ایک اچھا خطیب اپنے زورِ خطابت سے دلوں کے قفل کھولتا اور دماغوں کو مسخر کر لیتا ہے۔ بخاری شریف کی مستند حدیث ہے کہ ’’ان من البیان لسحرا‘‘ بسا اوقات بیان میں جادو کا اثر ہوتا ہے۔ یقینا مولانا فضل الرحمن ایک بڑے خطیب ہیں۔ وہ فنِ خطابت کی باریکیوں اور نزاکتوں سے بخوبی آگاہ ہیں۔ ایک اثر انگیز تقریر کے لیے اس کا دل کش آغاز ضروری ہوتا ہے۔ نیز ایک اچھے مقرر کو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ تقریر کا اختتام کب کرنا ہے اور کیسے کرنا ہے۔ تقریر کتنی ہی پر اثر اور پر مغز کیوں نہ ہو اور سامعین کتنے ہی ہمہ تن گوش کیوں نہ ہوں مگر جب وہ طویل ہو جاتی ہے تو بوجھل اور بور ہو جاتی ہے۔ یہی اصول تحریکوں پر بھی صادق آتا ہے۔ جوں جوں کوئی تحریک، مارچ یا دھرنا طویل ہوتا جاتا ہے توں توں اس کا Thrillمدھم پڑنے لگتا ہے اور لوگ اکتاہٹ اور گھبراہٹ کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ عمومی تاثر یہی ہے کہ اسلام آباد کا آزادی مارچ آغاز میں تو بڑا مؤثر اور دل کش تھا اور مولانا کی بات وہ بھی سن رہے تھے جنہیں مولانا سنانا چاہ رہے تھے اور وہ بھی سن رہے تھے کہ جو سنی ان سنی کرنے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں، تب مولانا کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا مگر اب یہ دھرنا طویل ہوتا جا رہا ہے اور یہ ایک روٹین کی کارروائی محسوس ہونے لگا ہے۔ دوسری طرف یہ لگ رہا ہے کہ حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ مولانا نے اسلام آباد پہنچتے ہی ایک بات کہی تھی کہ ہمیں واپسی کی کوئی جلد نہیں۔ اب یہ بات سچ ثابت ہو رہی ہے۔ میں نے آج صبح ہی اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمن کے ایک معتمدِ خاص پروفیسر عباسی سے رابطہ کیا اور ان سے پوچھا کہ آپ کے کیا ارادے ہیں۔ کیونکہ آہستہ آہستہ اسلام آباد کا موسم نامہرباں ہوتا جا رہا ہے۔ سیاسی موسم بھی کوئی زیادہ سازگار نہیں، عباسی صاحب خوش ذوق آدمی ہیں۔ وہ مسکرائے اور انہوں نے یہ مصرع پڑھ دیا کہ موسم تو آدمی کے اندر ہوتا ہے انہوں نے بتایا کہ مولانا کے اندر کا موسم بہت خوشگوار ہے اور انہیں اپنی کامیابی کا حق الیقین ہے۔ آزادی مارچ کی جلسہ گاہ اب باقاعدہ قیام گاہ بن چکی ہے اور وہاں 1200خیمے نصب کر دیئے گئے ہیں۔ میری معلومات اور میرا تاثر یہ ہے کہ اگر حکومت اگلے دو تین روز میں مولانا کے ساتھ مذاکرات میں کوئی پیش رفت نہیں کرتی تو معاملات بہت بگڑ سکتے ہیں۔ حکومت نے اگر اسی لاتعلقی کا رویہ جاری رکھا تو مولانا اپنے پلان بی کی طرف جانے پر مجبور ہو جائیں گے۔ معلوم ہوا ہے کہ دھرنا اپنی جگہ پر جاری رہے گا بلکہ زور پکڑے گا اور تمام اضلاع میں پلان بی کا آغاز کر دیا جائے جس کے مطابق ہر شہر میں جلسے اور جلوس بھی ہوں گے اور قومی شاہراہوں کو بند بھی کر دیا جائے گا۔ یہ ہماری قومی عادت بن چکی ہے کہ ہم ہر کام آخری وقت میں کرتے ہیں دوسرے تحریک انصاف نے صرف مولانا کے ساتھ بلکہ دیگر دیگر اہم ترین سیاسی و قومی معاملات میں بھی بے اعتنائی کا رویہ اپنا رکھا ہے۔ بے اعتنائی ہی نہیں بلکہ تحریک انصاف نے لاپروائی کو اپنا ورکنگ کلچر بنا لیا ہے۔ ڈینگی ہر جگہ تباہی مچا رہا ہے تو مچاتا رہے ہمیں کوئی پروا نہیں۔ اموات پر اموات ہوتی رہیں ہمیں پروا نہیں۔ یہی لاپروائی معیشت کے بارے میں بھی اختیار کی گئی ہے۔ شہروں میں ٹمائر 200روپے سے لے کر 300روپے فی کلو تک ہو جائیں، آٹا 15روپے مہنگا ہوتا ہے تو ہو جائے، چینی 90روپے فی کلو ہوتی ہے تو ہو جائے، ادرک 500روپے فی کلو ہوتی ہے تو ہو جائے اور پیاز 200روپے فی کلو ہوتے ہیں تو ہو جائیں ہمیں کوئی پروا نہیں۔ 43بنیادی اشیاء کی قیمتوں میں 289فی صد اضافہ ہوتا ہے تو ہو جائے۔ المختصر ملک بھر میں مہنگائی کا طوفان آتا ہے تو آ جائے اور کوئی جیتا ہے یا مرتا ہے حکومت کو اس کی کوئی پروا نہیں۔ حکومت کی بے اعتنائی میاں نواز شریف کی بیماری کے بارے میں بھی ہے۔ پہلے تو جیل سے آنے والی میڈیکل رپورٹوں کو نظرانداز کیا گیا اور جب پانی سر سے اوپر بہنے لگا تو جناب وزیر اعظم کو ان کی بیماری کی شدت اور نزاکت کا اندازہ ہوا تو انہوں نے فوری طور پر پنجاب حکومت کو ہدایت کی کہ میاں صاحب کے علاج کے سلسلے میں کوئی کوتاہی نہ کی جائے اور ہر ممکن تعاون کیا جائے۔ انہیں سروسز ہسپتال منتقل کر دیا گیا وزیر اعظم عمران خان نے میاں نواز شریف کی صحت یابی کے لیے دعا بھی کی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ خالصتاً انسانی مسئلہ ہے اس پر کوئی سیاست نہ کی جائے۔وزیر اعظم نے اپنے وزراء کو سختی سے منع کیا کہ میاں صاحب کی بیماری کے حوالے سے کوئی بیان بازی نہ کی جائے تا ہم حکومت کے بعض نادان دوستوں نے جناب وزیر اعظم کی ہدایات کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے منفی بیانات داغنا شروع کر دیئے۔ پہلے تو وفاقی وزیر غلام سرور نے ایک ٹی وی پروگرام میں کہا کہ میاں صاحب کی ممکنہ بیرون ملک روانگی کسی ڈیل کا نتیجہ ہے۔ اس پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ وزیر موصوف کا یہ بیان خود اپنی حکومت کے خلاف ایف آئی آر کٹوانے کے مترادف ہے۔ گزشتہ روز تو وزیروں نے حکومت کو بازیچہ اطفال بنا دیا۔ گورنر پنجاب چودھری سرور ایک جہاندیدہ اور وضع دار شخصیت ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میاں صاحب آج بیرون ملک سفر کا اجازت نامہ دے دیا جائے گا۔ پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے بھی میڈیکل بورڈ کی رپورٹوں کے حوالے سے کہا کہ میاں صاحب کی صحت انتہائی تشویشناک ہے۔ اس کے بعد فواد چودھری اور فیصل واڈوا نے ٹی وی چینلوں پر نہایت منفی بیان بازی کی اور میاں صاحب کی بیرون ملک روانگی تاخیر کا شکار ہو گئی۔ اس مرحلے پر حکومت کے اتحادی ق لیگ کے سربراہ چودھری شجاعت نے نہایت درد مندی اور دانشمندی سے حکومت کو متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو بڑے دل کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ نواز شریف کو کچھ ہوا تو ملکی سیاست مزید تلخ ہو جائے گی۔ ایسا کوئی اقدام نہ کیا جائے جس کا بعد میں کوئی ازالہ نہ ہو سکے۔ چودھری صاحب نے بڑی بروقت توجہ دلائی ہے۔ جب حکومت کے ادنیٰ سے لے کر اعلیٰ تک اور اہم ترین ملکی اداروں تک کو میاں نواز شریف کی انتہائی تشویشناک بیماری کا اندازہ ہے تو پھر ان کی روانگی کو سرکاری گورکھ دھندے میں الجھانا کوئی دانشمندی نہیں۔ اگر مولانا اپنے پلان بی پر عمل کرنا شروع کر دیتے ہیں اور تمام صوبوں کی اہم شاہراہیں بند کر دیتے ہیں اور اسلام آباد سمیت ملک میں ہر طرف افراتفری شروع ہو جاتی ہے تو اس سے یہی ثابت ہو گا پاکستانی من حیث القوم اپنے داخلی مسائل افہام و تفہیم سے حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تو یہ مسئلہ کشمیر باہمی گفت و شنید سے کیسے حل کریں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قوم مہنگائی اور بے روزگاری اور بجلی و گیس کے ناقابل برداشت بلوں کی بنا پر انتہائی مجبور و پریشان ہے۔ اس کے باوجود وہ نہیں چاہتی کہ مولانا حکومت کے خلاف کوئی انتہائی قدم اٹھائیں۔مولانا اور جناب عمران خان چودھری برادران کی وساطت سے افہام و تفہیم سے کوئی درمیانی راستہ نکالیں۔ دونوں سیاسی جماعتیں یا سیاسی الائنس اسٹیبلشمنٹ یا عدلیہ کو اس معاملے سے الگ تھلگ رکھیں اور کوئی جمہوری و پارلیمانی حل نکالیں۔ مولانا یہاں تک تو پہنچے اور یہاں تک تو آئے ہیں کہ وہ استعفیٰ کے مطالبے سے اسی شرط پر دستبردار ہو سکتے ہیں کہ انہیں حکومت استعفیٰ جیسا کوئی راستہ دے۔ یقینا مولانا کا اشارہ مڈٹرم الیکشن کی طرف ہے۔ کیا عمران خان اس مطالبے کو تسلیم کر کے سیاسی بالغ نظری کا ثبوت دیں گے؟