کتاب اللہ کے طالب علم اور ہیں مفاداتی سیاست کے بستہ بردار اور۔سارا معاشرہ ان کی وجہ سے عقاید اور سیاسی نظریات میں ابہام کا شکار ہے۔ ہارون الرشید صاحب سے عید کے روز بات ہوئی۔ امید کی روشنی میں رہنے والے سینئر کالم نگار مایوس دکھائی دیے۔ کہنے لگے کون سی نعمت ہے جو پاکستان میں دستیاب نہیں مگر مذہبی سیاستدانوں نے فریب کیا۔ ہمیشہ لوگوں کی سادہ لوحی اور خلوص کا سودا کر کے۔اپنی جیب بھری۔ بولے چند برس پہلے لاہور میں کچھ روز قیام کے لئے سرکاری ریسٹ ہائوس سے رابطہ کیا۔ بتایا گیا دو کمرے خالی ہیں لیکن ان پر مولانا فضل الرحمن کے مصاحبین نے مستقل قبضہ کر رکھا ہے۔تالے پڑے رہتے ہیں۔ وفاق میں اکرم درانی ہائوسنگ کے وزیر تھے لہٰذا برسوں کوئی ان دو کمروں میں رہنے کی جرات نہ کر سکا۔ پورے ملک میں سیاحت کا فروغ کیا ہوتا ہر سرکاری ریسٹ ہائوس مولانا اور ان کے ساتھیوں کی ملکیت بنا ہوا تھا۔ نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں شکر گڑھ کے ایک بزرگ رکن اسمبلی چودھری سرورکشمیر کمیٹی کے سربراہ بنے۔ ایک بار ان سے ملاقات کے لئے پارلیمنٹ لاجز گیا۔ بالکونی میں خود ایک تسلے میں لکڑیاں جلا کر گائوں سے لائے حقے کو تازہ کر رہے تھے۔ خیر سے مولانا نے اس کشمیر کمیٹی کی سربراہی کے دوران کئی ملکوں کے دورے کئے۔ کئی واقفان حال نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ مولانا کشمیر کی بجائے پاکستانی سفارت کاروں کو آسودہ حال افراد سے ملاقاتیں طے کرنے کا کہتے۔ ان ملاقاتوں میں اپنے مدارس کے لئے چندے کی اپیل کی جاتی۔ ایک سینئر صحافی نے ٹی وی شو میں قصہ سنایا کہ مولانا فضل الرحمن نے ایک بار حکومت کو شکایت کی کہ ان کو ملنے والی سرکاری کاریں دشوار گزار اور دور دراز علاقوں میں جانے کے لئے آرام دہ نہیں اس لئے انہیں ایک فور وہیلر دی جائے۔ان دنوں پجاروکاشہرہ تھا۔ واپڈا نے چند روز استعمال میں رہی ایک نئی پجارو بمعہ ڈرائیور مولانا کی خدمت میں پیش کر دی۔ واپڈا کے چیئرمین کے طور پر لیفٹیننٹ جنرل ذوالفقار نے ذمہ داری سنبھالی اور رشوت میں دی گئی گاڑیاں واپس لینے کی ہدایت کی۔ مولانا فضل الرحمن سے بھی پجارو واپس کرنے کو کہا گیا تو انہوں نے گاڑی کے چوری ہونے کا بتایا۔ مولانا کی جانب سے گاڑی چوری کی ایف آئی آر بھی واپڈا کو ارسال کی گئی۔ تحقیقات پر معلوم ہوا کہ پجارو کا رنگ اور نمبر پلیٹ تبدیل کر دیا گیا ہے اور وہی گاڑی جمعیت علمائے اسلام کی ملکیت ایک موٹر سائیکل کی نمبر پلیٹ کے ساتھ مولانا کے استعمال میں تھی۔ ڈیرہ اسماعیل خان میںشہدا کے لواحقین کے لئے رکھی سینکڑوں کنال اراضی مولانا کے ذاتی معتمد اور ان کے بھائی لطف الرحمن کے سیکرٹری کے نام جنوری 2005ء میں ٹرانسفر کی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ جنرل مشرف نے چھ مذہبی جماعتوں کے اتحاد ایم ایم اے سے وردی اتارنے کی مدت کے حوالے سے جو معاملات طے کئے تھے یہ اراضی اس کی خدمت کا معاوضہ تھا۔ مولانا ایم ایم اے کے سیکرٹری جنرل تھے۔ مولانا کا طرز سیاست بظاہر کسی اخلاقی یا نظریاتی اصول سے مطابقت نہیں رکھتا۔ان کی سیاست خالصتاً مادی فوائد کو اہمیت دیتی ہے اس لئے ریاستی وسائل اور عوامی خزانے کی لوٹ مار کو جائز سمجھنے والے ہر حکمران کے لئے مولانا کے لئے وقفے وقفے سے مراعاتی پیکیج آتے رہے۔ بس یہی وہ شرط ہے جو عمران خان نے تسلیم نہ کی اور خود کو یہودی کا ایجنٹ کہلوا لیا۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اپوزیشن سرگرم ہو رہی ہے تو یہ خام خالی ہے۔ یہ صرف مولانا ہیں جو کبھی آصف علی زرداری سے التماس کرتے ہیں کبھی لندن میں میاں نواز شریف کو پیغام پہنچاتے ہیں کہ حکومت کو ہٹانے کے لئے تحریک کی حمایت کریں۔ حمایت کی بجائے آپ چاہیں تو مالی تعاون کے الفاظ استعمال کر کے زیادہ بلیغ مفہوم تک پہنچ سکتے ہیں۔ مولانا کبھی ایسا کاروبار نہیں کرتے جو گھاٹے کا ہو۔ وہ جانتے ہیں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت کے پاس اربوں ڈالر ہیں۔ مولانا ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے اس رقم کا کچھ حصہ لینا چاہتے ہیں۔ ان کا پہلا پروجیکٹ گزشتہ برس ناکام رہا۔ دھرنا حکومت کے لئے خطرہ پیدا کئے بنا ختم ہو گیا۔عید گزر گئی آل پارٹیز کانفرنس کا پروجیکٹ حتمی مرحلے میں بتایا جا رہا ہے۔ ہارون الرشید صاحب نے مجھ سے پوچھا کیا تم سمجھتے ہو کہ یہ مذہبی سیاستدان قرآن پاک پڑھتے ہیں اور اگر پڑھتے ہیں تو اس کا مفہوم بھی جانتے ہیں۔ اب میں کیا بتاتا سو ہارون الرشید صاحب نے خود ہی گرہ کھول دی۔ کہا: اللہ تعالیٰ کا قرآن پاک میں واضح اعلان ہے: وہی ہے جو عزت سے نوازتا ہے اور ذلت کا شکار بناتا ہے۔ عزت اللہ دیتا ہے۔ اگر کوئی قرآن کو سمجھنے والا ہو تو کیا وہ دنیاوی عزت حاصل کرنے کے لئے در در پر جائے گا؟ ڈیل کرے گا؟ اراضی‘ گاڑیاں‘ عہدے اور مراعات کے عوض اپنے ساتھیوں کی سیاسی قوت کسی پارٹی کو فروخت کرے گا؟ علماء کی جگہ بے اصول سیاستدان لے لیں تو یہی انحطاط ظاہر ہوتا ہے۔ مذہبی سیاست دانوں کے متعلق کیا یہ بات باعث حیرت نہیں کہ جب بھی ملک کو ان کی رہنمائی اور کردار کی ضرورت پڑی یہ احتجاج‘ جلا ئو گھیرائو اور ہنگاموں کی راہ پر چل پڑے انہیں سوچنا چاہیے کہ یہ باشعور ہونے کا ثبوت کیوں نہ دے سکے۔ ایک ماہر نفسیات ہیں۔ بتا رہے تھے اپنے 20سالہ کیریئر میں انہوں نے دس ایسے مریضوں کا علاج کیا جو خدا ہونے کا دعویٰ کرتے تھے۔6کے قریب مریض نبی بنے ہوئے تھے۔ علاج کے بعد وہ بھلے چنگے ہو کر خدائے واحد کی عبادت اور خاتم النبینﷺ پر کامل ایمان کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں۔ کیا فرماتے ہیں وزیر اعظم بننے کے خواہش مند مولانا حضرات بیچ اس نفسیاتی مسئلے کے۔