کوئی مرکز بھی نہیں کوئی خلافت بھی نہیں سب ہی حاکم ہیں مگر کوئی حرمت بھی نہیں جھوٹ ہی جھوٹ ہے یہ سارا نظام حرمت اور اس جھوٹ پہ حاکم کو ندامت بھی نہیں اس جھوٹ پر تو بعد میں بات کریں گے کہ پہلے ایک سچ پر بات کر لیں کہ سراج الحق صاحب نے کہا ہے کہ پاکستان کو یوٹرن کی نہیں رائٹ ٹرن کی ضرورت ہے۔ میرا نہیں خیال کہ اس میں کوئی دوسری رائے نہیںہو سکتی ہے کہ یوٹرن لینے والے بھی کہتے یہی ہیں کہ اب مزید گنجائش نہیں کہ اب کارکردگی دکھانا ہو گی۔ بس یہی رائٹ ٹرن ہے کہ قائد اور اقبال کی فکر کو لے کر آگے بڑھا جائے۔ ویسے تو کچھ اور ٹرن بھی ہیں جو یہ لٹو کی طرح گھومنے والے لیتے رہتے ہیں۔۔ وہی لوٹے جو عزت پاکر ایلیکٹبلز ہو جاتے ہیں اور وہ جن کے ماتھے پر فارسیل لکھا دکھائی دیتا ہے۔ مگر کیا کریں استاد پرواز کا شعر یونہی ذہن میں آ گیا: خطائوں کی چھبن فوراً کہاں محسوس ہوتی ہے ندامت کی طرف آتا ہے دل آہستہ آہستہ مشتاق احمد یوسفی نے تو پٹھان کو ایک کیفیت سے تعبیر کیا تھا‘ میرا خیال ہے کہ آمریت بھی ایک کیفیت ہے۔ ایک بار پارٹی لیڈر کے اختیار کو ختم کرنے کی قرار داد پیش ہوئی تو مخالف میں صرف اڑھائی ووٹ تھے تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں اس کا حالیہ اظہار مولانا فضل الرحمن کے ایکشن سے ہوا ہے کہ مولانا شیرانی اور حافظ حسین سمیت چار معتبر ارکان کو کھڑے پیر پارٹی سے نکال باہر کیا گیا ہے۔ ان لوگوں نے کوشش کی تھی کہ کچھ باتیں پی ڈی ایم کے منشور سے لگا نہیں کھاتیں انہیں کنٹرول کیا جائے۔ پھر وہی ہوا جو بے چارے غالب کے ساتھ ہوا تھا: میں نے کہا کہ بزم ناز چاہیے غیر سے تہی سن کے ستم ظریف نے مجھ کو اٹھا دیا کہ یوں مجھے ذاتی طور پر حافظ حسین احمد کے حوالے سے دکھ ہوا کہ ایسی خوبصورت بات کرنے والے کم ہی نہیں نایاب ہیں۔ ان کے تو ایک ایک فقرے کو سیاست کی تاریخ میں یاد رکھا جائے گا، ان میں ایک رکھ رکھائو ہے ۔میں سے پیشتر بھی لکھ چکا ہوں کہ ان کا مولانا کے ساتھ پرسنیلٹی کلیش بھی تھا۔ مولانا ان جیسی کاٹ دار اور بلیغ بات کرنے پر قادر نہیں۔ آپ کو یاد ہو گا کہ جب مشرف کی ورزی اتروانے کی بات ہو رہی تو چودھری شجاعت نے کہا کہ حافظ صاحب چھڈو وردی تے مٹی پائو۔ حافظ صاحب نے پلٹ کر کہا چودھری صاحب مٹی بھی ہم ڈال دیں گے پہلے وردی سے اپنا بندہ تو نکال لیں۔ حافظ حسین احمد نے اپنے نکالے جانے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی رکنیت ڈکٹیٹر شپ سے ختم کی گئی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہی سب سے بڑی خرابی ہے کہ موروثیت ہی ڈکٹیٹر شپ کو پروان چڑھاتی ہے ۔یہی طاقت ہے جو کرپٹ کرتی ہے سچ کا خون کرتی ہے۔ مکالمہ کی گنجائش نہیں رہتی اور اچھی سوچ مسخ ہو کر رہ جاتی ہے۔ شاطر اور خود غرض لوگ باقی بچ جاتے ہیں جو طالع آزما کے پیچھے دم ہلانے کے سوا کچھ نہیں کر پاتے۔ بہت باریک بات یہ ہے کہ کم از کم مذہبی سوچ میں تو حق اور سچ بات کا غلبہ ہونا چاہیے اور وہاں سرنڈر ازبس ضروری ہے۔ڈکٹیٹر کی جنگ میں عوام پس رہے ہیں۔ یہ مفادات کی جنگ ہے کیسی ستم ظریفی ہے کہ ایک اس لڑائی کو کفر اور اسلام کی جنگ قرار دے دیتا ہے تو دوسری طرف سے اس عمل کو بغاوت اور غداری سے تعبیر کر دیا جاتا ہے خدا کے لئے کوئی درمیانی راستہ! سب سے پرلطف بات یہ ہے کہ ہمارے وزراء مولانا فضل الرحمن کے ردعمل میں اپنی ساری توانائی اور صلاحیتیں ضائع کر رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم کی سربراہی وہ کر رہا ہے جس کی گھر میں عزت نہیں وغیرہ وغیرہ۔ میں ہنس رہا تھا کہ مولانا نے صرف مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ہی کو اپنے تابع نہیں کیا انہوں نے حکومت سمیت پوری مشینری ہی کوانگیج کر لیا ہے۔ ہر طرف اک شور برپا اور لوگوں کا ہجوم ہم نے گویا شہر سارا اپنی جانب کر لیا سوچنے کی بات یہ ہے کہ وزراء کے پاس کیا اور کوئی کام نہیں۔بقول ان کے پی ڈی ایم ختم ہو چکی ہے۔ قبلہ آپ کی بات سچ ہے تو پھر آپ کوئی اور کام تو کرکے دکھائیں۔ اس بیان سے تو کچھ نہیں بنے گا۔ نواز شریف اور بلاول کے پلے کچھ بھی نہیں کہ ان کے پلے تو بہت کچھ ہے وہ میر کی طرح نہیں ہیں: زور و زر کچھ نہ تھا تو بارے میر کس بھروسے یہ آشنائی کی آپ کی ڈیوٹی بھی پی ڈی ایم کے لوگ دے رہے ہیں کہ کوئی راستہ نکل آئے۔ یہ جو محمد علی درانی کی شہباز شریف سے ملاقات ہے اس کا شاخسانہ ہے ۔یہ بیک ڈور ڈپلومیسی ہے ۔ شیخ رشید بہت پہلے کہہ چکے ہیں کہ وہ ن لیگ سے شین نکلتی دیکھ رہے ہیں۔ش بے چارے نے کہاں نکلنا ہے وہ جیل سے نکل آئے تو کافی ہے۔ ویسے تو ش کہیں سے بھی نکل سکتا ہے۔ صورتحال خاصی خطرناک ہے۔اب وفاقی وزیر نارکوٹکس اعجاز شاہ کے دلچسپ بیان کا تذکرہ ہو جائے کہ فرماتے ہیں کہ سیاستدانوں کی اکثریت کوتو دو کا پہاڑا تک نہیں آتا۔ انہوں نے اکثریت کہہ کر کچھ سیاستدانوں کو شبے کا فائدہ پہنچا دیا ہے۔ ظاہر ہے سب کو یکمشت تو جاہل نہیں کہا جا سکتا۔ ویسے پہاڑے تو سیاستدانوں کو آئیں یا نہ آئیں مگر ان کی جائیدادیں اور دولت تو ضرب کھاتے ہوئے بڑھتی ہے۔ ایک اور بات شاہ صاحب نے اچھی کہی کہ اگر تھاندار ایماندار ہو تو منشیات فروخت نہیں ہو سکتیں۔ یہ تو کسر نفسی سے کام لے کر بات کی گئی ہے۔ جناب اگر تھانیدار ایماندار ہو تو کوئی جرم ہو ہی نہیں سکتا۔ آپ دیکھتے نہیں کہ سیاستدان رسہ گیر سب سے پہلے تھانیداروں کو قابو کرتے ہیں اپنی مرضی کا دھندا کرنے کے لئے اپنے علاقے میں اپنی پسند کا تھانیدار لگواتے ہیں گویا تھانیدار ایک بنیادی اکائی ہے ایک تھانیدار پورا معاشرہ بدل سکتا ہے اگر وہ ایماندار ہے تو تھانہ مجرموں کی آماجگاہ نہیں بن سکتا۔ شہباز شریف نے کوشش کی تھی کہ ان کی تنخواہیں بڑھا کر انہیں رشوت سے بے نیاز کیا جائے مگر وہ اور زیادہ خودسر ہو گئے ویسے تھانیدار سے بڑھ کر کچھ اور بھی ہیں جو بغیر ثبوت کے پکڑتے ہیں مثال رانا ثناء اللہ کا کیس ہے جس میں نارکوٹکس محکمے ہی کی نہیں پوری حکومت کی سبکی ہوئی۔ پھر وہی بات، نظام بدلے گا تو یہ پراڈکٹ بھی بدل جائے گی۔ دو تازہ ترین شعروں کے ساتھ اجازت: عارضی ہے مگر یہ خواب نہیں زندگی سرسبز گلاب نہیں بچ گئے ایک امتحان سے ہم آپ کو دیکھنے کی تاب نہیں