی قوم پرستی کی صورت میں دیکھ چکے ہیں۔ دراصل قوم پرستی کی مثبت اقدار کی بجائے بین الاقوامی طاقتیں اسے ہمسایہ ممالک میں جاسوسی اور مداخلت کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ پشتون قوم پرستی کے علمبردار افغانستان کے پشتونوں کو بھی ساتھ ملا کر جب پشتون مفادات کی بات کریں گے تواس کا مطلب ہے کہ وہ اپنی ریاست کو افغان شہریوں کے مفادات کے تابع رکھنا چاہتے ہیں۔ بلوچ قوم پرستی پاکستان‘ ایران اور افغانستان سے نکل کر سوئٹزرلینڈ اور بھارت پہنچ چکی ہے۔ اب تصور کریں کہ پاکستان کی سب سے بڑی پنجابی آبادی اگر بھارتی پنجاب‘ کینیڈا اور انگلینڈ کی پنجابی آبادی سے تعلقات کو پاکستان سے وفاداری پر ترجیح دینے لگے تو وفاق برقرار رہ سکتا ہے؟ مولانا فضل الرحمن اور محمود اچکزئی تعلیم‘ صحت اور سماجی ترقی سے محروم پشتونوں کو مذہب اور قوم پرستی کے نام پر اپنا مزارع بنا کر رکھنا چاہتے ہیں۔ دونوں سیاسی تصورات کی غلط تشریح کر کے نظریاتی ابہام پیدا کر رہے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ کوئی سیاسی دانشور ان کی حقیقت کا فکری تجزیہ پیش کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ حتیٰ کہ وہ مشہور کالم نگار بھی جو جھوٹے اور غلط حقائق کی کہانیاں لکھتا ہے۔ جو سید پور اسلام آباد میں قیمتی پلاٹ الاٹ کرواتا ہے‘ خود کو ایک چھوٹا سا ارسطو سمجھتا ہے۔