وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے سے وفاق ، پارلیمنٹ اور جمہوریت کی فتح ہوئی ہے۔ حکومتی ترجمانوں کے اجلاس میں عمران خنا نے کہا کہ سازشیں ناکام ہوئیں ، بھارت کی امیدوں پر پانی پھر گیا۔ وزیراعظم نے درست کہہ رہے ہیں مگر عمرا نخان کو عدلیہ کی پہلی دن کی سماعت سے ایک سیاسی فائدہ یہ ہوا کہ مولانا فضل الرحمن کی طرف سے اسی دن بلائی گئی اے پی سی میڈیا سے آؤٹ ہو گئی اور عدالتی سماعت چھائی رہی ۔روزنامہ 92نیوز کی خبر کے مطابق عالیہ عدلیہ میں ججوں کی تقرری کیلئے تشکیل دی گئی پارلیمانی کمیٹی کے قواعد و ضوابط میں ترامیم کی باضابطہ منظوری دے دی ہے ۔ جس کے مطابق پارلیمانی کمیٹی جوڈیشل کونسل کی طرف سے جج کے عہدے کیلئے نامزد امیدوار کو انٹرویو کیلئے بلا سکے گی ۔ رولز میں ترمیم کے مطابق اگر نامزد امیدوار جج کے انٹرویو کیلئے دستیاب نہ ہوا تو اسکی نامزدگی مسترد تصور ہو گی ۔ پارلیمانی کمیٹی کے فیصلے پر بحث کا سلسلہ جاری ہے ، کچھ وکلاء کا خیال ہے کہ یہ فیصلہ عدلیہ کو حکومت کے تابع کرنے کے مترادف ہے ۔ سپریم کورٹ کے سابقہ اور موجودہ جج صاحبان کی یہ رولنگ تاریخ کا حصہ ہے کہ اداروں کو اپنی حدود میں رہنا چاہئے ۔ وسیب کے بہت دکھ ہیں ، اتفاق سے پہلی مرتبہ سپریم کورٹ اور لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کا تعلق وسیب سے ہے۔ 18 کروڑ افراد کے منتخب وزیراعظم کو محض 30سکینڈ کی سزا پر برطرف کر دیا گیا ۔ یہ سزا ڈیزائن شدہ تھی کہ 30 سکینڈ کھڑے کھڑے پورے ہو گئے ۔ لاہور میں دو سو کے قریب بچوں کو تیزاب ڈرموں کے ذریعے قتل کرنے والے جاوید اقبال کو تو اپیل کا حق ملا مگر 18 کروڑ پاکستانیوں کے منتخب وزیراعظم کا استحقاق ختم کرنا کہاں کا انصاف تھا ۔ اس پر اعلیٰ عدلیہ کو غور کرنا ہوگا۔ ججوں کی تعیناتی کے مسئلے پر وسیب کے وکلاء کو بہت شکایات ہیں ۔ قریباً 2 سالوں سے ہائی کورٹ بار ملتان اور ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن ملتان کی طرف سے مطالبات کے حق میں ہر جمعہ کو ہڑتال کی جاتی ہے ۔ وکلاء کے مطالبات میں ایک مطالبہ یہ ہے کہ سول ، سیشن اور ہائی کورٹ کے ججوں کی تعیناتی میں وسیب سے سوتیلی ماں کا سلوک ہوتا ہے۔ آج جبکہ خوش قسمتی سے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان ملتان میں ہیں تو ان کو وسیب کے وکلاء کے اس مسئلے پر غور کرنا ہوگا ۔ 2011ء میں میری کتاب ’’ صوبہ کس لئے ؟ ‘‘ شائع ہوئی ۔ اس میں میرا ایک مضمون صفحہ 56 پر شائع ہوا۔ روزنامہ 92 نیوز کے قارئینک ی آگاہی کیلئے مضمون کے چند اقتباس پیش کرتا ہوں تاکہ عدلیہ اور حکومت کی طرف سے اصلاح و احوال کی صورتحال پیدا ہو سکے ۔ سرائیکی وسیب کے لوگ ایک عرصہ سے محرومیوں کی بات کر رہے ہیں ، انہیں شکایت ہے کہ وسائل کی تقسیم میں ان سے غیر منصفانہ سلوک ہوتا ہے۔ ملازمتوں خصوصاً وفاق ، پنجاب کے کلیدی عہدوں بارے سرائیکی تحریک کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ وسیب آبادی کے مطابق ملک کی مجموعی آبادی کے ایک چوتھا ئی اور پنجاب میں نصف فیصد ملازمتوں کے حقدار ہیں مگر انہیں محض 5 فیصد حصہ بھی حاصل نہیں ۔ کیا وسیب کے لوگ محض غلام رہنے کیلئے پیدا ہوئے ہیں ۔ صوبہ خیبرپختونخواہ میں سرائیکی خطہ کے ڈویژن دیرہ اسماعیل خان والوں کو بھی یہی شکایات ہیں ۔ دیکھنا یہ ہے کہ آیا یہ صرف سرائیکی تحریک کا پروپیگنڈہ ہے یا پھر اس میں کچھ حقیقت بھی ہے؟ اس حقیقت کو جاننے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ وفاقی حکومت کے تمام محکمہ جات مثلاً فوج ، عدلیہ، مقننہ ، فارن سروسز، آل کارپوریشنز مثلاً پی آئی اے، ریلوے، آئل اینڈ گیس، ٹریڈنگ کارپوریشن کے ساتھ ساتھ صوبہ پنجاب و خیبرپختونخواہ کے اداروں اور سول سروسز میں افسران اور ملازمین کا ڈومیسائل چیک کیا جائے تو پوری صورتحال آئینے کی طرح سامنے آ سکتی ہے ، اور اس بات کا بخوبی پتہ چلتا ہے کہ سرائیکی وسیب کے لوگ جھوٹا واویلا کر رہے ہیں یا پھر ان کی واقعی حق تلفی ہوئی ہے۔ یہ بات مسلمہ ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت غور طلب ہے کہ انصاف کے ادارے عدلیہ میں بھی سرائیکی وسیب کے ساتھ بے انصافی اور محرومی کا شکار ہے اور یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ پرانا قصہ ہے ، اس بات کا ثبوت کیلئے بندہ ناچیز ( راقم ) خود مثال ہے ۔ واقعہ اس طرح ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کی نا انصافیوں سے تنگ آ کر چند سال پہلے ملتان کے وکلاء نے ہائیکورٹ بیچن کے صدر ضیاء الدین قمر کی قیادت کے وکلاء نے ملتان بینچ کو ہائیکورٹ کا درجہ دینے کیلئے تحریک چلائی ، سول سوسائٹی سے دوسرے اداروں اور افراد کی طرح ملتان کے میڈیا اور صھافی برادری نے بھی وکلاء برادری کا ساتھ دیا اور ان کے مطالبے کی حمایت کی ، حکمرانوں نے وکلاء کو کچھ نہ کہا البتہ ایس ایس پی سپیشل برانچ کی تحریک پر ڈپٹی کمشنر ملتان نے بوہڑ گیٹ تھانے میں میرے خلاف ایف آئی آر درج کرا دی ۔ میرے خلاف جھوٹا مقدمہ درج ہوا ، اس کی مدعی پنجاب سرکار اور گواہ سپیشل برانچ کا یک اے ایس آئی اور ایک کانسٹیبل تھا ۔ مجھے عبوری ضمانت کرانا پڑی ، بعد ازاں ملتان کے ایڈیشنل سیشن جج نے تو انصاف نہ دیا اور میری عبوری ضمانت کینسل کر دی البتہ ہائیکورٹ ملتان بیچن کے جسٹس راجہ ایوب جن کا تعلق پوٹھوہار سے تھا ، سرکاری وکیل کی سرزنش کی کہ تحریک وکلاء نے چلائی اور بیورو کریسی نے مقدمہ ایک صحافی پر قائم کر دیا اور حکومت کو سول سوسائٹی سے کوئی گواہ بھی نہ مل سکا ۔ سرائیکی وسیب کے وکلاء کو انصاف ملنا چاہئے ، یہ ان کا دیرینہ مطالبہ ہے اور ہم ان کے مطالبے کی حمایت کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے ، چاہے ہماری جان ہی کیوں نہ چلی جائے ۔ لیکن وکلاء کو بھی وسیب کے حقوق کیلئے باہر آنا ہو گا ، وکلاء کے حقوق کا معاملہ وسیب کے حقوق کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اگر وسیب کو حقوق ملیں گے ، صوبہ بن جائے گا تو ملتان ہائی کورٹ کا بینچ نہیں بلکہ مکمل ہائیکورٹ خودبخود بن جائے گی ۔ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سے لیکر چپراسی تک تمام ملازمین کو تعینات کرنے کا اختیار ملتان کے پاس ہوگا۔ وسیب کے وکلاء مسئلہ مسئلہ کرتے رہیں گے تو مسئلے حل نہیں ہونگے۔ جج برطرف ہوں وسیب کے وکلاء ڈنڈے کھائیں اور بحال ہوں تو بھنگڑے ڈالیں مگر خود اپنے یا اپنے وسیب سے ظلم اور نا انصافی ہو تو خاموش تماشائی بن جائیں ، یہ رویہ ذہنی غلاموں کا تو ہو سکتا ہے ، آزاد سوچ کے مالک کسی ذی ہوش وکیل کا نہیں ۔ یاد رکھنا چاہئے کہ ظلم سے بڑا ظلم ظلم سہنا ہے اور جرم سے بڑا جرم اس پر خاموشی ہے۔