گجرات کے ڈویژن بننے کے بعد ضلع منڈی بہاؤالدین اور اہمیت اختیار کر گیا ہے اور ضلعی سیاست میں جھوٹی سچی خبریں اور افواہیں گرم ہیں۔ہم ان خبروں کی تصدیق کرنے کے اہل نہیں تا ہم ان افواہوں اور جھوٹی سچی خبروں کے تناظر میں ضلعی سیاست کے منظر نامے کے بارے میں کچھ ضرور عرض کرنا چاہیں گے۔یہ کہنا بھی مناسب لگتا ہے کہ ضلع بننے کے بعد یہاں کے تمام سیاست دانوں نے پرانے Parent ضلع یعنی گجرات کا تابع مہمل بننے سے انکار کیا ہے اور اپنی الگ شناخت قائم کی۔ خبر ہے کہ چوہدری پرویز الہٰی کے صاحب زادے مونس الہٰی کو پہلی دفعہ اس ضلع میں قومی اسمبلی کے انتخاب کے لیے سیاسی میدان میں اتارا جا رہا ہے۔ شنید ہے کہ وہ ضلع میں نئی حلقہ بندی کے بعد اس حلقے سے قومی اسمبلی کا انتخاب لڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں جہاں ساجد احمد خان بھٹی صوبائی اسمبلی کے ممبر ہیں۔یہ نیا مجوزہ قومی حلقہ پاہڑیانوالی، پھالیہ، قادر آباد اور میانہ گوندل پر مشتمل ہو سکتا ہے۔ضلع کے موجودہ دو قومی حلقے،حلقہ 86 منڈی بہاؤالدین ملکوال شہر اور تحصیل اور حلقہ 85 منڈی بہاؤالدین اور پھالیہ شہر پر مشتمل ہیں۔ ضلع کے نئی ابھرتی ہوئی طاقت نے جس کی قیادت محمد خان بھٹی کے پاس ہے اپنی سیاسی حکمت عملی اور مزاج نے اپنے صوبائی حلقے میں وہ مقبولیت حاصل کر لی ہے کہ مونس الہٰی کی نظر میں وہی حلقہ آسان بھی اور مناسب ترین لگا اور اسی حلقے سے ان کے قومی اسمبلی کا انتخاب لڑنے کا زیادہ چانس ہے۔ ضلع کے دونوں حلقوں میں قومی اسمبلی کے روایتی امیدواران میدان میں اترنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں مگر ایک حلقے میں مونس الہٰی کی انٹری کی خبرنے حلقے کے پرانے روایتی سیاست دانوں اور سیاست میں ہلچل پیدا کر دی ہے۔خبریں عام ہیں کہ ضلع کی دو قومی اسمبلی کے حلقہ ہائے انتخاب کی نئی حلقہ بندی کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔منڈی بہاؤالدین ملکوال شہر اور گوجرہ اور بوسال جیسے قصبہ جات کو ایک حلقے میں شامل کیا جا رہا ہے۔اگر یہ منصوبہ یا تجویز مصدقہ ہے تو ضلع کے سارے سیاست دان ایک حلقے میں محدود ہو جائیں گے۔اگر مجوزہ حلقہ بندی کا فیصلہ ہو جاتا ہے تو پرانے سیاست دانوں اور امیدواران کو بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یوں ضلع کے پرانے کھلاڑیوں کے لیے ایک مشکل صورت حال سے دوچار ہونے کے امکانات ہیں۔ ضلع منڈی بہاؤالدین دو قومی اور چار صوبائی اسمبلی کی سیٹوں پر مشتمل ہے۔قومی اسمبلی کی ایک سیٹ منڈی بہاؤالدین اور پھالیہ پر اور ایک ملک وال شہر اور گوجرہ پر مشتمل ہے۔ ملکی سیاست میں پیہم ڈرامائی تبدیلیوں کی وجہ سے یہ حلقہ پورے پنجاب کی سیاست کا مرکز بننے والا ہے۔ملک وال کی قومی اسمبلی کا حلقہ عموماً دو بڑے دھڑوں اور گھروں کا میدان کارزار بنتا آ رہا ہے۔ایک بوسال خاندان اور دوسرا گوجرہ کا گوندل برادران کا خاندان ہے۔ گوجرہ کے گوندل برادران کا ظہور 1988 کے الیکشن میں ہوا جب نذر محمد گوندل پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر کھڑے ہوئے۔ 1990 میں آزاد حیثیت میں قابل ذکر ووٹ لے کر ہمیشہ کے لیے اس حلقے کی سیاست کے اہم کردار بن گئے۔یوں گوجرہ کے گوندل برادران اس حلقے کی سیاست میں پچھلے پینتیس سال سے میدان میں ہیں۔وہ انتخاب میں کامیاب ہوں یا ناکام وہ اس حلقے میں سرگرم عمل ہیں۔اس حلقے کے دوسرے اہم امیدوار ناصر بوسال ہیں جن کا خاندان پاکستان کے قیام سے پہلے سیاست کے اہم ترین کھلاڑی ہے۔وہ اس وقت بھی ممبر قومی اسمبلی ہیں ان کے والد اقبال بوسال ، چچا نواز بوسال اور بزرگ جہان خان بوسال مرکزی اسمبلی کے ممبر رہے ہیں۔ یہ بھی خبریں ہیں قومی اسمبلی کا ایک حلقہ منڈی بہاؤالدین شہر پھالیہ ملک وال شہر پر مشتمل بنانے کی تجویز ہے۔اسی حلقے میں گوجرہ اور بوسال کے موضع جات شامل کرنے کی تجویز ہے۔یوں یہ حلقہ وہی بن جاتا ہے جو بوسال اور گوجرہ خاندانوں کا روایتی حلقہ ہے۔ اس نئے مجوزہ حلقے میں دونوں قومی پارٹیوں یعنی تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن میں سر دھڑ کی بازی لگائی جا رہی ہے۔پہلے دیکھ لیتے ہیں کہ اس حلقے میں مسلم لیگ کو کیا مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔اس حلقے میں ن لیگ کے ٹکٹ کے حصول کے لیے مشاہد رضا آف چیلیانوالہ اور موجودہ ایم این اے ناصر بوسال کے درمیان جوڑ پڑنے کا امکان ہے۔کہا جاتا ہے کہ مشاہد رضا مسلم لیگ کی چیف آرگنائزر مریم نواز شریف کے قریبی ساتھیوں میں شامل ہیں۔یوں یہ گھمسان کا رن مشاہد رضا اور ناصر بوسال کے درمیان انتہائی دلچسپی کا حامل ہو گا۔اگر مقبولیت کی بنا پر ٹکٹ الاٹ ہوا تو اس حلقے سے ناصر بوسال ہی ن لیگ کے امیدوار ہوں گے۔اس حلقے سے صوبائی دو سیٹوں پر ن لیگ کی حمیدہ وحید الدین اور تحریک انصاف کے عادل امتیاز کے درمیان سخت مقابلے کی توقع ہے۔دوسری صوبائی سیٹ پر وسیم افضل چن Aپی ٹی آئی اور غلام حسین بوسال کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہو گا۔خبروں کے مطابق منڈی بہاوالدین ملک وال شہر اور گوجرہ اور بوسال جیسے گاؤں ایک حلقے ایک حلقہ بننے سے ضلع کے سارے لیڈروں کا ناطقہ بند کیا جا سکتا ہے۔ ملکوال شہر کی صوبائی سیٹ پر وسیم افضل چن کے مقابلے میں کوئی ایسا امیدوار نہیں جو میدان میں آ سکے۔غلام حسین بوسال سجاد احمد خان بھٹی کے مقابل الیکشن لڑنے کی بجائے وسیم افضل چن کے خلاف لڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔چن برادران کا اس سیٹ پر بوسال خاندان کے علاوہ کوئی امیدوار نہیں ٹھہر سکتا۔پاہڑیانوالی، پھالیہ، قادر آباد اور میانہ گوندل کی مجوزہ قومی اسمبلی کی سیٹ پر ق لیگ اور تحریک انصاف کے ممکنہ متفقہ امیدوار مونس الہٰی کے نیچے دو صوبائی اسمبلیوں میں بسمہ ریاض اور سجاد احمد بھٹی بہترین امیدوار ہو سکتے ہیں۔یہ مجوزہ حلقہ جاٹوں کی راجدھانی ہے لہذا ان تینوں جاٹوں کو ہرانا تقریباً ناممکن ہے۔جاٹوں کی پگ ویسے بھی مونس الہٰی اور چوہدری پرویز الہٰی کے پاس ہے۔