کج فہم ہیں جو اقتدار پر نشہ کی تہمت باندھتے ہیں۔ یہ عشق کی مستی ہے‘ جو مقتدران کو مخمور کیے رکھتی ہے۔ اگر اقتدار میں نشہ ہوتا تو اہلیان اختیار و اقتدار کے بجائے ایوان اقتدار ناچا کرتے۔ وہ تو اہل کمال و فن مذہب کو سیاست سے جدا اس لئے نہیں ہونے دیتے کہ کہیں سیاست صرف چنگیزی نہ رہ جائے۔ یہ سچ ہے کہ جب اقتدار کی شرابوں میں اعتقادات ودینیات کی شراب طہورہ ملتی ہے تو نشہ بھی سوا ہو جاتا ہے اور عشاق مستی میں دیوانہ وار جھومتے اور معتقدیان سردھنتے ہیں۔ اس مستی بلکہ خرمستی میں محمود و ایاز ایسے ایک ہی صف میں کھڑے ہوتے ہیںکہ بندہ اور بندہ نواز کا فرق مٹ جاتا ہے اور ’’میں رانجھن وچ رانجھن میں وچ‘‘ والا معاملہ ہوتا ہے۔ لاوجودیت کی اس حالت میں اگر اقتدار سے باہر دھکا دے دیا جائے تو سابقان اقتدار کا بدن ٹوٹے ہے اور کیوں نہ ٹوٹے بقول شاعر: عمر گزاری ہے تیری یاد کا نشہ کرتے اب تیرا ذکر نہ چھیڑیں تو بدن ٹوٹتا ہے افسوس صد افسوس یہ کوئی راکٹ سائنس نہ تھی بلکہ فلسفہ اور منطق کا سادہ سا اصول ہے جو ناقدین کی سمجھ میں نہیں آرہا اور مارے حسد کے اقتدار کو مشتاق یوسفی کا گھونسلا اور عشاق اقتدار کو پنچھی بنا کرحوالے گھڑتے ہیں۔ جو پنچھی اقتدار کے گھونسلے سے نیچے گر جاتا ہے وہ ایک عجیب ناسٹلجیا میں مبتلا ہو جاتا ہے‘ اسے چھوڑا ہوا گھونسلا یاد آتا ہے‘ وہ چاہتاہے ‘وہ ایک بار پھر نئی زمین ‘نئی فضائوں میں اقتدار کی شاخ پر ٹنگا ہو۔اسے حاسدین کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے سے تعبیر نہ کیا جائے تو کیا جائے کہ مارے جلن کے اصول ‘ نظریات کا تمسخر اڑاتے ہیں اور الزام دھرتے ہیں کہ سیاستدان گفتار کے غازی ہیں ۔بڑے بڑوں کا من موہ لیتے ہیں تو عوام کس کھیت کی مولی! اور ایسے ایسے نامعقولات بولتے ہیں اور کوستے ہیں۔ نامعقولات ملاحظہ ہوں: برگ سے زباں ہے نازک تر پھول جھڑتے ہیں بات بات اوپر یہ شعر یقینا میر نے اپنے محبوب کے لئے کہا ہو گا مگر راقم نے اپنے ممدوح مولانا میں اس شعر کو مجسم دیکھا ہے۔73ء کے آئین کے تناظر میں معاملہ فہمی کا ہنر آپ کی گھٹی میں ہے تبھی تو ہمیشہ اقتدار ان کے بغیر ادھورا و ناممکن محسوس ہوتا ۔ اس نامکمل پن کی تکمیل کے لئے آئین میں گنجائش اشارہ غیبی پانے اور نکالنے کی کوشش کرتے ہیں ان کی حقیقت پسندی کا یہ عالم ہے کہ : سدا ایک ہی رخ نہیں چلتی نائو چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی مولانا کی بوتل کا سا روپ دھارنے کی صلاحیت ہی تھی کہ ملک کی تمام مذہبی جماعتوںبشمول ایم ایم اے ان کے بغیر نامکمل تھیں توملک میں اسلام کی آبیاری مولانا کے فہم و تدبر کے بغیر ممکن نہ تھی۔یہاں تک جنرل مشرف کے لبرل اور معتدل روشن اسلام کی بھی مولانا کے اپوزیشن لیڈر ہونے کے بغیر تکمیل ناممکن تھی۔ ایک ٹی وی اینکر کے انکشاف اور نیب کے انکشافات حسد اور جلن کا شاخسانہ ہیں ورنہ مولانا نے سابق صدر مشرف کے ساتھ مل کر پاکستان کے چہرے سے قدامت پسندیکے داغ رگڑ رگڑ کر دھونے اوراقوام عالم کے سامنے روشن اور معتدل پاکستان کا منور چہرہ پیش کیا۔پسینہ خشک ہونے سے پہلے مولانا نے جنرل سے فوجیوں کی چھ ہزار کنال اراضی کی فرمائش کر دی تو کیا برا ۔ پھر یہ تو دل ملنے کے سودے ہوتے ہیں۔ مشرف نے لطف الرحمان کے نام زمین خود لگوائی تھی مولانا نے ہتھیائی تھوڑی تھی۔ سیاست نام ہے ایڈجسٹمنٹ کا اور اس ہنر میں بھی میرے مولانا کا کوئی ہم سر نہیں۔ یہ باقیوں کی نالائقی ہے۔ مولانا نے ڈکٹیٹر سے تال میل بنایا زمیں لی کیا برا کیا! انہوں نے طالبان جامعہ حفصہ کے کڑے وقت میں فریقین کے درمیان معاہدے کے لئے پل نہ سہی رابطہ کار کا اپنے تئیں فریضہ انجام دینے کی کوشش بھی تو کی۔ باقی رہا آمریت اور جمہوریت کا بکھیڑا تو مولانا نے تو دونوں کی ہی خدمت میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی: رات کومے خوب سی پی صبح کو توبہ کر لی رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی اس سے بہتر اور شاندار تفسیر اور کیا ہو سکتی ہے کہ آمریت سے نجات ملنے کے بعد مولانا جمہوریت کے ہر اول دستے کی پہلی صف میں موجود پائے گئے ۔ کون سی جماعت ہے جو مولانا کی برکتوں سے فیض یاب نہ ہوئی۔ ایم کیو ایم ‘ پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ ‘ یہ جمہوریت پسندی نہیں تو کیا ہے کہ مولانا نے پیپلز پارٹی کی نائوکو پانچ سال طوفانوں میں سہارا دیے رکھا اور مسلم لیگ ن کے برے وقت میں بھی ایک چٹان کی صورت مستقل مزاجی سے کشمیر ایسا مشکل تنازع حل کرنے کے جتن کرتے رہے ۔بدلے میں قوم سے لیا بھی کیا صرف اپنے ایک بھائی کے لئے پی آئی اے میں نوکری۔حکومت کااگر عطا الرحمن کو پی آئی اے کو اسلامی رنگ میں رنگنے کے لئے چندلاکھ تنخواہ دیتی ہے تو کوئی احسان تو نہیں کیا ۔ مولانا کی نیک نامی پر دوسرے بھائی کو پی ٹی سی ایل کی ایک ادنیٰ سی نوکری سے افغان کمشن کے اعلیٰ عہدے تک پہنچنے کا بٹہ لگاتے ہیں بھلا اس معاملے میں مولانا کا کیا لینا دینا ۔انہوں نے کسی کی کنپٹی پر بندوق رکھی تھی؟ خلاف ضابطہ اگر کچھ ہوا تو ذمہ دار گورنر نہ ہوئے! جنہوں نے قانونی استثنیٰ فراہم کیا؟ سب مولانا کے پیچھے آخر لٹھ لے کر کیوں پڑ جاتے ہیں۔ جلنے والے جلتے ہیں: خلاف شرح شیخ تھوکتا بھی نہیں مگر اندھیرے اجالے میں چوکتا بھی نہیں مولانا نے اپنے کندھوں پر اصلاح مملکت اور اسلام کا کوہ گراں اٹھایا ہے ۔اس کارخیر کو انجام دینا بھی مولانا کا ہی حوصلہ ہے۔ ایسے وقت میں جب اشارہ غیبی والے بھی نظر کرم میں بخیلی سے کام لے رہے ہیں۔ مولانا نظریات اور اسلامی تشخص کی بقا اور احیاء کے لئے ایسے کڑے وقت میں ڈٹے ہوئے ہیں جب جمہوریت کے چمپئن ہونے کی دعویدار پی پی اور ن احتساب کے عفریت کے سامنے دبکے بیٹھے ہوئے ہیں۔ کوئی مصالحت کی امید لگائے بیٹھا ہے تو کوئی ڈیل کی ۔یہ مولانا ہی ہیں جو قوم کی امیدوں کا بوجھ رضا کارانہ اٹھانے کے لئے خوشدلی سے آمادہ ہیں۔ کوئی بدبخت ہی ہو گا جو انکار کرے۔ آفتاب کی روشنی کا چراغوں سے کیا مقابلہ۔ مولانا اس بار جمہوریت اور اسلام کی چومکھی نہیں سومکھی لڑ رہے ہیں۔ نا ماننے والوں کا کوا تو سفید ہی رہے گا مگر سچ تو یہ ہے در حقیقت مولانا ایک پنتھ دو کاج کے مصداق پاکستانیوں کی ’’غیرمولانا ئی حکومت‘‘ کی نحوست سے نجات دلانے، پندرہ لاکھ جانثاروں کے ساتھ اسلام آباد کو آزادی دلانے کے لئے مارچ کرنے کا مصمم ارادہ کر چکے ہیں جن کو یقین نہیں اور نیب اور کرپشن کیسز کی بے پرکی اڑا کر عوام الناس کو گمراہ کر رہے ہیں ان کو خبر ہو کہ مولانا نے انگریز نما انصاف سے نجات کے لئے پاکستانیوں سے ناموس رسالت کے نام پر اب تک 35کروڑ جمع کر لئے ہیں تاکہ کاررواں جمہوریت رواں دواں ‘اور اسلام خطرات اور بلائوں سے محفوظ رہے ۔یقینا35کروڑ کی رقم اس عظیم مقصد کے لئے تھوڑی ہے ۔مگر کج فہم اس کمزوری کا فائدہ نہ اٹھا پائیں اور کاررواں ایمان نو کو نظر بد سے محفوظ رکھنے کے لئے لیگی اور پی پی صدقات کی کمک بھی تو ہے ۔اب مولانا ایسے بھی سیاسی نابالغ نہیں کہ ’’ زرداروں‘‘ ’’نوازشات‘‘ کا کھلے بندوںبھید کھول دیں۔ مولانا کی اپنے چاہنے والوں کو تلقین ہے کہ وہ قوت ایمانی کو ماند نہ پڑنے دیں۔ اسلام آبادکی آزادی‘ مارچ کے بغیر ممکن نہیںاور پاکستان میں ناموس رسالت کا تحفظ کا ’’اقتدار فضلی‘‘ کی حفاظت کے بغیر ممکن نہیں۔ آپ آزادی کے لئے دل کھول کر ناموس رسالت کے ٹکٹ خریدیں اور ’’اقتدار فضل‘‘ کے ناقدوں کی بے تکی اور غیر شرعی دلیلوں سے اپنے ایمان کو آلودہ نہ ہونے دیں بھونکنے والے بھونکتے اور قافلے رواں رہتے ہیں۔ برا کہنے والوں پر کان نہ دھریں: غالب برا نہ مان جو واعظ برا کہے ایسا بھی کوئی ہے کہ سب اچھا کہیں جسے!