مولانا فضل الرحمن پر مخالفین منافقت کا بہتان تراشتے ہیں۔ مخالفت کا حق کسی سے بھی چھینا نہیں جا سکتا۔ مگر منافقت کا الزام لگانا ناانصافی ہے۔ مولانا کا ماضی اس حقیقت پر شاہد ہے کہ انہوں نے منافقت سے کام کبھی نہیں کیا۔ سب جانتے ہیں کہ مولانا کا اور ان کے بزرگوں کا تعلق ایک ایسی مذہبی جماعت سے تھا جو قیام پاکستان کی مخالف تھی۔ مسلم لیگ کے مقابلے میں ان کے بزرگوں کی جماعت نے کانگرس کا ساتھ دیا تھا۔ مولانا اسی پاکستان کی قومی اسمبلی میں کئی برس رکن رہے، ان کے بزرگوں نے جس کی مخالفت کی تھی۔ اسی پاکستان سے انواع و اقسام کی مراعات حاصل کیں۔ کشمیر کمیٹی کے صدر رہے۔ وفاقی وزیر کے برابر ان کا عہدہ تھا۔ اسی پاکستان کی حکومت سے سرکاری رہائش گاہ لی اور سالہا سال اس میں ایک آرام دہ زندگی گزاری۔ کالم نگار آصف محمود دس اگست کے روزنامہ 92 نیوز میں تفصیل سے لکھ چکے ہیں کہ مولانا کے قریبی اعزہ نے کس طرح اس ریاست سے بھرپور فوائد اٹھائے۔ اپنے قریبی ساتھیوں میں سے کسی کو سینیٹ کا ڈپٹی چیئرمین منتخب کرایا اور کسی کو اسلامی نظریاتی کونسل کے صدارتی منصب پر متمکن کرایا۔ جس پاکستان کی مخالفت کی، اسی پاکستان کے حکمرانوں سے قریبی تعلقات رکھے۔ زرداری صاحب ہوں یا جنرل مشرف، بے نظیر بھٹو ہوں یا میاں نوازشریف، ان کی ہر ایک سے گاڑھی چھنتی رہی۔ مگر اس سارے عرصہ میں انہوں نے قائداعظم کو کبھی قائداعظم نہ کہا۔ ان کے منہ سے بانی پاکستان کا کبھی نام نہ نکلا۔ ان کے مزار پر فاتح خوانی کے لیے وہ کبھی نہ گئے۔ اگر ان میں منافقت ہوتی تو پاکستانی عوام کو خوش کرنے کے لیے وہ اپنے اور اپنے بزرگوں کے ماضی سے برات کا اظہار کرتے۔ قائداعظم کی خدمات کوتسلیم کرتے، سراہتے اور مانتے کہ تقسیم کا فیصلہ درست تھا، ان کے مزار پر جاتے۔ 23 مارچ اور 14 اگست کے دن مناتے بالکل اسی طرح جس طرح انہوں نے گزشتہ سال اپنے بزرگوں کی جماعت (جمعیۃ علمائے ہند) کا سوسالہ جشن منایا۔ چنانچہ مولانا کے مخالفین جو الزام بھی لگانا چاہیں شوق سے لگائیں مگر منافقت کا الزام جچتا نہیں۔ نظریاتی حوالے سے وہ کانگرس کے موقف پر آج بھی قائم ہیں۔ یہ ایک بین حقیقت ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ مولانا جمعیت علمائے ہند اور کانگرس کے موقف پر آج بھی قائم ہیں۔ اس سارے عرصہ میں تحریک پاکستان کے حوالے سے انہوں نے کبھی کچھ نہ کہا۔ مولانا ایک بلند پایہ مقرر ہیں۔ فن تقریر میں انہیں کمال حاصل ہے۔ اگر ان کے سیاسی موقف میں تبدیلی رونما ہوئی ہوتی تو یوم پاکستان اور یوم آزادی پر وہ پاکستان کے حق میں، تحریک پاکستان کی تعریف میں اور قائداعظم کی خدمات کے سلسلے میں عالی شان تقریریں کرتے مگر انہوں نے پاکستان، بطور ریاست، کے حق میں شاید ہی کبھی کچھ کہا ہو۔ اس سارے عرصہ میں بھارت کے مسلمانوں پر مصیبتوں کے بڑے بڑے پہاڑ ٹوٹے۔ بابری مسجد شہید کی گئی۔ گجرات میں مسلمانوں کے خون کے ساتھ ہولی کھیلی گئی۔ ان تمام مواقع پر سوچنے سمجھنے والے پاکستانی کے منہ سے بے اختیار نکلا کہ لاکھ لاکھ شکر ہے خدا کا کہ پاکستان بنا ورنہ غیر منقسم ہندوستان میں مسلمان اسی طرح اقلیت ہوتے جس طرح آج کے بھارت میں اقلیت ہیں اور ان پر اسی طرح ہندو اکثریت نے ظلم ڈھانے تھے جیسے آج بھارت کے مسلمان پر ڈھا رہی ہے مگر کشمیر کمیٹی کے صدر نے کبھی ایسے جذبات کا اظہار نہ کیا بلکہ انہوں نے اس کے برعکس کام کیا۔ بھارت گئے تو کہا کہ ایک عدد گول میز کانفرنس بلا کر پاک بھارت سرحد ختم کی جا سکتی ہے۔ جناب ہارون الرشید کئی بار لکھ چکے ہیں کہ قاضی حسین احمد نے مولانا کے اس ’’بھارتی‘‘ بیان کو تاویل کے پردے میں چھپانا چاہا مگر منور حسن نہ مانے۔ مولانا نے یا ان کے کسی ترجمان نے کبھی اس بیان کی تردید نہیں کی۔ مولانا کے کسی ساتھی، ان کی جماعت کے کسی قابل ذکر رکن نے بھی کبھی قائداعظم کا یا تحریک پاکستان کا ذکر نہیں کیا۔ یہی حال ان کے زیر اثر مدارس کا ہے۔ ان مدارس میں پڑھنے پڑھانے والے طلبہ اور اساتذہ بھی قائداعظم کے رول سے اور تحریک پاکستان سے مکمل بے نیاز بلکہ مخالف ہیں۔ یہ تمام حضرات قائداعظم کو جناح صاحب کہتے ہیں۔ اگر آپ ان کی نجی گفت گوئیں سنیں تو آپ کو یہ دیکھ کر حیرت ہوگی کہ کتنا شدید معاندانہ رویہ ہے ان کا قائداعظم اور تحریک پاکستان کے ساتھ۔ گاندھی نہرو اور پٹیل کے بارے میں ان حضرات نے کبھی کچھ نہیں کہا۔ مولانا کا کشمیر کمیٹی کا صدر بننا پھر اتنے برس اس صدارت پر فائز رہنا او ربے تحاشا مراعات سے فیض یاب ہونا پاکستانی تاریخ کا ایک درد ناک Paradox ہے۔ یہ اسی طرح ہے جیسے بنگلہ دیشی حکومت بنگلہ دیش اور پاکستان کو دوبارہ متحد کرنے کے لیے کمیٹی بناتی اور شیخ مجیب الرحمن یا حسینہ واجد کو اس کمیٹی کا سربراہ بناتی۔ یا پاکستانی حکومت بھارت کے ساتھ ثقافتی یا تجارتی تعلقات بڑھانے کے لیے کمیٹی بنائے اور اس کی ذمہ دار حافظ سعید کو سونپ دے یا تقسیم سے پہلے کے مذاکرات میں مسلم لیگ اپنی نمائندگی کے لیے مولانا ابوالکلام آزاد کو منتخب کرتی۔ یعنی جن حضرات نے برملا کہا کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہیں تھے، ان کے سپرد کشمیر کی آزادی کا کام کردیا گیا۔ تاریخ میں شاید ہی اتنا مضحکہ خیز واقعہ کہیں پیش آیا ہو اور مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے زخموں پر اس سے بدتر نمک شاید ہی چھڑکا جا سکے۔ 2017ء میں جب مولانا نے جمعیت علماء اسلام کی صد سالہ تقریبات منانے کا اعلان کیا تو تاریخ پاکستان کے معروف محقق جناب منیر احمد منیر نے ایک تفصیلی مضمون لکھ کر اس مجوزہ صد سالہ تقریب کی حقیقت کو واشگاف کیا۔ منیر صاحب لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کے بارے میں ہندوئوں کے شدید متعصبانہ رویے سے تنگ آ کر 1937ء کے انتخابات کے لیے مسلم لیگ، احرار اور جمعیت علماء ہند نے مشترکہ پارلیمانی بورڈ تشکیل دیا۔ مولانا حسین احمد مدنی مسلم لیگ کے حق میں بیانات دیتے رہے اور یہاں تک کہا کہ جو مسلمان مسلم لیگ کے نمائندے کو رائے نہیں دے گا۔ دونوں جہانوں میں روسیاہ ہو گا۔ مگر پھر مولانا آزاد کی کوششیں بار آور ثابت ہوئیں اور جمعیت علماء ہند کانگرس کے ساتھ مل گئی۔ وہی جمعیت اب مسلم لیگ کے خلاف بیانات دینے لگ گئی۔ اس پر مولانا شبیر احمد عثمانی نے لکھا کہ ’’جو چیز 1937ء میں جنت تھی، اب 1945ء میں جہنم کس طرح بن گئی۔‘‘ جمعیت علماء ہند کے مقابلے میں تحریک پاکستان کے حامی علما کرام نے جمعیت علماء اسلام قائم کی۔ 1945ء میں مولانا عثمانی کی قیادت میں کلکتہ میں اس کی تشکیل ہوئی۔ مولانا حفظ الرحمن سیوہاری نے مولانا شبیر احمد عثمانی سے شکوہ کیا کہ ’’جمعیت علماء اسلام محض ہماری جمعیت کے مقابلے میں اس کو توڑنے کے لیے قائم کی گئی۔‘‘ دارالسلام دیوبند کے طلبہ مولانا مدنی کے زیر اثر تھے۔ مولانا شبیر احمد عثمانی نے خود بتایا کہ ان طلبہ نے ان کے قتل تک کے حلف اٹھائے۔ اس نو تشکیل شدہ جمعیت علماء اسلام نے تحریک پاکستان کے لیے کام کیا۔ مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا ظفر احمد عثمانی اور مفتی محمد شفیع نے مولانا اشرف علی تھانوی کی قیادت میں تحریک پاکستان کے لیے انتھک محنت کی۔ آج اگر جمعیت علماء اسلام کا کوئی وارث ہو سکتا ہے تو وہ مفتی محمد شفیع کے فرزند مفتی رفیع عثمانی اور مولانا تقی عثمانی ہیں جو اب بھی، آج بھی، تحریک پاکستان کا ہرفورم پر دفاع کرتے ہیں اور قائداعظم کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہیں۔ جمعیت علماء ہند کے وارث۔ جمعیت علماء اسلام میں کس طرح شامل ہو گئے؟ یہ ایک معمہ ہے ؎ یوں بھی ہوتا ہے کہ آزادی چرا لیتے ہیں لوگ قیس کے محمل سے لیلیٰ کو اٹھا لیتے ہیں لوگ منیر صاحب کے بقول جب ان حضرات نے جمعیت علماء اسلام تلے پناہ ڈھونڈی تو مفتی محمد شفیع صاحب نے برملا لکھا کہ ’’اس کے شرکا عموماً وہ لوگ ہیں جو پاکستان کے نظریہ سے ہمیشہ مختلف رہے اور جمعیت علماء اسلام کے خلاف جمعیت علماء ہند سے وابستہ رہے۔‘‘ یہ ہائی جیکنگ کس طرح ہوئی اور جمعیت علماء اسلام۔ مولانا مدنی کے سیاسی جانشینوں کے ہتھے کس طرح چڑھ گئی؟ ہماری التماس ہے کہ محترم مفتی رفیع عثمانی اس موضوع پر قلم اٹھائیں تاکہ تاریخ پاکستان کے طلبہ استفادہ کرسکیں۔ آج اگر مولانا فضل الرحمن نے چودہ اگست نہ منانے کا اعلان کیا ہے تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔ اقتدار سے محرومی کے بعد ان کا پہلا ہدف یوم آزادی بننا ہی بننا تھا۔ مولانا نے اپنے نظریات پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔