مولانا فضل الرحمان ڈی چوک اسلام آباد میں دھرنا دیں گے یا نہیں؟ ابھی اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ شاید مولانا فضل الرحمان کے پاس بھی نہیں۔ کیوں کہ مولانا صاحب ضد کی سیاست نہیں کرتے۔ انہوں نے سیاست میں جذباتیت کی علامت بننے کے بجائے ہمیشہ عقل سے فیصلے کیے ہیں۔ وہ پاکستان کے ایک بہت بڑے عملیت پسند (Pragmatic) سیاستدان ہیں۔یہ ان کا کمال ہے کہ انہوں نے دین اور دنیا میں جوتوازن پیدا کر رکھا ہے وہ کسی اور مذہبی جماعت میں نہیں ہے۔ مولانا فضل الرحمان سے کوئی کتنے بھی اختلافات کر سکتا ہے اور ان پر کئی قسم کے الزامات دھر سکتا ہے مگر انہوں نے آج تک پاکستان میں اپنی جماعت کے کارکنوں کو قربانی کا بکرا نہیں بنایا۔ ہماری سیاست میں سب سے بڑی برائی لاشوں پر سیاست کی ہے۔ مولانا نے اب تک نہ تو لاشوں پر کھڑے ہوکر اپنا قد بلند کرنے کی کوشش کی ہے اور نہ انہوں نے اپنے مفاد کے لیے مسجد کا منبر استعمال کیا ہے۔ مگر اس بار وہ جو کچھ کر رہے ہیں اس سے ان کی صاف ستھری سیاست پر خون کے دھبے بھی لگ سکتے ہیں اور ان پر مذہبی جنون پھیلانے کا الزام بھی عائد ہو سکتا ہے۔ اس بات کا احساس مولانا کو بھی ہے۔اس لیے مولانا آخر تک تیار رہیں گے کہ وہ ملک کو کسی آزمائش میں نہ ڈالیں۔ حکومت کو مولانا فضل الرحمان سے مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ حکومت کو اس بات کا بھی احساس ہونا چاہئیے کہ اگر مولانا ایک برس کے بعد بیزار ہوکر انتہائی قدم اٹھارہے ہیں تو اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ وہ سارا سال انتظار کرتے رہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کو اپنی یہ نا دانی تسلیم کرنی چاہئے کہ انہوں نے حزب اختلاف کو متحد ہونے کا نہ صرف بھرپور موقع فراہم کیا بلکہ انہوں نے مولانا کی صورت میں انہیں اکٹھا کرنے والی قوت بھی دی۔ مولانا فضل الرحمان میں خامیاں ہوسکتی ہیں مگر ان میں ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ ہر قسم کی حکومت کے ساتھ چل سکتے ہیں۔ وہ بینظیر بھٹو سے لیکر نواز شریف اور آصف زرداری سے اس طرح مل کر چلتے ہیںکہ انہیں کبھی مولانا سے کوئی تکلیف نہیں پہنچی۔ موجودہ حکومت کو یہ بھی سوچنا چاہئے کہ جب کوئی تقریب ہوتی ہے تب ایک مولانا کی موجودگی مناسب محسوس ہوتی ہے۔ مولانا کے ساتھ مذہبی جماعتوں نے نہیں نبھایا مگر افسوس کہ مولانا نے جس اقتداری سیاست کے لیے اپنے مذہبی سیاست کرنے والے دوستوں سے دوری اختیار کی وہ اقتداری سیاست انہیں تنہائی کی اذیت میں دھکیلتی رہی۔ مولانا صاحب اس بات سے ماورا ہیں کہ حکومت کس کی ہے؟ مولانا کے لیے یہ بات اہم ہے کہ حکومت ہے اور وہ حکومت انہیں عزت سے اپنے ساتھ بٹھانے کے لیے تیار ہے۔ مولانا کو ویسے بھی اور کیا چاہئے؟ ایک عزت اور دوسرا اقتدار۔ مولانا اقتدار کا حصہ لینے کے سلسلے میں لالچی بھی نہیں ہیں۔ وہ حکومت کے حدود کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ ان کومعلوم ہوتا ہے کہ کون سی حکومت کس حد تک دے سکتی ہے۔ مولانا کی تربیت مدرسے میں ہوئی ہے۔وہ اپنے پیروں تک پہنچنے والے کمبل کی فرمائش نہیں کرتے۔ وہ کمبل دیکھ کر پاؤں پھیلاتے ہیں۔ وہ حکومت کے لیے مشکل پیدا نہیں کرتے۔ اس لیے موجودہ حکومت اگر مولانا کو اپنے ساتھ ملائے تو یہ نہ صرف حکومت بلکہ مولانا اور ملک کے لیے بھی بہتر ہے۔ موجودہ حکومت اگر دو قدم آگے بڑھ کر مولانا کو منا لیتی ہے تو حکومت پر کسی قسم تنقید نہیں ہوگی۔ کوئی نہیں کہے گا کہ حکومت نے سمجھوتے کی سیاست کی ہے۔ اگر موجودہ حکومت پیپلز پارٹی کے ساتھ پینگیں بڑھاتی ہے تو اس پر تنقید ہوگی اور ضرور ہوگی۔ آصف زرداری نے تحریک انصاف کی حکومت سے ملنے کی بھرپور کوشش کی مگر عمران خان نہ مانے۔ عمران خان نے بہت اچھا کیا۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ مولانا حزب مخالف کی دو بڑی جماعتوں کی طرح کرپٹ نہیں ہیں۔ مولانا حکومتوں کا حصہ رہے ہیں اور مولانا نے حکومتوں سے مراعتیں بھی حاصل کی ہیں مگر مولانا نے کبھی ایسی کرپشن نہیں کی کہ وہ نیب کے نشانے پر آجائیں۔سیاست میں کوئی بھی مستقل دوست یا مستقل دشمن نہیں ہوتا۔ کل کے دوست آج کے دشمن اور آج کے دشمن کل کے دوست ہو سکتے ہیں۔ سیاست میں اصولوں پر سمجھوتہ کیے بغیر مخالفین کے لیے دروازے کھلے رکھناسیاسی دانشمندی کا گر سمجھا جاتا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کو ملکی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی انا کو قربان کرنا چاہیے۔اگر تحریک انصاف کی حکومت متحدہ کو گلے سکتی ہے تو مولانا کو کیوں نہیں؟ مولانا اور ان کی جماعت نے عمران خان کے خلاف ایسی کوئی کارروائی نہیں کی جو متحدہ ماضی میںکرتی رہی ہے۔ مولانا نے کراچی کی دیواروں پر گندی چاکنگ نہیں کی۔ مولانا اور ان کی جماعت نے عمران خان پر اس طرح کیچڑ نہیں اچھالا جس طرح متحدہ نے ماضی میں اچھالا۔ متحدہ کے دامن پر تو بہت سارے داغ ہیں۔ متحدہ پر دہشتگردی سے لیکر کراچی کے امن امان کو تباہ کرنے کی تنقید ہوتی رہی ہے۔ متحدہ پر غیر ملکی تعلقات کے الزامات بھی لگتے رہے ہیں۔ مولانا پورے پاکستان میں ہزاروں مدرسے چلاتے رہے ہیں مگر مولانا کی کسی مدرسے سے غیرقانونی ہتھیاربازیاب نہیں ہوئے۔ مولانا کی سیاست ہمیشہ تشدد سے پاک رہی ہے۔ مولانا کسی سیاسی مخالف سے انتقام نہیں لیا۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ مولانا ملکی سالمیت کے خلاف کبھی کسی سازش کا حصہ نہیں رہے۔ مولانا فضل الرحمان اور عمران خان کے درمیاں خیبر پختون خوا کو جیتنے کے سلسلے میں مقابلہ رہا ہے مگر مولانا نے اس مقابلے میں آخری حد کراس کرنے کی کوشش نہیں کی۔ مولانا کی سیاست کا اپنا انداز رہا ہے۔وہ انداز تحریک انصاف کے لیے تکلیف کا باعث نہیں بنے گا۔اس وقت پاکستان جن عالمی اور علاقائی مسائل سے دوچار ہے اس میں مولانا کا ساتھ تحریک انصاف کی حکومت کو مدد فراہم کرے گا۔مولانا فضل الرحمان اس وقت بہت غصے میں ہیں مگر انہیں موجودہ حالات میں بھی منایا جا سکتا ہے۔مولانا دل سے زیادہ دماغ سے کام لیتے ہیں۔ وہ بھی جانتے ہیں کہ ملکی مفاد کے لیے ایک قدم پیچھے ہٹا جا سکتا ہے۔ مگر اس کے لیے حکومت وقت کو دو قدم آگے آنے کی ضرورت ہے۔حکومت کے پاس اب بھی بہت سارے چینلز ایسے ہیں جو مولانا اور حکومت کے درمیاں پل کا کردار ادا کرسکتے ہیں۔یہ بات حکومت وقت کو بھی معلوم ہے کہ مولانا کو منانا ناممکن نہیں ہے۔ مولانا مان سکتے ہیں۔ مولانا مان جائیں گے۔مولانا کو منانا چاہئے۔