یوں لگتا ہے علم و حکمت، فہم و فراست اور معاملہ فہمی اس شخص کی میراث ہو۔ جدید حالات و واقعات کا اسے مکمل ادراک اور جیسے عالمی منظر نامہ اس کی ہتھیلی پر درج ہو۔ قرون وسطیٰ کے مسلمانوں کے لباس عمامہ، شلوار قمیص میں ملبوس، چہرے پر وہ داڑھی جسے گزشتہ دو دہائیوں سے دہشت کی علامت بنا کر پیش کیا گیا لیکن ماسکو کی اس میٹنگ میں اس کے مخاطب وہ لوگ تھے جنہیں اپنی عالمی امور کی ڈگریوں پر ناز تھا، جو سفارتی دنیا کے ’’مچھندر‘‘ سمجھے جاتے تھے اور آئین سازی اور جمہوریت جن کی مہارت تھی۔لیکن سترہ سال جہاد کے راستے پر گامزن یہ مرد مومن جب گویا ہوا تو ایک حیرت کا جہاں کھلنے لگا۔ طالبان سے مذاکرات کی میز ایک بار پھر ماسکو میں سجی تھی۔ اس دفعہ اور بھی کردار وہاں کھینچ کر لائے گئے تھے، سیاسیات کے ماہرین بھی اور سفارتکاری کے جغادری بھی۔ طالبان کے وفد کے سربراہ نے آدھا گھنٹہ گفتگو کی جو تقریبا پانچ صفحات پر مشتمل تھی۔ یوں لگتا تھا افغانستان اور علاقائی و عالمی معاملات پر کوئی اعلی سطح کا مدبر اور قوت ایمانی سے بھرپور مرد مجاہد بول رہا ہو۔ میں چند فقرے مشتے از خروارے پیش کر رہا ہوں، ورنہ پوری تقریر پر تبصرے اور تشریح کے لیے تو دفتر کے دفتر درکار ہیں۔ لہجے پر غور کریں۔ ’’اسلامی امارات افغانستان اللہ کی مدد اور نصرت اور اللہ پر ایمان رکھنے والی افغان قوم کے تعاون سے گزشتہ بیس سالوں سے قابض امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف جہاد کر رہی ہے۔ ہم نے بار بار دنیا کو باور کرایا ہے کہ ہمارا اپنی سرزمین کے باہر کوئی ایجنڈا نہیں ،لیکن اپنے ملک کی آزادی اور افغان عوام کی خواہشوں کے مطابق یہاں شریعت کا نفاذ ہمارا بنیادی حق ہے اور اس کے لئے ہم سیاسی اور فوجی جدوجہد کر رہے ہیں۔ دوہا میں دفتر کھولنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ دنیا کو بتایا جائے کہ ہم صرف فوجی حل نہیں بلکہ پر امن حل کے بھی خواہاں ہیں۔‘‘اس کے بعد اس نے ان تمام مذاکرات کا تذکرہ کیا گیا جو امریکہ کے اعلی حکام سے ہوئے اور جن کا بنیادی مقصد افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا تھا۔اس تمہید کے بعد مختلف موضوعات پر تفصیلی گفتگو ہے جو بہت بسیط اور پر مغز ہے۔ امن: مجبور اور مظلوم افغانوں کی پہلی ضرورت امن ہے، اس کے بغیر معاشی، تعلیمی، معاشرتی اور سیاسی ترقی ناممکن ہے۔ گذشتہ پندرہ برسوں سے امن کو ایک ’’پراجیکٹ‘‘ کے طور پر لیا گیا اور خطے کے لوگوں سے آزادی کا بنیادی حق چھینا گیا۔ یہ ملک مقبوضہ ہے اور قابض افواج نے اس کے اسلامی نظام کو ختم کر دیا جو امن کا ضامن تھا۔ امن کے قیام کے لئے ہم چاہتے ہیں کہ (1) امن کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ملک میں نافد پابندیوں کی لسٹ ختم کی جائے جس کے تحت لوگوں کو ہمارے خلاف جنگ کے لیے انعامات دے کر اکسایا جاتا ہے۔ اس طرح کے ماحول میں امن نہیں صرف جنگ ہی ہو سکتی ہے۔ (2) امریکہ اور اس کے حواریوں نے کئی ہزار طالبان اور معصوم شہریوں کو خفیہ اور معلوم قید خانوں میں بند کیا ہے۔ یہ بذات خود امن کے راستے میں ایک رکاوٹ ہے،ان کو رہا کیا جائے۔ (3) اس وقت امارات اسلامی افغانستان کا کوئی علی الاعلان دفتر نہیں ہے، اسے کھولنے کی اجازت دی جائے اور نمبر(4) تمام میڈیا پر طالبان کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا بند کیا جائے۔ امن کے راستے کی رکاوٹیں: امن کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ بیرونی قبضہ ہے، جو فوراً ختم ہونا چاہیے۔ امریکی فوج کا انخلاء اور امن ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ دوسری رکاوٹ اس ملک میں شریعت کا عدم نفاذ ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ امن اور خوشحالی کی کنجی شریعت کے نفاذ میں مضمر ہے، تیسری رکاوٹ یہ ہے کہ دنیا کے ممالک میں سے امن کی ضمانت دینے والا کوئی نہیں۔ ہمارے مذاکرات کی ضمانت دنیا کی طاقتوں اور اسلامی ممالک کو دینا ہوگی۔ چوتھی اور آخری رکاوٹ موجودہ آئین ہے۔ یہ آئین مغرب کا چربہ شدہ ہے اور اس نے افغان قوم کو محکوم بنانے کے لیے غیرملکی مغربی اقدارہم پر مسلط کی ہیں۔ ہم ایک نیا آئین چاہتے ہیں جو اسلامی شریعت اور افغان اقدار کے مطابق ہو۔امن کے بارے میں گفتگو کے بعد اس نے بتایا کہ امارات اسلامی افغانستان کے اصولِ حکمرانی کون سے ہوں گے۔ (1) ہم کسی دوسرے خطے میں مداخلت کے حامی نہیں۔ ہم نے سترہ سال اپنی جنگ لڑی ہے اور کسی دوسرے ملک میں اس جنگ کو لے کر نہیں گئے۔ (2) ہم ہر طرح کی نشہ آور اشیاء کی تیاری اور کاشت کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ امریکی حملے کے بعد 328 ہزار ہیکڑ رقبے پر افیون کاشت ہو رہی ہے اور منشیات استعمال کرنے والوں کی تعداد 30 لاکھ ہو چکی ہے۔ (3) ہم کسی بھی قسم کی عام شہریوں کی ہلاکت کے خلاف ہیں۔ موجودہ حکومت نے اس میں بے پناہ اضافہ کیا ہے۔ ہمارے امیرالمومنین شیخ ہیبت اللہ اخوندزادہ نے عید کے پیغام میں اس کی شدید مخالفت کی ہے۔ ہم نے بارہا اپنے آپریشن ملتوی کئے کیونکہ ان میں عام شہریوں کے قتل کا خطرہ تھا۔ اماراتِ اسلامی نے شہریوں کی ہلاکت سے بچنے کے لیے تمام مجاہدین کو قرآن و حدیث کے حوالوں سے کتابچے تقسیم کیے اور علماء کی تقریریں کروائیں تاکہ ایک بھی عام شہری یا بے گناہ شخص ہلاک نہ ہو۔ ہماری سب سے بڑی ضرورت انسانی بنیادوں پر فلاحی مدد ہے اور اس جنگ زدہ افغانستان کو اس سے زیادہ کسی اور شئے کی ضرورت نہیں اور اسلامی امارات افغانستان ہر اس تنظیم اور فرد کی حفاظت کا ذمہ لیتی ہے جو اس مقصد کے لیے اس ملک میں آئے گا۔ ہمارا دوسرا مقصد خواتین کو حقوق دلانا ہے۔ وہ تمام حقوق جو اسلام نے انہیں عطا کیے ہیں، جن میں تعلیم، صحت، احترام، آزادی سب شامل ہیں۔ سترہ سال امریکی دورے اقتدار کے باوجود افغانستان آج بھی زچگی کے دوران ہونے والی اموات میں پہلے نمبر پر ہے۔ جدید مغربی میڈیا کے ذریعے افغان عوام میں جس اخلاقی بے راہ روی کو رواج دیا گیا اور افغان معاشرے کی اقدار کے خلاف ایک معاشرہ ترتیب دینے کی کوشش کی گئی، اس کے مقابل امارات اسلامی ایک ایسے معاشرے کے قیام کے لیے کام کرے گی جو اسلامی شریعت کے مطابق عورت کے احترام پر مبنی ہو۔ صحت وہ معاملہ ہے کہ جنگ کے دوران بھی اسلامی امارات افغانستان نے اپنے زیر سایہ ایک محکمہ صحت قائم کیے رکھا اور اس محکمے کے ڈاکٹرز پورے افغانستان میں صحت کی سہولیات فراہم کرتے ہیں۔ ہم نے امریکہ اور کابل حکومت کے زخمیوں کا بھی علاج کیا ہے۔ ظلم کی بات یہ ہے کہ امریکہ اور دیگر ممالک کی افواج ہماری ایمبولینسوں اور ہسپتالوں پر بم برساتی اور نہتے ڈاکٹروں اور مریضوں کو شہید کرتی رہیں۔ اسلامی امارات افغانستان دنیا کی تمام عالمی تنظیموں کو اپنے یہاں آنے، کام کرنے اور سکون اور عزت سے رہنے کی ضمانت دیتی ہے۔ یہ اس شخص کی تقریر ہے جو اس گروہ یعنی طالبان کا نمائندہ ہے جس نے انسانی تاریخ کی سب سے بڑی جنگ جیتی ہے۔ زخموں سے چور افغان طالبان کے نمائندے کی زبان پر کوئی انتقام نہیں بلکہ افغان مسلمانوں کا عظیم مستقبل ہے۔ تقریر میں دو لفظ اہم ہیں، ایک جہاد جس لفظ سے سب جدید روشن خیال نفرت کرتے ہیں اور دوسری شریعت اسلامی جس سے یہی لوگ خوف کھاتے ہیں۔ لیکن انہیں دو تصورات کی بدولت افغان طالبان 17 سال میں ایک عالمی طاقت اور اسے کے حواریوں کو ذلت آمیزشکست دے سکتے ہیں مگر دوسری جانب ہم ہیں کہ 71 سال میں کشمیر کے بارے میں متذبذب ہیں۔ ہمارا عالم یہ ہے کہ ہم وہ مصلحت کوش ہیں جو بھارت سے جنگ کی بات تو کرتے ہیں لیکن جہاد کا لفظ منہ پر نہیں لاتے۔ اللہ ایسے مصلحت کوش مسلمانوں کی نصرت نہیں کیا کرتا۔ جب وہ کسی مومن کی مدد کرتا ہے تو اسے فراست عطا کرتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’مومن کی فراست سے ڈرو کیونکہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے‘‘ (سنن ترمذی)۔ اس کے لیے اللہ پر کامل ایمان اور توکل شرط ہے۔ایسے ہی مومن کا لہجہ بے باک ، واضح اور فیصلہ کن ہوتا ہے۔ نوٹ: میرے گزشتہ کالم کے کچھ مندرجات سے اگر جناب اظہار الحق صاحب کی دل آزاری ہوئی ہے تو میں دل کی گہرائیوں سے معافی کا خواستگار ہوں۔