حضرت مولانا فضل الرحمٰن کے لانگ مارچ کی countdownیعنی بہ زبان اردو گنتی شروع ہوگئی ہے۔جس وقت آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہونگے ۔ ۔ ۔ آگے محض دس دن رہ جائیں گے۔تمام تر اندرون اور معتبر ذرائع کے مطابق بیرون دباؤ کے باوجود حضرت مولاناڈٹے ہوئے ہیں،کہ تمام رکاوٹیں توڑتے ہوئے سارے ملک کے شہروں سے اُن کے حامی لانگ مار چ کرتے ہوئے 31اکتوبر کو اسلام آباد پر دھاوا بولیں گے۔حضرت مولانا کی قابل رشک صحت پر تو بہر حال داد دینی پڑتی ہے کہ صبح کوئٹہ میں ہوتے ہیں ،شام اسلام آباد اور پھر اُسی شب بعد نماز ِ عشاء اپنے آبائی گھر ڈیرہ اسماعیل خان کی طرف رواں دواں ہوتے ہیں۔آبائی گھر میں بس شب بسری ہی ہوتی ہے۔علی الصبح وہ پشاور سے کسی دوسرے شہر کی فلائٹ پکڑ رہے ہوتے ہیں۔حضرت مولانا کی اس تیز رفتاری بلکہ پھرتیوں کو دیکھتے ہوئے پی پیوں اور ن لیگیوں کو بھی بالآ خر مجبور ہونا پڑا کہ اگر لانگ مارچ میں دھوم دھام سے شامل نہ بھی ہوں تو کم ا ز کم کاندھا دینے کے لئے ضرور تیار ہوگئے ہیں۔تحریک انصاف کی حکومت کے سارے چھوٹے بڑے اٹھتے بیٹھتے اسکرینوں پر بیانوں کی گولہ باری میں مصروف تھے۔اور جن کا خیال تھا کہ وہ حضرت مولانا کو تنہا کرنے میںکامیاب ہوجائیں گے۔اب خود ’’تنہا‘‘ ہوتے جارہے ہیں۔ن لیگ اور پی پی توخیر بغض بلکہ انتقاماً حضرت مولانا کا ساتھ دے رہے ہیں مگر کے پی میں اُن کے نظریاتی مخالف اے این پی تک نے لانگ مارچ میں اپنا حصہ ڈالنے کا اعلان کردیا ہے۔ابھی پیر کو ہی پرنٹ میڈیا کے صفحہ ٔ اول پر جس طرح حضرت مولانا کو باوردی گارڈوں کے جُلو میں سلامی لیتے دیکھا۔ ۔ ۔ اُس سے اب یقین کرنا پڑ رہا ہے کہ مولانا کا لانگ مارچ معاشی بوجھ تلے دبی خان صاحب کی حکومت پر بھاری پڑنے والا ہے۔گزشتہ اور اس سے پیوستہ کالم میں ذکر کرچکا ہوں کہ مارچ 1977ء میں بھٹو صاحب جیسے سحر انگیز اسٹیٹسمین نے بھی قومی اتحاد کی نظام ِ مصطفی کی تحریک کو محاورے کی زبان میں ہلکا لیا تھا۔اُس وقت تک بھٹو صاحب اُس روایتی ،خوشامدی ٹولے کے گھیرے میں آگئے تھے جو قومی اتحاد کی تحریک کو محض مٹھی بھر مساجد اور مدرسوں کے ہجوم سے زیادہ اہمیت نہیںدیتا تھا۔ خود بھٹو صاحب مارچ1977ء کی دھاندلی زدہ پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے اپنی کرسی کی مضبوطی اور امریکنوں کو للکار رہے تھے ۔ اپنی ذہانت و فطانت کے باوجود وہ اس بات سے بے خبر تھے کہ اُن کی پیٹھ میں چھُرا گھونپنے والے محض اُن ساتھ بیٹھے مشیر، وزیر ہی نہیں بلکہ وہ سپہ سالار بھی پی پی کی گرتی حکومت کو دیکھ کر اپنی تابعداری اور وفاداری تبدیل کرچکا ہے۔دفاعی تجزیہ نگار شجاع نواز اپنی کتاب ’’بے نیام تلواریں‘‘ میں لکھتے ہیں : ’’ضیاء نے اپنے مقامی کور کمانڈرفیض علی چشتی کے ساتھ مل کر اپنا ایک علیحدہ خفیہ پلان بنایا۔4جولائی کو جب پی پی پی اور پی این اے کے درمیان مذاکرات ناکام ہوگئے تو انہوں نے اس پر عمل کرنے کی تیاری کی ۔لیکن انہوں نے چند گھنٹے انتظار کیا کہ شاید آخری لمحوں میں کوئی حل نکل آئے۔پھر جنرل چشتی کے فوجیوں نے عمل در آمد شروع کردیا۔حکومتی وزراء اور آئی ایس آئی کے ڈی جی جیلانی کو گرفتار کرلیاگیا۔111بریگیڈ کا عملہ وزیر اعظم ہاؤس کی نگرانی پر مامور تھا لہٰذا مزید نفری کی ضرورت نہیں پڑی اور بھٹو کو وزیر اعظم ہاؤس میں نظر بند کردیا گیا۔ایک فائر کی آواز سنائی نہیں دی ۔ ’’اس رات کی کارروائی کا حال بریگیڈیئر امتیاز وڑائچ نے ان الفاظ میں بیان کیا: اس فیصلہ کن رات کو 11:30بجے چیف آف اسٹاف 10کور نے ذاتی طور پر مجھے احکامات دئیے۔ملک میں خانہ جنگی پھیلنے کے حالات پیدا ہورہے ہیںاس لئے فوج نے دخل اندازی کا فیصلہ کرتے ہوئے یہ طے کیا ہے کہ پی این اے اور پی پی پی کے تمام سرکردہ افراد کو حراست میں لے لیا جائے ۔جب کام مکمل ہوگیا اور رات 3:30تک تمام مطلوبہ افراد کو حراست میں لے لیا گیا تو جنرل ضیاء نے معزول وزیر اعظم کو فون کرکے کہا کہ ملک میں مارشل لاء لگا دیا گیا ہے ۔اس لئے وزیر اعظم کو صبح 7:00بجے مری منتقل کردیا جائے گا۔ ’’وزیر اعظم کو فون کرنے کے بعد ضیاء نے جنرل شریف کو فون کیا اور کہا:’سر میں نے وہ (کام)کرلیا ہے‘۔’کیا کرلیا ہے‘جواب آیا:’بھٹو کو ہٹا دیا ہے۔‘جنرل شریف نے کہا’اب تم مجھے کیوں فون کررہے ہو؟‘ضیاء نے کچھ مزید کہنا چاہا مگر جنرل شریف نے فون رکھ دیا۔ ’’اپنے زوال کے بھٹو خود ذمہ دار تھے۔انہوںنے اپنے پرانے ساتھیوں سے قطع تعلق کرلیا تھا۔فوج کے مقابل اپنی ایک ذیلی فوج بنالی تھی او ر خوشامدی اور بے لگام نوکر شاہی کے جال میں پھنس کر اپنے ارد گرد کے حقائق سے غافل ہوگئے تھے۔صنعتکاروں بینکاروں سے مخا لفت مول لے لی تھی۔اس پر طرہ یہ کہ عوامی منتخب نمائندہ ہونے کے باوجود آمرانہ رویہ اختیار کرلیا تھا۔جب طاقت کے استعمال کرنے کا وقت آیا تو انہیں معلوم ہوا کہ اصل طاقت کا سرچشمہ ابھی بھی فوج ہے اور اسے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لئے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ضیاء الحق شاید کسی حد تک بھٹو کی حمایت پر آمادہ ہوںلیکن جب فوج کے نظم و نسق اور سا لمیت کو خطرہ لاحق ہو ا تو ضیاء نے بھٹو کو ہٹا دیا۔‘‘ یہ بات بھی اپنی جگہ دلچسپ ہے کہ بھٹو مخالف نو جماعتی پاکستان قومی اتحاد کے سربراہ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا مفتی محمود تھے۔اور کتنا دلچسپ اتفاق ہے کہ 42سال بعد مولانا مفتی محمود کے صاحبزادے مولانا فضل الرحمٰن ہی عمران خان مخالف اپوزیشن جماعتوں کی سربراہی سنبھالے ہوئے ہیں۔صرف ایک اور وہ بھی خاص مرکزی ’’محرک ‘‘کو چھوڑ کر پاکستان قومی اتحاد اور جمعیت علمائے اسلام کے لانگ مارچ میں کم و بیش تمام ہی عوامل اورمحرکات میں بڑی مماثلت ہے۔ہاں،یہ ضرور ہے کہ بھٹو صاحب مخالف تحریک کے پھلنے پھولنے میں چار سال لگے جبکہ خان صاحب مخالف تحریک کی فصل سال بھر میں ہی تیار کھڑی ہے؟ (جاری ہے) جس ایک ’محرک‘کا میں نے ذکر کیا وہ ’’پنڈی ‘‘ہے کہ بہرحال سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے جانے کے بعد بحیثیت ایک ادارہ ’پنڈی‘ کے سارے بڑے جہاندیدہ ایک انسٹیٹیوشن کی حیثیت سے یہ فیصلہ کرچکے ہیںکہ وہ کسی بھی سیاسی بحران کی صورت میں پارٹی تو کیا امپائر بھی نہیں بنیں گے۔2014ء میں ہمارے خان صاحب کا دھرنا اُس موڑ پر آچکا تھا کہ بس ایک ’’امپائر‘‘کی انگلی بلکہ چھڑی ہلنے کی دیر تھی ۔یقینا اول تو حضرت مولانا مارچ ابھی گھٹنوں گھٹنوں چلاہے۔یوں اسلام آباد کا تخت اُس سے کوسوں دور ہے ۔پھر نظام ِ مصطفی کے نعرے اور کارڈ کی طرح ابھی حضرت مولانا کا مذہبی کارڈ اور سلیکٹڈ حکومت کا نعرہ زبان ِخلق پر آخر نقارہ خدا تو نہیں بناہے۔۔مگر سال بھر میں معاشی محاذ پر جس طرح حکومت کے اقتصادی اقدام ناکام ہوئے ہیںاُس نے پی ٹی آئی مخالف فضا تیار کردی ہے۔کیا تاجر و صنعتکار اور کیا Poorمحنت کش اور لوئر مڈل کلاس ۔اگر سڑکوں پر باہر نہیں بھی آئے تو اُن کی چیخیں ضرور آسمان کو چھو رہی ہیں۔اور غالباً یہی سب سے بڑا فیکٹر ہے جس نے حضرت مولانا کے لانگ مارچ کو فی الوقت توخان صاحب کی حکومت کو دہلایا نہیں تو ہلا تو ضرور دیا ہے۔(جاری ہے)