72برسوں سے تنازع کشمیرچلاآرہاہے اس کے حل کے حوالے سے اقوام متحدہ میں کئی قراردادیں موجودہیں لیکن شومئی قسمت یہ عالمی ادارہ آج تک اپنی قرارداوں پہ عمل درآمد نہیں کر سکا جس کے باعث کشمیرمقتل بناہواہے ۔شرم آنی چاہئے اس عالمی فورم کوکہ جو کشمیریوں کے سفاک قاتل نریندرمودی کے بجائے مولانامسعوداظہرکوعالمی دہشت گرد قرار دیتاہے۔ کشمیرمیں ایک لاکھ سے زائدمسلمانوں کو تہہ وتیغ کرنے اور تاحدنظرقبرستان آبادکرانے والے بھارت کے خلاف یہ عالمی فورم کوئی اقدام اٹھارہااورنہ کشمیری مسلمانوں کوحق خودارادیت دلانے کے لئے سامنے آکراپنی ذمہ داریاں پوری کررہاہے ۔ کشمیرہی کی طرح اقوامِ متحدہ فلسطینی مسلمانوں پرڈھائی جانے والی قیامت پرتماشہ بین بناہواہے۔4مئی 2019جمعہ کوغزہ پر اسرائیل نے فضائی اور ٹینکوں سے لرزہ خیزحملے کیے۔ اسرائیلی کارروائی میں تین فلسطینی جن میں ایک خاتون اور اس کی بیٹی شامل ہے شہید جبکہ درجنوں زخمی ہوگئے۔سفاک قاتل نیتن یاہوکی حکومت کی طرف سے جارحانہ کارروائیوں میں اضافہ ہوتاچلاجارہاہے۔ سچی بات یہ ہے کہ اقوام متحدہ کایہ عالمی فورم آج تک کبھی مسلمانوں کے ساتھ کھڑاہوانہ ہی ان کے اہم اوربنیادی مسائل حل کرنے میں کوئی رول نبھایا۔مسلمانوں کاممددومدگاربننے کے علیٰ الرغم اس نے عملی طورپرہمیشہ اسلام اورمسلمان دشمنوں کے سہولت کار کا کردار ادا کیا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ عالمی سطح پرہونے والی ریاستی دہشت گردی کاپشت پناہ ہے اور گوشہ ہائے ارض میں مسلمانوں پر ہورہی ریاستی دہشت گردی سے توجہ ہٹانے کے لئے مسلمان راہنمائوں کو دہشت گرد قرار دے رہا ہے ۔ نائن الیون کے بعد اقوام متحدہ نے کسی بھی تنظیم یااسکے سربراہ واراکین پرپابندیاں عائدکرنے کے لئے سینکشنز کمیٹی (Sanctions committee)تشکیل دیاہے۔سینکشنز کمیٹی نے 2008ء کی قرارداد نمبر 1822اور دیگر متعلقہ قراردادوں پر عملدرآمد کرتے ہوئے یکم مئی 2019بدھ کو مولانا مسعود اظہر کا نام عالمی دہشتگردوں کی فہرست میں شامل کر دیا ہے۔ اقوامِ متحدہ نے اس حوالے سے جوتفصیلات جاری کی ہیں۔اس کے مطابق عالمی دہشت گردی کی فہرست میںمولانا مسعود اظہرکا نمبر 422ہے جس کا مطلب ہے کہ اب تک اس فہرست میں 421افراد کے نام شامل کردیئے گئے تھے ۔خیال رہے کہ دس سال قبل ممبئی حملوں کے بعد پروفیسرحافظ محمد سعید کو اسی فہرست میں شامل کیا گیا تھا ۔ بھارت2016ء سے مولانا مسعود اظہر کو اس فہرست میں شامل کرنے کی سرتوڑکوششیں کرتارہا ہے تاہم چین اِس کی مسلسل مخالفت کرتا رہا ہے۔تاہم 14فروری2019 کو مقبوضہ کشمیرکے ضلع پلوامہ میں قابض بھارتی فوج پرقیامت خیز حملہ ہواجس میں پچاس بھارتی فوج ہلاک ہوئے اس حملے کے بعدبھارت نے مولانامسعوداظہرکودہشت گردی کی فہرست میں ڈالنے کے لئے امریکہ، فرانس اور برطانیہ کی مدد سے ایسی ہی قرارداد پیش کی تھی جسے چین نے تکنیکی بنیادوں پر روک دیا تھا۔لیکن یکم مئی کو چین نے اس حوالے سے پینترابدلاتو اقوامِ متحدہ کی سینکشنز کمیٹی (Sanctions committee) نے1267کے تحت مسعود اظہر کو دہشتگرد قرار دے دیا۔واضح رہے کہ اس فہرست میں جس ملک کے شہری کانام ڈال دیا جائے تو اس ملک کو اپنے شہری کے بارے تین اہم اقدامات کرنے ہوتے ہیں۔ اس شخص کی نقل و حمل پر پابندیاں عائد کرنا، اس کے اثاثوں کو منجمد کرنا اوراسے غیرمسلح کرناہوتاہے ۔ مولانامسعود اظہر 1968ء میں پاکستان کے شہر بہاولپور میں ایک مذہبی گھرانے میں پیداہوئے۔ ان کے والد طب اور حکمت سے تعلق رکھتے تھے جبکہ ان کے نانا محمد حسین چغتائی تحریک ختم نبوت میں سرگرم تھے اور 992 1 تک مجلس احرار عالمی کے امیر رہے۔مولانا مسعود نے ساتویں جماعت کے بعدجامعہ علوم اسلامیہ بنوریہ کراچی میںداخلہ لیا ۔ جامعہ بنوریہ سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہیں وہاں استاد مقرر کر دیا گیا جہاں وہ عربی گرائمرصرف و نحو کی بنیادی کتب پڑھاتے تھے۔ عربی میں دسترس ہونے کی وجہ سے انھیں غیرملکی طلباء کوپڑھانے کی ذمہ داری بھی دی گئی تھی۔ 1989ء میں مسعود اظہر اپنے رفقا ء کے ہمراہ افغانستان گئے جہاں سویت یونین اپنے زخم چاٹ رہاتھااور اپنی ہزیمت پرواپسی کی تیاریاں کررہاتھا۔روس کے خلاف افغان جہادکے اختتام کے بعد مولانا مسعود اظہر نے حرکت المجاہدین میں شمولیت اختیارکی ۔1990 جنوری میں ماہنامہ صدائے مجاہد کا پہلا شمارہ جاری ہوا جو حرکت المجاہدین کاآرگن تھااس کے وہ ایڈیٹررہے۔مولانامسعوداظہرتین درجن کتب کے مصنف بھی ہیں۔مولانامسعوداظہرنے مطالعاتی اغراض کے تحت بھارت کاسفر کیااس دوران وہ مقبوضہ کشمیر پہنچے جہاں1994ء میں وہ گرفتار ہوئے اورکئی برس تک وہ بھارت کے مختلف عقوبت خانوں میں زیرعتاب رہے۔ 24 دسمبر 1999ء کو کھٹمنڈو سے دلی جانے والے انڈین ایئر لائن کے طیارے کو اغوا کر لیا گیا، اس طیارے کو قندھار میں اتارا گیا جہاں طالبان کی حکومت تھی۔ہائی جیکروں نے طیارے میں سوار 155مسافروں کی رہائی کے بدلے مولانا مسعود اظہر کی رہائی کا مطالبہ کیا اور طویل مذاکرات کے بعد مولانا مسعود اظہر کے ساتھ عمر سعید شیخ اورایک کشمیری عسکری کمانڈر مشتاق زرگر کو رہائی مل گئی۔رہائی ملنے کے بعدمولانامسعوداظہرنے حرکت المجاہدین سے الگ ہوکر جیش محمد کے قیام کا اعلان کیا مقبوضہ کشمیرمیں جسے بڑی پذیرائی مل گئی ۔مقبوضہ کشمیر کے دارالحکومت سری نگر میں بادامی باغ کے قریب بھارتی فوجی ہیڈ کوارٹر پر19اپریل 2000کوایک کشمیری مجاہدنے کار بم فدائی حملہ کیا ،جہادکشمیر کی تاریخ میں یہ پہلافدائی حملہ تھابھارتی انٹیلی جنس اداروں کاکہناتھاکہ یہ حملہ جیش محمد نے کیا۔اکتوبر 2001کو جموں و کشمیرکٹھ پتلی اسمبلی اور دسمبر2001ء میں دہلی میں انڈین پارلیمان پر حملے ہوئے جن میں جیشِ محمد کا نام سامنے آیا۔ 2016ء میں پٹھان کوٹ ایئر بیس پر حملے کے بعد اس تنظیم کا نام دوبارہ سامنے آیا۔ اس کے بعد مقبوضہ کشمیرکے ضلع بارہمولہ کے اوڑی میں بھارتی فوج کے بریگیڈ ہیڈکوارٹر پر حملے کا ذمہ دار بھی جیش محمد کو قرار دیاان حملوں کے تین سال بعدمقبوضہ کشمیرکے ضلع پلوامہ میں ہوئے خوفناک حملے کے بعد جیشِ محمد اور مولانامسعود اظہر کا نام دوبارہ سامنے آیااوربالآخرمولانامسعودکواقوام متحدہ نے دہشت گرد ی کی فہرست میں شامل کیا ۔14فروری کوپلوامہ میں ہوئے خوفناک حملے کے بعدبھارتی میڈیانے مولانامسعوداظہرکے خلاف خوب ڈول پیٹاحتیٰ کہ 4مارچ اتوارکو بھارتی میڈیانے اس پربغلیں بجائی کہ مولانامسعوداظہرراولپنڈی کے ایک اسپتال میں طبی موت وفات پاچکے ہیں۔ اس وقت بھارتی میڈیا کی ساکھ کو سب سے سنگین بحران کا سامنا ہے۔ یہ ایسا ملک ہے جہاں غلط معلومات کی وجہ سے بے شمار زندگیاں ضائع ہوئی ہیں مگر پھر بھی یہاں بنا تصدیق کے معلومات کو پھیلایا جا رہا ہے۔ بہرکیف!مولانا مسعود اظہرکواقوام متحدہ کی دہشت گردی کی فہرست میں شامل کراناہندوبنئے کاسیاسی حربہ ہے اور اپنے متعصبانہ ایجنڈے کو آگے بڑھانا ہے۔