آزاد کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر مخلص مگر جذباتی سیاسی کارکن ہیں سیز فائر لائن توڑنے کی تجویز ان کے اخلاص اور جذباتیت کی مظہر ہے۔ عمران خان کے بارے میں عام تاثر یہی ہے کہ وہ بھی جذباتی فیصلے کرتا ہے مگر پہلے آزاد جموں و کشمیر اسمبلی کے اجلاس اور جمعہ کے روز مظفر آباد کے جلسہ عام میں فاروق حیدر کے اکسانے پر وزیر اعظم عمران خان طرح دے گئے‘ سیز فائر لائن توڑنے کے مطالبے پر کہا تو یہ کہ’’ فی الحالی کوئی اس بارے میں نہ سوچے‘ کشمیری عوام میری نیو یارک سے واپسی اور کال کا انتظار کریں‘‘۔ اب یہ مداحوںاور ناقدین کی مرضی ہے کہ عمران خان کی اس بات کو جو چاہیں رنگ دیں مصلحت پسندی‘ کم ہمتی یادور اندیشی تدبر و تحمل اور فراست 1958ء میں سیز فائر لائن کو توڑنے کا پہلا اعلان قائد کشمیر چودھری غلام عباس مرحوم نے کیا ‘قائد اعظم کے قابل اعتماد ساتھی اورکشمیریوں کے بے ریالیڈر کی اپیل پر آزاد جموں و کشمیر کے عوام نے لبیک کہا اور مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان کی قیادت میں ایک قافلے نے رکاوٹوں کے باوجود سیز فائر لائن پار کرنے کی کوشش کی‘ شدید مزاحمت کے باوجود چند پرجوش نوجوان بھارتی سرزمین میں داخل ہونے اور پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہرانے میں کامیاب رہے۔ بھارتی فوج نے انہیں گرفتار کر لیا‘ مقدمہ چلا اور سرینگر ہائی کورٹ نے انہیں رہا کرنے کا حکم دیا۔ وجہ یہ بتائی کہ انہوں نے کوئی جرم نہیں کیا ہر کشمیری کو اِدھر‘ اُدھر آر ‘پار جانے کا حق ہے۔ چودھری غلام عباس اور سردار عبدالقیوم پاکستان میں گرفتار ہوئے اور موخر الذکر نے ڈیڑھ سال کا عرصہ قید و بند میں گزارا۔1992ء میں امان اللہ خان نے چکوٹھی سے کنٹرول لائن پار کرنے کی کوشش کی لیکن پاکستانی فورسز نے انہیں روک دیا۔ تب بھارت تو ایٹمی قوت بن چکا تھا مگر پاکستان نے اپنے ایٹمی پروگرام کا برملا اعتراف کیا تھا نہ چاغی میں ایٹمی تجربات ہوئے تھے۔ تاہم پاکستانی حکومت اور فوج کو احساس تھا کہ کنٹرول لائن پارکرنے کے نتیجے میں حالات کس قدر کشیدہ ہو سکتے ہیں۔ اس وقت دونوں ممالک کے مابین کشیدگی اپنی آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔ گجرات کے قصاب نریندر مودی کے اقدامات کی وجہ سے کشمیر ایٹمی فلیش پوائنٹ بن چکا ہے اور عالمی برادری‘ انسانی حقوق کی تنظیموں‘ بین الاقوامی میڈیا اور اقوام متحدہ ‘او آئی سی سمیت اداروں میں بھارت کی خوب بھد اُڑ رہی ہے۔ بھارت کے روائتی حلیف بھی مودی کے اقدام کا کوئی جواز پیش کرنے کی پوزیشن میںنہیں‘ پاکستان اسّی لاکھ کشمیری عوام کے فوجی محاصرے کو عالمی سطح پر ایک مجرمانہ فعل کے طور پر اجاگر کر رہا ہے اور ہر رنگ‘ نسل‘ عقیدے اور علاقے کے انصاف پسند عوام کشمیری عوام سے ہمدردی جتلا رہے ہیں بھارت ہر ممکن کوشش کر رہا ہے کہ عالمی برادری ‘ اداروں اور میڈیا کی توجہ جموں و کشمیر سے ہٹا کر اپنے شیطانی منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکے مگر فی الحال کامیابی کا امکان نہیں۔ جوںجوں کشمیر میں محاصرے کی مدت بڑھ رہی ہے بھارتی بدحواسی اور بدنامی میں اضافہ ہو رہا ہے مگر پاکستان میں بعض عناصر شدت سے حکومت کی سست روی اور مصلحت کوشی کو اجاگر کر رہے ہیں مولانا فضل الرحمن تو کھلم کھلا حکومت اور فوج پر الزام تراشی میں مصروف ہیں مگر اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں کہ حکومت جلد بازی میں کیا کرے؟ بھارت پر حملہ؟ سیز فائر لائن پار ؟ یاکچھ اور؟ اگر وزیر اعظم آزاد کشمیر فاروق حیدر کی تجویز کے مطابق عمران خان کل کشمیری عوام سے اپیل کریں کہ وہ اپنے وزیر اعظم کی قیادت میں کنٹرول لائن پر پہنچیں اور بھارتی فوج و سرحدی فورس کی طرف سے رکاوٹوں کی پرواہ کئے بغیر سرحد پار کرجائیں تو ہو گا کیا؟ کنٹرول لائن پر بھارتی فورسز گولہ بارود سے لیس شرارت کے لئے تیار کھڑی ہیں ۔بلا اشتعال فائرنگ کے واقعات دوسرے چوتھے روز پیش آتے ہیں‘ گزشتہ روز ایسی ہی فائرنگ سے ایک فوجی اور ایک شہری خاتون نے جام شہادت نوش کیا‘ کنٹرول لائن پر ہجوم اکٹھا ہوا تو پورا عالمی میڈیا جس کا رخ اس وقت سرینگر اور نئی دہلی کی طرف ہے ‘ نریندر مودی اور جارح بھارتی فوج کے لتے لے رہا ہے کنٹرول لائن پر جمع ہو گا اور اس کا فوکس بھارتی مظالم ‘ کشمیریوں کی مظلومیت نہیں‘ سیز فائر لائن پار کرنے کی جذباتی کوشش ہو گا۔ ایسے مواقع پر دشمن کے ایجنٹ ‘ ایٹمی جنگ کے خواہش مند جذباتی عناصر حالات سے فائدہ اٹھانے کی بھر پور کوشش کریں گے‘ ایک پٹاخہ بھی چل گیا تو ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر کھڑی ایٹمی قوتوں کے فوجیوں کا ردعمل اس قدر خطرناک ہو گا کہ سوچ کر ہول آتا ہے۔ مسئلہ کشمیر پس منظر میںچلا جائے گا‘ لوگ طویل کرفیو‘ کشمیری عوام پر بھارتی مظالم اورنریندر مودی کے شیطانی ارادوں کوبھول کر دو ایٹمی قوتوں کے مابین کشیدگی کے چسکے لینا شروع کریں گے‘ میڈیا کے ہاتھ ایک نیا موضوع آ جائے گا اور کچھ معلوم نہیں کہ مجرم کس کو ٹھہرایا جائے گا‘ بھارت یہ پروپیگنڈہ کرے گا کہ پاکستان کنٹرول لائن پر حالات خراب کر کے دراصل گھس بیٹھیے کشمیر میں داخل کرنا چاہتا ہے‘ عالمی برادری کو یہ بھی باور کرائے گا کہ وہ بین الاقوامی معاہدوں‘ قوانین اور اصولوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے ۔پاک فوج اور دیگر اداروں نے اس ہجوم کو روکا تو کشمیری نوجوانوں کے جذبات مجروح ہوں گے۔ دشمن کے ایجنٹ حکومت پاکستان اور فوج کو مطعون کریں گے اور پروپیگنڈے کا رخ پاکستان کے خلاف ہو گا۔ یہ کہا جائے گا کہ اُدھر بھارتی فوج اور ادھر پاکستان کے ریاستی ادارے کشمیری عوام کی جدوجہد کو بزور طاقت دبانے میں مصروف ہیں۔ یہ آبیل مجھے مار کی کیفیت ہو گی‘ جس کا پاکستان کو فائدہ نہ کشمیری عوام کو۔ نیکی برباد گناہ لازم کے مصداق اس تجویزکو رد کرنے کے بجائے ٹال کر عمران خان نے میرے نقطہ نظر سے عقلمندی دکھائی ‘یہی دانشمندی کا تقاضا ہے اور وسیع تر قومی مفاد۔ میں نے آزاد کشمیر کے سابق وزیر اعظم اور مجاہداول سردار عبدالقیوم خان کے صاحبزادے سردار عتیق احمد خان سے پوچھا تو ان کا نقطہ نظر تھا کہ یہ جوش کے بجائے ہوش سے کام لینے کا لمحہ ہے‘ نریندر مودی کی نادانی یا تکبر سے فائدہ اٹھانے کے بجائے پاکستان جذباتیت کا شکار ہوا‘عالمی برادری اور میڈیا کا رخ سرینگر کے بجائے کنٹرول لائن کی طرف کر بیٹھا تو ساری محنت اکارت جائے گی اور کشمیری عوام کی قربانیوں کا سفر مزید طویل ہو سکتا ہے‘ قدم پھونک پھونک کر اٹھانے کی جتنی ضرورت اس وقت ہے‘ ماضی میں کبھی نہ تھی‘ عمران خان نے پاک فوج کی قیادت سے مل کر صرف نریندر مودی نہیں عالمی اداروں اور برادری کو بھی تاریخ کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے ۔راجہ فاروق حیدر کے اخلاص میں شک نہیں مگر فراست مومن کا وہ اثاثہ ہے جو اُسے کامران کرتا ہے۔ فرمایا ’’مومن کی فراست سے ڈرو‘‘ فراست اور اخلاص کے ملاپ سے ہم وہ نتائج حاصل کر سکتے ہیں جو جذباتی پن سے نہیں‘ بزدلی‘ کم ہمتی اور بلا جواز مصلحت اندیشی سے حذر‘لیکن فراست‘ دور اندیشی اور ضبط نفس۔ وقت اور ایمان کا تقاضا۔