رسول اکرم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام ازدواج مطہرات امت کی مائیں اور خواتین اسلام کے لیے رول ماڈل ہیں۔ ام المومنین سیدہ جویریہ رضی اللہ عنہا بھی ان خوش نصیب خواتین میں سے ہیں جنہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجیت کا شرف حاصل ہوا۔ آپ کے والد اپنی قوم کے سردار تھے ‘ انہوں نے اپنے باپ سردارِ قوم کے زیر سایہ پرورش پائی تھی اس لئے ان کی پرورش کچھ نرالے انداز میں ہوئی۔ قبیلہ بنو مصطلق کی حیثیت جزیرہ نما عرب میں جھاگ کی مانند تھی اور مسلمانوں کا رعب ودبدبہ ان پر غالب آچکا تھا۔ انہیں ہر وقت اس بات کا ڈر لگا رہتا تھا کہ ایک نہ ایک دن توحید پرست مجاہدین ان کا کام تمام کر دیں گے اور وہ ہاتھ ملتے رہ جائیں گے ۔ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پتہ چلا کہ قبیلہ بنو مصطلق آپ کے خلاف صف آراء ہونے کے لئے اکٹھا ہو رہا ہے تو آپ نے اپنے طریقہ کار اور حکمت نبویہ کو بروئے کار لاتے ہوئے اس خبر کی تصدیق کا اہتمام کیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس خبر کو درست پایا تو اپنی ذات والاصفات کی زیر قیادت 700 جنگجو افراد پر مشتمل لشکر تشکیل دیا اور قبیلہ بنو مصطلق کی طرف روانہ ہوگئے ۔ جب قبیلہ بنو مصطلق کے سردار کو پتہ چلا تو وہ گھبرا گیا اور ان کی دیکھا دیکھی دوسری قوم کے لوگ بھی وہاں سے بھاگ گئے ۔ سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے یہ اعلان کیا کہ ’’اگر تم لاالہ الاللہ کہہ دو تو تمہاری جان اور مال محفوظ ہو جائیں گے ‘‘ لیکن اُس قوم پر تو اس وقت شیطان سوار تھا۔ ان میں سے ایک شخص نے مسلمانوں پر تیر پھینکا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صورتحال کا جائزہ لے کر مجاہدین اسلام کو حکم دیا کہ دشمن پر حملہ کردو اور دیکھتے ہی دیکھتے دشمن پر چھا گئے اور سب کو اپنے قابو میں کرتے ہوئے جن خواتین اور ان کی اولادوں کو قیدی بنایا ان میں حضرت جویریہ بھی شامل تھیں۔ آپ جب گرفتار ہو کر آئیں تو بالکل نوعمر تھیں لیکن اللہ نے انہیں عقل، عمدہ اخلاق، فکر سلیم، معاملہ فہمی، فصاحت وبلاغت اور موقع محل کے مطابق بات کرنے کا بہترین سلیقہ عطا کر رکھا تھا اور وہ ایسے دلپذیر انداز میں بات کہتیں کہ سننے والا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ وہ اعلیٰ خاندانی نسبت کی بناء پر غلامی پر خوش نہیں رہ سکتی تھیں اس لئے آزادی کا سوچا اور باعزت گھرانے میں زندگی بسر کرنے کی ٹھانی۔ یہی وجہ ہے کہ ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کے ساتھ معاہدہ کرنے کے لیے رضامند ہو گئیں۔ ثابت بن قیس مسلمانوں میں سے سب سے بلند مرتبہ فصیح وبلیغ اور انصار کے مشہورومعروف خطیب تھے ۔ جب کبھی دشمن کے مدمقابل خطابت کے جوہر دکھانے کا وقت آتا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں سامنے لاتے اور وہ اپنے زورخطابت سے محفل میں چھا جاتے تھے لیکن حضرت جویریہ اپنی طبعی برتری کی وجہ سے غلامی کی ذلت اور رسوائی برداشت نہیں کر سکتی تھیں اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس مدد حاصل کرنے کے لئے آکھڑی ہوئیں اور ادب واحترام سے کہنے لگیں، یا رسول اللہ میں ایک مسلمان عورت ہوں، میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور رآپ اللہ کے رسول ہیں۔ میں اپنی قوم کے سردار حارث بن ابی ضرار کی بیٹی ہوں اور میری صورتحال آپ پر واضح ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کیا یہ ٹھیک نہیں ہے کہ تیرے لئے اس سے بھی بہتر سلوک کیا جائے ۔ ام المومنین حضرت سیدہ جویریہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا، وہ کیا؟ فرمایا کہ ’’میں زرکتابت بھی ادا کروں اور تجھ سے شادی بھی کرلوں‘‘۔ ام المومنین سیدہ جویریہ رضی اللہ عنہا نے خوشی سے یہ پیشکش قبول کرلی۔ لوگوں کو خبر ہوئی تو انہوں نے بنو مصطلق کے سب قیدیوں کو جو سو سے زیادہ تھے ، چھوڑ دیا کہ یہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رشتہ دار ہوگئے ہیں۔ ام المومنین خود فرماتی ہیں ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد سے تین راتیں پہلے خواب میں دیکھاگویا کہ چاند یثرب کی جانب سے چلا آرہا ہے اور میری گود میں آکر گر گیا ہے ، میں نے کسی کو بتانا پسند نہیں کیا جب ہمیں گرفتار کرلیا گیا تو میں نے خواب کی تعبیر کی امید لگائی اور واقعی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے آزاد کیا اور مجھ سے شادی کرلی‘‘۔ آپ کی عمر مبارک اس وقت میں 20 سال کی تھی۔ ان کا پہلے ’ برہ ‘ نام تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کا نام تبدیل فرما کر ’جویریہ‘رکھا۔ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:’’میں کسی عورت کو نہیں جانتی جو اپنی قوم کے لئے جویریہ سے زیادہ بڑھ کر برکت والی ہو‘‘آپ بہت زیادہ عبادت گزار، فرمانبردار، اطاعت گزار اور صبروتحمل کی خوگر جلیل القدر خاتون تھیں۔ وہ صبح وشام دوپہر اور دن ڈھلے الغرض ہر وقت تسبیحات اور ذکر اذکار میں مصروف رہتیں۔آپ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سن کر جو فرامین زبانی یاد کئے تھے ، انہیں لوگوں کے سامنے بیان کیاوہ سات ہیں ۔ آپ کا مقام ومرتبہ ازواج مطہرات میں نہایت بلند تھا۔ آپ ایک جزیرہ نمائے عرب سردار کی صاحبزادی تھیں جن میں جاہ وچشم اور حفظ مراتب کے آداب رچے بسے ہوئے تھے ۔ سلیقہ مندی، تدبر اور فہم وفراست ام المومنین حضرت سیدہ جویریہ رضی اللہ عنہا کے اوصاف میں شامل تھے ۔ آپ ہمیشہ خواتین میں اپنے حسن سلوک اور برتائو کی بدولت نمایاں رہتی تھیں۔ حسن کلام سے قدرت نے سیدہ جویریہ کو مالا مال کررکھا تھا، وہ انتہائی عبادت گزار اور زہدوتقویٰ کی حامل نیک سیرت خاتون تھیں۔ آپ کی زندگی انتہائی آسائش میں گزری، ان کے وضع دارانہ برتائو سے خواتین بے حد متاثر ہوئی تھیں۔ وہ جب خواتین کے گروہ میں گفتگو فرماتی تھیں تو تمام عورتیں ہمہ تن گوش ہوکر انہیں سنا کرتی تھیں۔ آپ 65برس کی عمر میں سفر آخرت کو روانہ ہوئیں اور آپ جنت البقیع میں دیگر ازواج مطہرات کے ساتھ آرام فرما ہیں ۔ آپ نے دین کی اشاعت وترویج کے عمل کو نہایت احسن انداز سے آگے بڑھایا۔ آپ کو امتیازی محاسن وفصائل کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔